Monday 1 August 2011

آخریہ بم دھماکے ہوتے ہی کیوں ہیں ؟

وسیم راشد
دہشت گردی ایک ایسا مرض ہے جس نے آج کل پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسے روکنے کی جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس میںاتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مرض کچھ اور ہے اور علاج کچھ اور ہی کیا جا رہا ہے۔ سرکار کو پتہ ہے کہ مرض کی اصل جڑ کہاں ہے، لیکن ووٹ بینک کی سیاست سے مجبور ہو کر وہ لوگوں کے دھیان کو بھٹکانا چاہتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے…
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اور شاید یہ آگے بھی ہوتے رہیں، اگر چند بنیادی کمزوریوں کو ٹھیک نہ کیا گیا۔ یہ بنیادی کمزوریاں نہ صرف شہریوں کے اندر ہیں بلکہ پولس نظام اور ملک کی ان ایجنسیوں میں بھی ہیں جن کے اوپر قانون کو نافذ کرنے اور نظم و نسق کو بنائے رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں دہشت گرد بڑی خاموشی سے اپنا کام انجام دیتے رہیں اور پولس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ میں نے چند دنوں پہلے ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران فوج کے ایک جنرل کی زبانی سنا تھا کہ ملک کے اندر سب سے بہتر انٹیلی جنس پولس محکمہ کے بیٹ انچارج (Beat Incharge) کے پاس ہوتا ہے، یعنی وہ پولس والا جسے کسی چوراہے، گلی محلے یا کسی چھوٹے علاقہ میں تعینات کیا جاتا ہے، اس کے پاس خفیہ خبر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ ملک کی بڑی سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی سے زیادہ پختہ خبر پہنچا سکتا ہے۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ گلی، محلوں اور چوراہوں پر تعینات یہ پولس والے آخر کرتے کیا ہیں؟
میں نے اکثر و بیشتر راہ سے گزرتے وقت یہ دیکھا ہے کہ کوئی پان بیڑی بیچنے والا یا پھر سڑک کے کنارے ریہڑی لگانے والا کسی پولس والے کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے یا پھر اس کے ساتھ تلخ کلامی کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے جب قریب سے جاکر اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ چونکہ وہ پان بیڑی بیچنے والا یا ریہڑی لگانے والا پولس والے کو اپنی دکان غیر قانونی طریقے سے لگانے کی وجہ سے پیسے دیتا ہے اس لیے اسے پولس والے سے ڈر نہیں لگتا۔ پولس والا سے اس کی اکثر و بیشتر جھڑپ اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ وہ پولس والے اس سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اس پولس والے کی جگہ پر، جسے وہ پہلے پیسے دیا کرتا تھا، اب کوئی نیا پولس والا آگیا ہے اور اس سے زیادہ پیسے وصول کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح ہم سب نے اکثر و بیشتر سڑکوں پہ دیکھا ہوگا کہ پرائیویٹ بس کے ڈرائیور یا کنڈکٹر ٹریفک پولس سے نہیں ڈرتے، اور بہت ہی غلط طریقے سے بس چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں اور آخر کار دہلی حکومت کو سڑکوں سے پرائیویٹ بسوں کو ہٹانے کا فیصلہ لینا پڑا۔ پرائیویٹ بس والا یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے پولس کو پیسے کھلائے ہیں، لہٰذا اسے غیر قانونی طریقے سے بس چلانے کا اور لوگوں کو مارنے کا گویا سرٹیفکیٹ حاصل ہو گیا ہے، اس لیے وہ پولس والے سے نہیں ڈرتا۔لیکن اس کے برعکس ایک شریف آدمی ہر وقت پولس والے سے ڈرتا ہے۔  ان دونوں مثالوں کا اگر دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر مطالعہ کیا جائے تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں جتنے بھی غیر قانونی کام کرنے والے لوگ ہیں وہ پولس سے اس لیے نہیں ڈرتے کیوں کہ وہ کسی نہ کسی بہانے پولس والوں کو پیسہ کھلاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پولس ان کے گناہوں کی طرف سے آنکھ موند لیتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون کو توڑنے والے یہ شر پسند اور سماج دشمن عناصر ایسی سرگرمیوں کو انجام دے دیتے ہیں، جس کا شمار دہشت گردانہ واقعات میں ہونے لگتا ہے۔
اب آئیے بم دھماکوں کے پیچھے کارفرما اپنی دوسری بنیادی غلطیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ چند دنوں قبل ہمارے ایک جاننے والے (جو اتفاق سے ایک صحافی بھی ہیں) کی موٹر سائیکل غائب ہوگئی۔ وہ بیچارہ دوڑا ہوا، پولس تھانے گیا اور تھانہ انچارج سے اس کی شکایت کی، اس نے اپنی طرف سے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر بھی درج کرانے کی کوشش کی، لیکن پولس نے ایف آئی آر درج نہیں کی اور اسے سمجھا بجھا کر گھر واپس بھیج دیا کہ کچھ پتہ چلا تو ہم آپ کو ضرور بتا دیں گے۔
مان لیجئے کسی دہشت گرد گروپ نے کہیں دھماکہ کرنے کے لیے چوری کی گئی اس موٹر سائیکل کا استعمال کردیا، تو اس میں پھنسے گا کون؟ ظاہر ہے جس کے نام پر یہ موٹر سائیکل تھی، وہی پھنسے گا، کیوں کہ دھماکے کے بعد پولس کو ایک پختہ ثبوت مل جائے گا کہ فلاں جگہ پر کیے گئے دھماکے میں فلاں شخص کے نام سے خریدی گئی موٹر سائیکل کا استعمال ہوا ہے۔ پولس آئے گی، اسے اٹھاکر لے جائے گی اور پھر پورا میڈیا ہفتوں مہینوں تک اپنے طریقے سے پورے ملک کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہے گا کہ اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ یہی شخص ہے۔ یہ شخص اپنے بچاؤ میں کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کر سکتا۔ البتہ جس وقت اس کی بائک چوری ہوئی تھی، اور اس نے پولس کو اس کی اطلاع دی تھی، اس وقت اگر اس کی ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو اس کے ہاتھ میں آج اپنے بچاؤ میں ایک پختہ ثبوت ہوتا، جس کی بنیاد پر شاید وہ دہشت گردی کے اتنے بڑے الزام سے بچ جاتا۔
ملک میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد جس طرح اور جتنی تیزی سے چند لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر ان کے خلاف ثبوت بھی جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر اسی قسم کے حالات سے دو چار ہوتے ہوں گے۔ کسی کے پاس سے فرضی پاسپورٹ ملتا ہے اور پھر پولس کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ٹریننگ لینے کے لیے پڑوس کے ملک گیا تھا جہاں سے اسے پوری ٹریننگ، پیسے اور دھماکہ خیز مادّے کے ساتھ ہندوستان میں بم دھماکے کرنے کے لیے واپس بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ ہر معاملے میں نہ سہی ایک دو معاملے ایسے ضرور سننے کو مل جاتے ہیں کہ چونکہ پاسپورٹ قانونی طریقے سے بنانا ایک ٹیڑھی کھیر ہے جب کہ پولس یا پاسپورٹ دفتر میں کام کرنے والے کسی ملازم کو پیسے کھلاکر آسانی سے پاسپورٹ بنوائے جا سکتے ہیں، اس لیے اس قسم کے فرضی پاسپورٹ بنا دیے گئے اور بعد میں وہ شخص دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پایا گیا۔
یہ ہیں وہ بنیادی کمزوریاں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم واقعی ملک کے اندر امن و امان چاہتے ہیں۔ آج ملک کے عام شہریوں کی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ چونکہ کوئی بھی سرکاری کام جائز طریقے سے نہیں کرایا جاسکتا ، اس لیے ہر کام ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے کرنے میں حرج کیا ہے، پکڑے جانے پر پولس والوں کو پیسے کھلا دیں گے، معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ ملک سے دہشت گردی کو اگر ختم کرنا ہے، تو لوگوں کی اس ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب سرکاری ملازمین رشوت لے کر کام کرنا بند کردیں اور پولس والے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پیسہ لے کر کسی بھی غلط کام کو کرنے کی اجازت نہ دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب پولس والے سے پوچھا جاتا ہے کہ بھئی! پیسہ وصولی کیوں کرتے ہو، تو جواب ملتا ہے کہ صاحب کو پہنچانا پڑتا ہے۔ اب وہ صاحب کون ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صاحب لوگ اگر چاہیں تو ملک کے اندر پرندہ پر نہیں مار سکتا، سرحد پار سے کیا ملک کے اندر کے کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی جگہ پر جاکر بم رکھ دے اور بے گناہوں کے خون سے ہولیاں کھیلتا رہے۔ صاحب کا اگر یہ فرمان پولس والے کو مل جائے کہ میں کچھ نہیں جانتا، میرے حلقے یا علاقے میںایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو تھانہ انچارج کی خیر نہیں، دہشت گردوں کو تو بعد میں پکڑا جائے گا پہلا جواب تو آپ پولس والوں کو دینا ہوگا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ پھر دیکھئے، یہی پولس والے کیسے ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔
شیو راج پاٹل جب وزیر داخلہ تھے، تو ملک میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے کئی واقعات پیش آئے جن میں 26/11 کا ممبئی حملہ بھی شامل ہے، لیکن وہیں جب پی چدمبرم ملک کے نئے وزیر داخلہ بنے تو اچانک ان بم دھماکوں کا سلسلہ بھلا کیسے تھم گیا؟ ظاہر ہے کہ سرکار نے جہاں دہشت گرد عناصر پر لگام کسنے کی ایماندارانہ کوشش کی، وہیں دوسری طرف سرکاری ایجنسیوں کی بھی ذمہ داری اور جوابدہی ضرور طے کی ہوگی، تبھی اتنے اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن گزشتہ 13 جولائی کو ممبئی میں ایک بار پھر تین بم دھماکے ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کی سطح پر اب بھی کچھ نہ کچھ کمزوری رہ گئی ہے، جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دھماکوں کے بعد پور ے ملک سے لوگوں کو گرفتار کرنا، پڑوسی ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا، بی جے پی کا کانگریس حکومت کو ذمہ دار قرار دینا اور اس کی پالیسیوں کو کوسنا اور پھر کانگریس کا پلٹ وار کرتے ہوئے آر ایس ایس وغیرہ کی طرف نشاندہی کرنا تو بہت آسان کام ہے۔ دھماکے کے بعد جھوٹی سچی کہانی گھڑ لینا بھی بہت آسان کام ہے۔ لیکن اصل کام جس کو کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ دھماکہ ہونے سے پہلے ہی اس کا پتہ لگا لیا جائے، بے قصوروں اور معصوموں کو مرنے سے بچا لیا جائے، اس کی سازش کرنے والے افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اگر کہیں پر پولس سے خطا ہوئی ہے تو اسے بھی نہ بخشا جائے۔ 26/11 حملے میں کسی بھی پولس والے کو سزا نہیں ہوئی۔ کیوں نہیں ہوئی، اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ سرکار اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں قانون کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف ملک کے عوام میں عزائم کی کوئی کمی ہے۔ ہر آدمی اپنا کام ایمانداری سے کرے اور الزام دوسروں پر تھوپنے سے پرہیز کرے، تو شاید ہم ایک پرامن ہندوستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

Wednesday 27 July 2011

کابینہ میں نئی ردوبدل، بے وقت کی راگنی

وسیم راشد
وزیراعظم منموہن سنگھ نے حالیہ دنوں میں دوسری بار اپنی کابینہ میں ردو بدل کی ہے۔ اس ترمیم میں کچھ نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں تو کچھ پرانے وزراء کو فارغ کردیا گیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ترقی دے کر کابینی درجے کا وزیر بنا یا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 نئے چہروں کو قلمدان دیے گئے ہیں جبکہ 7کو  باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ در اصل منموہن سنگھ پر حزب اختلاف کے ساتھ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی جانب سے ایک عرصے سے یہ تنقید کی جارہی تھی کہ وہ گزشتہ حکومت کے مقابل اس بار سست روی کے شکار ہوگئے ہیں، ساتھ ہی ان پر یہ بھی الزام تھا کہ ان کے کئی وزراء اپنی ذمہ داریوں کوبہتر ڈھنگ سے نہیں انجام دے رہے ہیں۔ اس تنقید سے بچنے کے لیے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں ردو بدل کیا ہے ۔کابینہ میں ان کے اس رد وبدل کو الگ الگ نظریے سے دیکھا جارہا ہے۔کوئی اسے عوام میں کانگریس کی بگڑتی ساکھ کو بحال کرنے اور آنے والے سال میں اتر پردیش میں ہونے والے عام انتخاب کی تیاریوں کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے عوام کو بہلانے کے لیے ایک لالی پاپ سے تعبیر کررہا ہے۔حقیقت جو بھی ہو، لیکن منموہن سنگھ کے اس ردو بدل سے یہ اشارہ تو مل ہی رہا ہے کہ ان پر سست روی کا اوران کی پارٹی پر بد عنوانی اورمہنگائی پر قابو نہ پانے کا جو الزام لگتا رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے یہ ایک حتمی اور آخری کوشش کی گئی ہے،تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اس ردو بدل کے بعد اب ملک کے اندر پھر کبھی کوئی 2 جی اسپکٹرم  نہیں ہوگا،اور نہ ہی آدرش گھوٹالے جیسے واقعات ہوں گے اور نہ ہی کوئی وزیر دولت مشترکہ کھیلوں میں گھپلے کے الزام میں شک کے دائرے میں آئے گا ۔اگر انہوں نے واقعی ایسا ہی سوچا ہے تو ان کی یہ حکمت عملی کچھ کارگر نظر نہیں آرہی ہے،کیوں کہ چند وزراء کو تبدیل کردینے سے مسائل کا حل نہیںنکالا جاسکتا۔ بلکہ اس کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کلیدی وزارتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ وزارتیں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہی ہیں۔ اگروہ اس میں کامیاب نہیں ہورہی ہیں تو ان وزارتوں میں ہی اصلاح و ترمیم کی جائے۔ ایسا اس لیے کہ کسی بھی حکومت کی شبیہ کو عوام میں  بہتر بنانے کے لیے انفرادی طور پر وزراء کے فیصلے کا بہت بڑا رول نہیں ہوتا بلکہ اس میںمجلس وزراء کا بڑا رول ہوتا ہے اور چونکہ اب بھی پرانے لوگوں کا دبدبہ قائم ہے اور کلیدی وزارتوں میں پرانے چہرے ہی موجود ہیں لہٰذا اس معمولی تبدیلی سے کسی بڑے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔دوسری اہم بات یہ کہ وزیر اعظم کو قلمدانوں کی تقسیم کے وقت ملک کی 29 ریاستوں کی نمائندگی اور آبادی کے تناسب کا خاص خیال رکھنا چاہیے،جو اس ردو بدل میں نظر نہیں آرہا ہے۔بلحاظ آبادی مسلمانوں کو نمائندگی دینے سے موجودہ حکومت قاصر رہی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رد وبدل کا یہ عمل اب بھی ہر خطے اور ہر طبقے کو مطمئن کرانے میں پوری طرح ناکام ہے۔ایسی صورت میں جن طبقوں یا جن ریاستوں کو مناسب نمائندگی نہیں مل سکی ہے اس کے لیے منموہن سنگھ کا رویہ کیا رہتا ہے اور ان ریاستوں اور طبقوں کو وہ کس طرح خوش رکھ پاتے ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ محض چند چہروں کی تبدیلی سے حکمرانی کے نظام میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔
ممکن ہے فی الوقت وزیر اعظم کی نگاہ اتر پردیش میں ہونے والے انتخاب پر ہو، اور اسی کو مدّنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس نئے رد و بدل کو انجام دیا ہو۔اگر ایسا ہے تو اس میں بھی انہیں کوئی خاص کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے،کیوںکہ ایک طرف ان کے اس عمل سے یوپی کے کانگریسی کارکنان خاص طور پر راجپوت برادری کے لوگ نالاں نظر آرہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یوپی میں راجپوت ووٹروں کی بڑی اہمیت ہے،اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مایا وتی نے پچھلے انتخاب میں 10 راجپوتوں کو ٹکٹ دیا تھا،جن میں 4 راجپوت اس وقت ممبر پارلیمنٹ ہیں،لیکن منموہن سنگھ نے حالیہ ردو بدل میں راجپوتوں کو کوئی نمائندگی نہیں دی،جس کا منفی اثر آنے والے الیکشن پر پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف نئے چہروں میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے مسلم کارکنان بھی مایوسی کے شکار ہیں،ایسے میں آنے والا الیکشن کانگریس کے لیے کوئی خوشخبری لے کر آئے گا، یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ساتھ ہی سلمان خورشید جو وزارتِ اقلیتی امور کی دیکھ بھال کررہے تھے، انہیں وزارتِ قانون دے دی گئی ہے اور اقلیتی امور کی ذمہ داریاں بطور اضافی ان کے پاس رہنے دی گئی ہیں۔اس سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ حکومت کو اقلیتی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے،اگر دلچسپی ہوتی تو اقلیتی امور کی وزارت کسی نئے وزیر کو باضابطہ طور پردی جاتی۔ اگرچہ خود وزیر اعظم کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے مگر ممکن ہے یہ فیصلہ انہیں کانگریس ہائی کمان کے دبائو میں آکر کرنا پڑا ہو۔
اگر وزیر اعظم وزارتوں میں ردو بدل کرکے واقعی ملک میںخوشحالی لانے اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے ان وزراء کو باہر کا راستہ دکھانا چاہیے تھا جن پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح بد عنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، کیوں کہ جب تک یہ وزراء کیبنٹ میں شامل رہیں گے اس وقت تک عوام کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کئی ایسے وزراء جن کو عام آدمی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کو بھی اہم قلمدان تفویض کردیے ۔ان کے اس فیصلے کو سیاسی مبصرین بے یقینی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، انہیں نہیں لگتا کہ اس رد و بدل سے حکومت مہنگائی یا بد عنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، البتہ کانگریس کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اس فیصلے کو ایک عمل لاحاصل سے تعبیر کرکررہا ہے۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سید شاہ نواز حسین کہتے ہیں کہ پو پی اے حکومت داغدار، اور لاسمتی کی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کابینہ سے وزیر داخلہ پی چدمبرم، وزیر مواصلات کپل سبل اور ولاس راؤ دیش مکھ کو نہیں ہٹایا،جبکہ مسٹر چدمبرم بھی 2 جی اسپکٹرم کے گھوٹالے میں اتنے ہی خطاکار ہیں جتنے کے وزیر مواصلات اے راجا۔ اسی طرح کپل سبل نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے جرمانہ کی رقم میں زبردست کمی کرکے اسے راحت دی اور ولاس رائو دیش مکھ کا نام آدرش ہائوسنگ سوسائٹی کے گھوٹالہ کے سلسلے میں آیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام کو اس بات کی امید تھی کہ وزیر اعظم داغدار وزیروں کو باہر کا رستہ دکھائیں گے مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
اگر غور کیا جائے تو سیاسی مبصرین کے یہ نظریات حقیقت کے بہت قریب ہیں، کیوں کہ منموہن سنگھ نے جو نئی کابینہ تشکیل دی ہے یہ محض دکھاوے کا ایک عمل لگتا ہے، جس میں وزارتیں تو منتقل کی گئی ہیں،نئے چہرے توشامل کیے گئے ہیں لیکن ان سے کوئی نئی امید نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ اگر یہ تشکیل عوامی فائدے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی تو وزارتوں میں جو ردو بدل ہوا ہے اور کچھ وزراء کے قلمدان منتقل کیے گئے ہیں ،ان میں عوامی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں عوامی ضرورتوں سے زیادہ پارٹی کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے اور وزارت کی اٹکل پچو تقسیم کردی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جے رام رمیش جن کے پاس ماحولیات کی وزارت تھی، اور جنہوں نے متعلقہ وزارت میں کئی اہم فیصلے اور اقدامات کیے،لیکن ان سے ماحولیات کی وزارت چھین کر دیہی ترقیات کی وزارت سونپ دی گئی، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ماحولیاتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کو منظوری دینے میں مزاحمت کی تھی،جس کی وجہ سے حکومت کو بے چینی محسوس ہورہی تھی لہٰذا ان سے یہ وزارت لے کر مزاحمت کے دروازے بند کردیے گئے ۔وزیر قانون ویرپا موئیلی کے قلمدان کی تبدیلی میں بھی سیاست کا ہی اثر دکھائی دیتا ہے،کیوںکہ لوک پال بل کے معاملے سمیت کئی امور پر دیگر وزارتوں کے ساتھ ان کی نہیں بن رہی تھی۔حکومت یہ چاہتی تھی کہ سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہو اور لوک پال بل میں وہی نکات شامل ہوں جو کانگریس کے لیے بارآور ہوں،ظاہر ہے موئیلی کے اختلاف کی وجہ سے کانگریس کے لیے پریشانیاں پیدا ہورہی تھیں لہٰذا ان سے وزارت قانون لے کر ان پریشانیوں کا سد باب کردیا گیا۔ گویا کابینہ کی نئی رد و بدل میں عوامی فائدے کم اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے عزائم زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ نیا ردو بدل کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے ہوا ہے یا عوامی و قومی فائدوں کے لیے۔

Wednesday 20 July 2011

پد یاترا: یو پی الیکشن کا ترپ کا پتہ


وسیم راشد
کانگریس کے شہزادے نے یوپی الیکشن میں مایاوتی سرکار کا تختہ پلٹنے کا پورا ارادہ کر لیا ہے اور اس کے لیے انہوں نے کسانوں کا ساتھ دینے کے علاوہ مایا وتی سرکار پر پوری طرح حملہ کردیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ اترپردیش کو دلدل میں لے جارہی ہیں۔علی گڑھ تک کی پد یاترا کے تیسرے دن راہل گاندھی نے گائوں کے لوگوں کو  ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی پوری یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے بار بار یہ بھی کہا کہ دلال اس ریاست کو چلا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی کی مایا وتی سرکار میں کئی خامیاں ہیں۔عصمت دری ، لوٹ مار اور افسروں کی من مانی کی خبروں سے لے کر کسانوں کی زمین کو کم قیمت پر لے کر بلڈروں کے ہاتھوں فروخت کرکے بڑی قیمت وصول کرنے جیسے واقعات  مایا وتی کی حکومت پر ایک بد نما داغ ہے اور ان کو عوام کے سامنے لانے کے لیے راہل گاندھی نے جو قدم اٹھایا ہے اور کسانوں کا ساتھ دینے اور ان کے حقوق واپس دلانے کے لیے پدیاترا کا  جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ اپنے آپ میں ایک اچھا قدم ہے،لیکن اس وقت ہمارے ذہن میں بار بار ایک محاورہ آرہا ہے کہ راہل جی کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آرہا ہے مگر اپنی شہتیر نظر نہیں آتی ہے۔یو پی سرکار کو انہوں نے ایک دلال سے تعبیر کیا ہے۔میں یوپی سرکار کے دفاع میں کچھ کہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس وقت میرا یہ موضوع ہے،لیکن جو بات میرے ذہن میں بار بار آتی ہے ،یہ ہے کہ یوپی سرکار کو دلال کہنے سے پہلے انہیںایک مرتبہ مرکز میں اپنی سرکارکی کارکردگی پر نظر ڈال لینی چاہیے جو بد عنوانیوں کے متعدد الزامات سے گھری ہوئی ہے۔2 جی اسپیکٹرم کا معاملہ ہو یا دولت مشترکہ کھیلوں میں گھوٹالے کا الزام ، آدرش گھوٹالے ہوں یا پھر پی ایف میں ہیرا پھیری۔غرض یہ وہ الزامات ہیں جو راست کانگریس سرکار پر عائد ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاملات اتنے سنگین ہیں کہ اس کا جواب دینا کانگریس کے لیے بھاری پڑ رہا ہے، ایسے میں وہ اس پد یاترا کے موقع پر یوپی سرکار کو دلال کہہ کر عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ ان الزامات کی وجہ سے عوام میں کانگریس کی جو شبیہ بگڑی ہے اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں،کیا وہ اپنی اس مہم کو آنے والے الیکشن میں کیش کرانا چاہتے ہیں؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ، چونکہ بہار میں گزشتہ الیکشن کے موقع پر اپنی انتھک کوششوں کی وجہ سے انہیں زبردست کامیابی کی امید تھی، مگر انہیں صرف مایوسی ہاتھ لگی اور نتیش کمار کی پالیسی نے انہیں بہار کی زمین پر قدم جمانے کا موقع نہیں دیا، اب وہ یوپی میں اپنی سیاسی طاقت دکھا کر بہار کی خفت مٹانا چاہتے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صوبہ یوپی جس کا مرکز میں حکومت بنانے اور بگاڑنے میں بڑا کردار ہوتا ہے  اوریہ یہاں سیاسی قدم جمانااسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مایا وتی کی مضبوط سیاسی دیوار میں نقب لگائی جائے۔اس کام کے لیے انہیں کسی موقع کی تلاش تھی اور اب جبکہ کسانوں کی زمین کا معاملہ ان کے ہاتھ لگا ہے تو وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے اور اس کا فائدہ اٹھا کر مایا وتی کے خلاف ماحول بنا کر اپنے لیے زمین ہموار کررہے ہیں،جیسا کہ اس طرح کے اشارے مختلف پارٹی کے لیڈران بھی دے چکے ہیں۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر شاہ نواز حسین نے راہل گاندھی کی اس پد یاترا کو ’’ کانگریس کا ایک منصوبہ بند پروگرام ‘‘ کہاہے۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈر شیوپال سنگھ یادو نے  کہا کہ ’’ راہل کی پد یاترا ایک ڈرامہ ہے، وہ گائوں والوں کے ساتھ کھانا کھاکر ان غریبوں کو کیا دے سکیں گے‘‘۔ اس سلسلے میں اوما بھارتی نے راہل گاندھی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جس طرح بھٹہ پارسول میں جاکر کسانوں کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں، اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر میں جاکر ان کسانوں کے بارے میں باتیں کرتے اور لینڈ ایکوائرمنٹ کے تعلق سے کسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی فیصلہ کرواتے۔ بی کے یو کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’جو دہلی  کے اے سی روم میں بیٹھنے کے عادی ہوں وہ کسانوں کے لیے کیا لڑائی لڑ سکیں گے، راہل پہلے کھیتوں میں کام کرنا سیکھیں پھر کسانوںکے حقوق کی باتیں کریں‘‘۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ راہل کی پد یاترا کے پس پردہ کسانوں کے لیے ہمدردی ہوسکتی ہے ،اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی مسئلے کا حل یا ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے پد یاترا کی نمائش ضروری ہے؟ کیا عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ کسانوں اور عوام کے ہمدرد ہیں، گائوں گائوں جاکر میٹنگیں کرنا ،جس سے ریاستی حکومت کے لیے سیکورٹی کے مسائل کھڑے ہوں، ضروری ہے؟ یہ سچ ہے کہ پد یاترا کی اپنی ایک اہمیت ہے اور پد یاترائوں کے ذریعہ حکومت کی توجہ حساس مسائل کی طرف مبذول کرانے کی روایت رہی ہے اور اس کے فوائد بھی دیکھنے کوملے ہیں ۔چنانچہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے 1983 میں کنیا کماری سے باپو سمادھی، راج گھاٹ تک کی پد یاترا کی تھی۔ ان کی یہ پد یاترا عوام میں اپنی ساکھ بنانے اور اندرا گاندھی حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے تھی۔ انہوں نے اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی ۔اسی طرح 1987 میں سنیل دت نے اپنی بیٹی پریہ دت کے ساتھ عوام میں خود کو متعارف کرانے کے لیے پدیاترا کی۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ 1989 کے انتخاب میں انہیں کامیابی ملی۔ 2003 میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے آندھرا پردیش کی صورت حال میں سیاسی تبدیلی کے لیے ایک پد یاترا کی۔اس کا فائدہ انہیں 2004 میںریاست میں ہونے والے انتخاب میں ملا اور انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ فروری 2011 میں سابق کانگریس ایم پی جگموہن ریڈی نے ایک پد یاترا پولوارام ایریگیشن پروجیکٹ کی حمایت میں کی۔اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد لیڈروں نے پد یاترا کے ذریعہ عوامی رجحان کو اپنے حق میں کرنے، اور حکومت وقت کی کوتاہیوں کو منظر عام پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پد یاترا ہی ایک ایسا راستہ رہ گیا ہے جس کے ذریعہ ایک لیڈر بہترین لیڈر مانا جائے، یا اس لیڈر کو عوام دوست سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی جن کو ایک کامیاب وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا،نے کبھی کوئی پد یاترا نہیںکی اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کسی ریاست میں اس طرح کی مہم چلائی۔اس کے باوجود انہیں ایک اچھا لیڈر، عوام کا ہمدرد اور دلوں پر راج کرنے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
بہر کیف، ایک ایسے وقت میں جب کہ مہنگائی ایک قومی مسئلہ بنی ہوئی ہے،بدعنوانی کی وجہ سے عوام بے حال ہے ،ایسے میں راہل گاندھی کا یوپی ریاست میں کسانوں کے لیے پدیاترا کرنا واضح کرتا ہے کہ وہ یوپی میں کانگریس کے لیے میدان بنا رہے ہیں ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ریاستی سرکار کی کوتاہیوں کو اجاگر کیا جائے، مرکزی سرکار کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی جائے،مگر ایسا لگ رہا ہے کہ شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ عوام ان کی اس ہنگامی پد یاترا کو سمجھنے لگے ہیں اور یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس پد یاترا میں کسانوں اور عوام کی ہمدردی کم اور ووٹ بینک کی سیاست زیادہ نظر آرہی ہے۔اسی لیے وہ جہاں بھی جاتے ہیں یوپی سرکار کو اپنے نشانے پر ضرور لیتے ہیں۔بہرکیف، اس پدیاترا سے  وہ چاہے مایا سرکار کا تختہ پلٹنے میں کامیاب ہوں یا نہیں لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ لڈو ٹوٹے گا تو تھوڑا تو جھڑے گا ہی۔ وہ اپنی اس پد یاترا کے طفیل میں کچھ نہ کچھ سیاسی فائدہ حاصل کر ہی لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پد یاترا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ گائوں کے لوگوں کا من موہ لینا چاہتے ہیں۔لیکن وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Saturday 2 July 2011

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

وسیم راشد
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا…جو چیرا تو ایک قطرئہ خوں نہ نکلا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ایڈیٹرز سے بند کمرے میں ہوئی ملاقات کے بعد نہ جانے بار بار یہ شعر کیوں ذہن میں آرہا ہے۔ اس قدر ہنگامہ تھا کہ وزیر اعظم ایڈیٹرز سے ملنے والے ہیں، فلاں وقت طے ہوا ہے،5 اخبار کے ایڈیٹرز ہیں۔ لیکن جب ان 5 اہم ایڈیٹرز کے نام سامنے آئے تو پھر یہ کہاوت یاد آئی کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں، اپنے اپنوں کو دے ۔ بھئی اخبار ان کے اپنے ،ایڈیٹرز ان کے اپنے، سوالات ان کے اپنے، مطلب کے جوابات ان کے اپنے ،تو پھر کیسی کانفرنس ، اس میں عوام کہاں ہیں، عوام کے دکھ درد کہاں ہیں؟بند کمرے میں چلنے والی اس کانفرنس سے یہ 5 مدیران باہر آتے ہیں تو صرف اور صرف وزیر اعظم جی کی زبان بولتے ہیں۔ ان کے Spokes person  بن کر باہر نکلتے ہیں۔ 100 منٹ کی اس آپسی بات چیت میں باتیں تو بہت سی ہوئیں، سوالات بھی ہوئے، مگر کیا حل نکلا ، کچھ نہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ چاہے کمپٹرولر ہو، آڈیٹر جنرل ہو یا پارلیمانی کمیٹی ،شواہد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں تو CAG کی رپورٹ جس طرح شواہدات کے ساتھ سامنے آئی، اس میں کیا کر لیا گیا۔ CWG کے تمام گھوٹالے شواہد ات کے ساتھ ہی منظر عام پر آئے ،اس کے کتنے ممبروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔
وزیر اعظم سے جب پڑوسی ممالک کے بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے سری لنکا کی صورت حال پر بحث کی، بنگلہ دیش کی بات کی، لیکن پاکستان کے مسئلے پر سنجیدہ موقف اپنانے پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا۔ جب بابا رام دیو پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنا وہی رٹا رٹایا جملہ دہرادیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مگر ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وزیر اعظم کے سونے کا انتظار کیا گیا ۔ جب وہ سونے چلے گئے تو پولس کو کاروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر اس وقت کیا کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس کے نتائج کتنے برے ہو سکتے ہیں۔ اگر بابا رام دیو بھیڑ کو بھڑکانے میں کامیاب ہوجاتے اور اپنی گرفتاری دے دیتے تو شاید آج حالات ہی دوسرے ہوتے ، شاید وہ مار اکاٹی ہوتی جس کے نتائج بڑے بھیانک ہوتے، مگر وہ تو رام دیو کو اس وقت کچھ سوجھا ہی نہیں ، اسی لیے پولس ان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر اعظم کے یہ 5 نمائندے کہتے ہیں، وہ نہایت سکون اور اطمینان سے جواب دے رہے تھے۔ ان کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی، تو کیا یہ سبھی حقیقتاً وزیر اعظم کے ہی ترجمان بن کر کمرے سے باہر نکلے تھے۔کیا وزیر اعظم نے مہنگائی کے مسئلہ پر کوئی مثبت رائے دی۔ جب ان کی پارٹی  بر سر اقتدار آئی تھی تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،مگر وہ کتنا اپنا وعدہ نبھا پائے، یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں۔
اب وہ کہتے ہیں کہ 2012  میں مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،پھر وہ اسی طرح کے وعدے باربار کر چکے ہیں۔اس وقت مہنگائی سے غریب عوام بے حال ہے ۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اگر اس وقت سبزیوں کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو
ٹماٹر        17 سے 50 روپے کلو
بھنڈی        7 سے 30 روپے کلو
گھیا        5 سے 15 روپے کلو
توری        20سے 60 روپے کلو
کالی توری        9 سے 25 روپے کلو
کریلا        10 سے 35 روپے کلو
آلو         5 سے 15 روپے کلو
پیاز        12 سے 20 روپے کلو
گوبھی         15 سے 35 روپے کلو
شملہ مرچ        20 سے 55 روپے کلو
یعنی چار گنا قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ  Lame Duck نہیں ہیں ۔کیوں اس گھٹیا استعارہ کی وضاحت کرنے کی وزیر اعظم کو ضرورت پڑی۔ صرف اسی لیے کہ وہ ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ اب عوام کا ان پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے اور عوام حقیقتاً ان کو کٹھ پتلی وزیر اعظم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس قدر مہنگائی، اتنے گھوٹالے،بدعنوانی، استحصال، کسانوں کی خود کشی، عورتوں پر ظلم وستم اور ان کی عصمت دری، آخر کیا ہورہا ہے اس ملک میں؟کیسے چل رہاہے یہ ملک؟ اور اگر وزیر اعظم کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے تو یقینا وہ  Lame Duck  کہے جائیں گے۔ خود وزیر اعظم ماہر معاشیات ہیں ۔ تیل کے دام ہر دو مہینے بعد بڑھ جاتے ہیں ، پٹرول ڈیزل عام آدمی کے لیے سونے چاندی کے مول جیسا ہے۔ وزیر اعظم کو تو اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ کم سے کم عوام کے نمائندوں یا میڈیا یا مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے میٹنگ ہی کر لیں، جو ان کو کچھ تو دکھ درد کا اندازہ ہو۔ عام طور پر ان کی شبیہ الگ تھلگ رہنے والے وزیر اعظم کی بن کر ابھری ہے اور ظاہر ہے پارٹی یا حکومت کے اہم فیصلوں میں ان کا رول بھی زیادہ نہیں ہے۔شاید یہی وجہ رہی ہو کہ اس وقت انہوں نے اپنی بات رکھنے کے لیے اعتماد کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی ہو۔ہاں ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے کہ آنے والے پارلیمنٹ سیشن میں جو پہلی اگست سے شروع ہونے والی ہے، اپوزیشن پارٹی بدعنوانی کا ایشو زور و شور سے اٹھانے کا ارادہ کر چکی ہے۔ ایسے ہی ایک طرف عوام کے ساتھ کمیونی کیشن گیپ اور دوسری طرف حزب مخالف کا یہ ارادہ یقینا کانگریس پارٹی کے لیے مشکلیں پیدا کر سکتا ہے۔شاید اپنی اس امیج کو بچانے کے لیے وزیر اعظم نے اس میٹنگ کا اہتمام کیا ہو، ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ دوری ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم ہر ہفتے سینئر صحافیوں کے ساتھ میٹنگ کریں گے اور اب جو بھی ہو ،یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ سال کانگریس کے لیے پریشانیوں اور مصیبتوں کا سال گزرا ہے، گھوٹالے اور وہ بھی ایسے کہ رقم گنتے گنتے بھول جائیں اور صفر لگاتے لگاتے تھک جائیں۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عوام امید کرتے ہیں کہ ان کے سینئر لیڈر عوام کے رابطے میں رہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اکثر چینل والے یہ پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم لوک پال بل کے تعلق سے کوئی واضح بیان کیوں نہیں دے رہے ، ہو سکتا ہے یہ سب قواعد اسی لیے کی جارہی ہو۔اب چدمبرم جی کو کون بتائے کہ عوام میٹنگ کرنے یا بار بار رابطے ہی میں آنے سے قریب نہیں ہوتے، ان غریبوں کے پیٹ کو روٹی چاہیے۔ ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا کوئی مل جائے تو یہ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کی نہیں پتا ،جو وزراء کام کر رہے ہیں ان کے بارے میں نہیں پتا،فنانس منسٹری میں BUG لگا دیا جاتا ہے ،ہوم منسٹری کو پتہ ہی نہیں کہ چیونگم لگا دیا گیا ہے اور پوری سیکورٹی Compromise ہو گئی ہے۔ بیان دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے  کے تعلق سے ( ان کا یہ جواب وہ بھی اپنا نہیں) میری کابینہ کے ساتھی کہتے ہیں کہ’’ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے سے عدم استحکام پیدا ہوگا جو بعض دفعہ قابو سے باہر ہو سکتا ہے‘‘۔ اب منموہن جی سے کوئی یہ کہے کہ سب کچھ دوسرے کہتے ہیں، آپ بھی کچھ کہیے۔ آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ ہاں ایک اہم بات جو وزیر اعظم نے کہی کہ کوئی بھی آدمی ہندوستان کے وزیر اعظم کو بڑی آسانی سے ہٹا سکتا ہے اس لیے لوک پال سے کیا فائدہ۔تو منموہن جی سے کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ آپ نے ان کو اس لائق چھوڑا ہی نہیں کہ یہ بھوک سے نڈھال غریبی کی چکی میں پس رہے عوام کو آپ نے روزی روٹی میں ایسا الجھا دیا ہے کہ یہ آپ کو ہٹانے کے متعلق تو کیا سوچیں گے ، جواپنی بیماری، بھوک مری سے نجات نہیں پا سکتے۔
وزیر اعظم اگر اسی کمیونی کیشن گیپ کو ختم کرنا چاہتے ہی ہیں تو انہیں عوام کا دل پہلے جیتنا ہوگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بقول ’’ دی ہندو‘‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ وزدھاراجن  کہ عوام وزیر اعظم سے لوک پال بل جیسے ایشو اور بد عنوانی کے تعلق سے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔ہندوستان ٹائمس کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما کہتے ہیں کہ حکومت بد عنوانی کے الزام میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور تمام الزامات آپسی بات چیت سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم کی یہ میٹنگ ایک اسٹیج شو کے سوا کچھ بھی نہیں۔مخصوص صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرنا میٹنگ کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔ان تمام بیانات میں امیج  کنسلٹینٹ دلیپ چیرین کا بیان زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس وقت حکومت کو اپنی امیج بنانے کے بجائے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔انہیں مہنگائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت کانگریس پارٹی جو بھی کر رہی ہے صرف اور صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے کر رہی ہے۔اگر وزیر اعظم کو اپنی ساکھ بچانی ہے تو انہیں عوام  کے دل میں گھر بنانا ہوگا۔ ورنہ تو ہر ہفتے کیا ہر دن میٹنگ کر لیجئے ،مہنگائی غریبی ، بھوک مری، بے روزگاری، بد عنوانی، کرپشن، استحصال، ان سب کا خاتمہ نہیں ہو ا تو کانگریس کا خاتمہ لازمی ہے۔

Friday 1 July 2011

یہ حکومت غریبوں کے لئے نہیں امیروں کے لئے ہے؟

وسیم راشد
یہ میرے سامنے بڑی ہی خوبصورت سی تصویر ہے ہندوستانی خارجہ سکریٹری نروپما رائو اور پاکستان کے خارجہ سکریٹری سلمان بشیر کی۔ دونوں ہی بڑے پرجوش انداز میں اسلام آباد میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔مگر کیا یہ دل ملانے کا کام بھی کر پائیں گے۔ بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ نروپما جی اسلام آباد با قاعدہ پوراوفد لے کر گئی ہیں جس میں ہندوستان سے نہ صرف پاکستان کے سفیر بلکہ یہاں کے صحافی اور بڑے بڑے افسران شامل ہیں ۔ نروپما رائو نے کہا کہ وہ امن و سلامتی کے موضوع پر بات کرنے جارہی ہیں اور انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ان مذاکرات میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعمیری سوچ کے ساتھ شریک ہوں گی۔
اور اب اسی خوشی فہمی والی میٹنگ کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں دوسری ایک اور بڑی خبر کی طرف، جس میں ہندوستانی قیدیوں کو صومالیائی بحری قزاقوں کے ہاتھوں مسلسل 10 ماہ تک قیدی رہنے اور اذیتیں دینے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔اور اس رہائی کا سہرا جاتا ہے حقوق انسانی کے پاکستانی ممبر انصار برنی کے سرجنہوں نے باربار ان بحری قزاقوں سے مذاکرات کرکے ان تمام بد نصیبوں کو گھر اور بیوی بچوں کی شکل دکھلائی ہے۔اگر ان تمام دل خراش اور اعصاب شکن واقعہ کا جائزہ لیں تو بات لمبی تو ہوجائے گی مگر تمام تر واقعات کیسے کیسے ہوئے ، اس کا علم ضرور ہوجائے گااور پوری کہانی کا بھی ،کیونکہ ابھی تک کسی کو بھی اس پورے قصے کا علم نہیں ہے۔
26 جولائی 2010 کو 22 افراد پر مشتمل عملہ کراچی سے بحری جہاز ایم وی سوئزمیں افریقہ کے لیے روانہ ہوتا ہے۔2 اگست 2010 کو بحری قزاق ان پر حملہ کرکے ان سبھی کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ان کی رہائی کے لیے جہاز کے مالک سے ایک سو ملین ڈالر کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے اس جہاز کے مصری مالک عبد المجید مطار اور قزاقوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور صومالی قزاق ان سبھی کو تشد د کا نشانہ بنانا شروع کریتے ہیں۔ تبھی انصار برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، انصار برنی صاحب اس کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اور 27 فروری 2011 کو ان سبھی لٹیروں سے ٹیلی فون سے رابطہ کرتے ہیں ، مگر جب انصار برنی ان قزاقوں کو بتاتے ہیں کہ چاروں پاکستانی اور ہندوستانی سب غریب گھروں سے ہیں تو قزاق اس رقم کو پانچ ملین کر دیتے ہیں ۔اسی دوران جہاز کے کپتان وصی احمد، انصار برنی کو اس تشدد کے بارے میں بھی اطلاع دیتے ہیں جو سبھی یرغمالیوں پربار بار کیا جارہا تھا۔11 مارچ کو قزاقوں نے رقم 23 لاکھ امریکی ڈالر ز کردی، مگر ساتھ ساتھ خبردار بھی کردیا کہ اگر پانچ روز کے اندر اندر یہ رقم ادا نہیں کی گئی تو جہاز پر موجود لوگوں کو قتل کردیا جائے گا۔انصار برنی نے اسی دوران اسلام آباد میں مصر کے سفیر سے رابطہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ جہاز پر مصر، ہندوستان، سری لنکا اور پاکستان کے شہری  ہیں۔ اگر ان ممالک کی حکومتوں نے تعاون نہیں دیا تو حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔مگر نہ ہندوستان کی حکومت پر کوئی اثر ہوا نہ ہی مصر سے کوئی تعاون ملا۔ آخر کار انصار برنی 21 اپریل 2011 کو رقم کا انتظام کرنے ہندوستان آئے،جہاں انہوں نے ان مغویہ حضرات کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اسی دوران ایک ہندوستانی رکن پارلیمنٹ کے ڈی سنگھ نے تاوان کی بھاری رقم کا ایک حصہ دینے کا وعدہ کیا۔لیکن عین موقع پر وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور 6 لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان کرنے کے بعد ٹال مٹول کرنے لگے۔23 مئی 2011 کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی اور ان قزاقوں نے ایک مصری مغوی پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی ، جس سے وہ پوری طرح جھلس گیا ۔ انہوں نے سبھی پر تشدد کی انتہا کردی اور پینے کا پانی تک بند کردیا۔ انصار برنی کی اپیل پر ایک مرتبہ پھر 11 جون تک ڈیڈلائن بڑھادی گئی اور 10 جون کو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مقررہ وقت تک انہیں رقم نہیں ملی تو وہ مصری چیف انجینئر ویل صالح محمد کو گولی مار کر قتل کردیں گے۔ادھر انصار برنی ٹرسٹ نے اکیس لاکھ امریکی ڈالرز کی امداد جمع کرکے رقم شپنگ کمپنی کے ذریعہ مصر کی حکومت کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ میں جمع کرادی اور مصر میں ایک پرائیوٹ کمپنی کا ایک جیٹ طیارہ بھی تیس ہزار ڈالر روزانہ اجرت پر لیا گیا، اور 13 جون2011 کو صومالی قزاقوں نے تمام یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ اس طرح 23 جون کو سبھی لوگ کراچی پہنچ گئے۔
اب آتے ہیں اس تلخ حقیقت کی طرف کہ یہ ہندوستانی قیدی جن میں دو ہریانہ کے، ایک ہماچل پردیش ، ایک تمل ناڈو اور ایک جموں و کشمیر کے اور ایک ممبئی کے تھے۔ ان سب کو 2.1 ملین ڈالر کے عوض رہائی ملی۔ سبھی لوگ24 جون کی صبح 9:36 پر اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر پہنچے۔ جس وقت یہ سبھی طیارے سے باہر نکلے وہ منظر دیکھنے کے لائق تھا، سبھی رشتے داروں کی آنکھوں میں بچھڑنے کا کرب اور ملنے کی خوشی قابل دید تھی۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن کو وہ اٹھائے ہوئے بے صبری سے اپنے والد یا رشتہ دار کا انتظار کر رہے تھے۔سب کی زبان پر ایک ہی نام انصار برنی ، انصار برنی۔ وہ اپنے اسی محسن کا بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے، دعائیں دے رہے تھے۔
یقینا ان قیدیوں کی رہائی باعث مسرت اور انصار برنی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اسی رہائی کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے رشتے داروں کو مبارکباد دی۔مگر کیا ایس ایم کرشنا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خوشی کا اظہار کریں۔ ان 6 ہندوستانیوں کے لیے ہماری حکومت نے کیا کوششیں کیں، کیا حکومت کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خود حکومت کو انصار برنی سے رابطہ کرکے ان کی مدد کی خواہش نہیں ظاہر کرنی چاہیے تھی؟
آپ کے ملک کے لوگ ،6 اہم قیمتی جانیں ،کیا ان کا اسی لیے کوئی مول نہیں تھا کہ وہ غریب لوگ تھے ۔اگر کوئی وزیر کا بیٹا ہوتا ، کارپوریٹ ورلڈ سے کوئی اہم شخص ہوتا، کوئی بڑا آئی اے ایس افسر ہوتا، کوئی بڑا تاجر ہوتا یہاں تک کہ کوئی بڑا نامی گرامی غنڈہ بھی، تو شاید حکومت حرکت میں آتی اور ان کو چھڑانے کے لیے دن رات ایک کر دیتی، مگر یہ قیدی بنائے جانے والے مزدور تھے۔ آج ایک پاکستانی پر پورا ہندوستان فخر کر رہا ہے ، ان بچوں کی آنکھیں انصار برنی کی شکر گزار ہیں۔ان کی بیویاں دونوں ہاتھ اٹھائے انصار برنی کو دعائیں دے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ دعا والے ہاتھ ہیں تو دوسری طرف نروپما رائو اور سلمان بشیر کے ہاتھ ہیں ۔کتنا فرق ہے دونوں ہاتھوں کے ملنے میں۔ حکومت کا رویہ اسی بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ملک کی حکومت صرف اور صرف امیروں اور ڈپلومیٹس کی جان کی حفاظت کی پرواہ کرتی ہے۔ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے عام آدمی کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ اربوں ،کھربوں روپے سوئس بینک میں جمع ہیں ، کروڑوں اربوں کا کھلواڑ کیا جارہا ہے اور غریبوں کی جان بچانے کے لیے حکومت کوڑی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں، ایسی ہی جمہوریت پر جب عوام سوالیہ نشان لگاتے ہیں تو ان ڈپلومیٹس کو کتنا برا لگتا ہے۔
جنہیں چھڑایا گیا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے، جنہوں نے چھڑایا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے ،مگر ان سب میں ایک رشتہ ایک جیسا تھا ، وہ انسانیت کا رشتہ تھا۔ مجھے یاد ہے دہشت گرد وں نے مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی کو اغوا کر لیا تھا اور اس وقت مفتی سعید چاہتے تو تاریخ رقم کر سکتے تھے اور رشتے ناطوں سے الگ ہٹ کر صرف اور صرف ملک کے فائدے کے لیے سوچ سکتے تھے۔ تاریخ بھی بڑا بننے کا موقع ہر ایک کو بار بار نہیں دیتی۔ اگر مفتی سعید ایسا کرلیتے تو آج تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا اور جو مسلمانوں کو بار بار اپنے وطن پرست ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے  وہ صرف ایک عمل سے دیا جاتااور ہر مسلمان ان پر فخر کرتا مگر انہوں نے وہ موقع کھو دیا۔ حکومت بھی چاہتی تو انصار برنی کی جگہ ایس ایم کرشنا کو یہ واہ واہی کا موقع دے سکتی تھی مگر جس کی قسمت پر یہ نام اور شہرت لکھی تھی اس نے کیا۔ آج ہم سبھی کو انصار برنی پر فخر ہے۔

Monday 27 June 2011

سارا پیسہ لیڈروں کی جیب میں۔۔تو عوام کا کیا ہوگا؟

وسیم راشد
عوامی جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک کے عوام حکومت وقت سے خوش ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے انھیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ کانگریس کا یوں تو نعرہ ہے ’کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ‘، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہری سے آپ جاکر پوچھ لیں کہ کیا وہ موجودہ حکومت سے خوش ہے، تو آپ کو شاید ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا، ’نہیں‘۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو ہر گلی کوچے میں ہر شخص یہ کہتا ہوا بھی نظر آ جائے گا کہ ’کانگریس کی حکومت جب جب آئی، کمر توڑ مہنگائی لائی‘۔ تعجب ہے کہ جس پارٹی کے اندر منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی اور مونٹیک سنگھ آہلو والیہ جیسے ماہر اقتصادیات ہوں وہ پارٹی مہنگائی پر قابو نہ کرسکے۔ بی جے پی کو لوگ بنیوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن کانگریس کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے۔ بدعنوانی کی بات کریں تو، کانگریس کی قیادت والی موجودہ یو پی اے حکومت نے ملک کے اندر گھوٹالوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حکومت کا ایک سابق وزیر اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے اور کتنے لیڈر ایسے ہیں جو جیل جانے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ انا ہزارے نے ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کی جب مہم چلائی اور بابا رام دیو نے جب ملک کے عوام کو ہندوستان کے قلب، دہلی میں لاکر جمع کردیا اور حکومت کو کھلی چنوتی دی، تو اقتدار کی چولیں ہل گئیں، ہر وزیر بغلیں جھانکنے لگا۔ آخر کانگریس بدعنوانی مخالف اس عوامی مہم سے اس قدر خائف کیوں ہے۔ اس کا خوف ہی اس کے گناہ کو ثابت کر رہا ہے۔ معاملہ چاہے دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران پیسوں میں کی گئی ہیرا پھیری کا ہو یا پھر سوئس بینک میں جمع کالے دھن کا، اگر کسی روز اس میں ملوث تمام افراد کے نام سامنے آئیں گے، تو اس میں گانگریس کے لیڈروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی کیوں کہ اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کانگریس نے ہی کی ہے۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز، اے او ہیوم نے ڈالی تھی، اور ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے تھے، لیکن انھوں نے یہاں کی بے پناہ دولت کو لوٹنے کے لیے ایوان اقتدار کو اپنے قابو میں کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہندوستان کی دولت انگریزوں کے ذریعہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی جانے لگی۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کانگریس کا یہی حال ہے۔ چہرے بدل چکے ہیں، لیکن نیت وہی ہے۔ دولت کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ لیڈر بن جائیں، اس کے بعد کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آپ کو جائز و ناجائز کسی بھی کام سے روک سکے۔ کانگریس کے اندر ایسے لیڈر ایک ڈھونڈنے سے ہزار ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے موڈ کو بھانپ کر یہ لوگ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر عوام کے اندر بیداری پیدا ہوگئی تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔کسی گاؤں دیہات کے چھوٹے موٹے لیڈر کے پاس اگر آپ یہ تجویز لے کر جائیں کہ فلاں جگہ اسکول کالج نہیں ہیں، بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے ان کے والدین کو پیسوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے، آپ برائے کرم یہاں پر کوئی اسکول یا کالج بنوادیں، تو آپ کو جواب فوراً نفی میں ملے گا۔ ہاں، البتہ وہ لیڈر آپ سے یہ ضرور کہے گا کہ بھلا پڑھ لکھ کر آپ کے بچے کیا کریں گے،ان کے کھیلنے کودنے کے لیے اسپورٹس کمپلیکس بنوا دیتا ہوں، کارخانے لگوا دیتا ہوں جہاں پر ان بچوں کو نوکریاں مل جائیں گی اور ان کی گزر بسر کا انتظام ہو جائے۔ کبھی آپ نے ایسے جواب کے پیچھے چھپے اسباب کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ لیڈر نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں، کیوں کہ تعلیم سے بیداری پیدا ہوتی ہے، اپنے حقوق کو لوگ پہچاننے لگتے ہیں، بڑے ہوکر یہی بچے جب ان لیڈروں سے ان کے گناہوں کا جواب طلب کریں گے تو ان کی مشکلیں بڑھ جائیں گی، اسی لیے وہ ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ملک کے اندر بنیادی تعلیم کا قانون پاس ہو چکا ہے، لیکن جب اسکول ہی نہیں رہیں گے تو پھر تعلیم کا کیا مطلب ہے۔ جو اسکول اور کالج موجود ہیں، ان میں اساتذہ کا ہی تقرر نہیں کیا جائے گا، تو پھر حق تعلیم کا قانون تو بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان کے لیے ارباب اقتدار میں نشستیں محفوظ کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پنچایتی نظام میں تو عورتوں کو پچاس فیصد ریزرویشن دیا بھی جا چکا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ خواتین پر ظلم و ستم کے سلسلے اب بھی جاری ہیں۔ یوپی میں مایاوتی کی سرکار ہے، لیکن وہاں آج بھی عورتوں کی عزت سر عام لوٹی جا رہی ہے اور بیچاری بہن جی کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی یوپی کے لکھیم پور کھیری ضلع کے نگھاسن تھانہ میں 14 سالہ نابالغ لڑکی کی پولس کے ذریعہ عصمت دری کرنے اور پھر اسے مار کر ایک درخت سے لٹکانے کا سنسنی خیز واقعہ سامنے آیا ہے، جو مایاوتی حکومت کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں، یہاں بھی آئے دن عورتوں کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور جب شیلا جی سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت میں عورتیں محفوظ نہیں ہیں، تو وہ لڑکیوں کو دیر رات گھر سے نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ایک طرف تو آپ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں اونچے مقام پر بٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور پھر دوسری طرف آپ ہی انہیں دیر رات گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں، یہ بھلا ممکن کیسے ہے۔ کال سنٹر میں لڑکیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے اور انہیں رات کے وقت ہی اپنے آفس جانا یا پھر آفس سے گھر آنا پڑتا ہے، یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انہیں پوری سیکورٹی فراہم کریں۔
کانگریس کی حکومت میں پولس کا رویہ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے ملک کا پولس نظام انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پولس کا صرف ایک کام تھا، معصوم ہندوستانیوں پر ظلم ڈھانا۔ لیکن آج جب انگریز نہیں ہیں تو پھر پولس کے اس فرسودہ نظام کو درست کیوں نہیں کیا جاتا۔ ملک کے دانشور طبقہ کی یہ رائے ہے کہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے زیادہ تر واقعات میں پولس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی علاقے میں لوٹ مار کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو اس میں ملوث شر پسند عناصر پولس کو پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔ لیکن اگر عام شہری پولس کے پاس چوری کے کسی واقعہ کی رپورٹ لکھوانے جائے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہیں کسی با رسوخ آدمی کا فون پولس کے پاس آ جائے تو پولس چوری کے سامان کو چوبیس گھنٹے میں برآمد کر لیتی ہے، آخر کیسے؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ چوروں اور غنڈوں کی طرف سے پولس کو چوری کے مال سے کمیشن مل جاتاہے، اس لیے وہ اکثر ایسے واقعات کے بعد خاموش ہو جاتی ہے۔ پولس اگر چاہے تو ملک کے کسی بھی حصہ میں پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ لیکن پولس کام اس لیے نہیں کرتی کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اگر پولس کے لوگ ایماندار ہوگئے تو پھر لیڈروں تک وصولی کا پیسہ کیسے پہنچے گا۔ اسی لیے کسی جرم کو ہوتا ہوا دیکھ کر بھی پولس آنکھیں موند لیتی ہے۔
ملک کا عام آدمی سرکار کے اس اندھے بہرے قانون سے کافی پریشان ہے، ملک میں قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں پر اس قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، اگر وہی بے ایمان ہو جائیں تو پھر کون کیا کر سکتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا پڑے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد ان لیڈروں کو جھولی پھیلاکر عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے اور ووٹ کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، لیکن یہی گداگر جب بڑا عہدہ پاجاتے ہیں تو پھر عوام کو اپنی بوٹوں تلے روندنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر ملک کے اندر کسی عوامی انقلاب کی ایسی آندھی چلے کہ کوئی لیڈر بچے ہی نہیں۔ یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے لیڈر اپنا محاسبہ خود کریں اور عوام کی نبض کو پہچانیں، ملک کے وفادار بنیں اور ایسی کوشش کریں کہ اس ملک میں ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو، وہ ہر طرح سے مضبوط بنیں تاکہ ان کے اوپر کوئی ظالم حکمراں نہ مسلط ہو سکے۔
انّا ہزارے اور بابا رام دیو کی تحریک اور اسے ملنے والی عوامی حمایت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف پورے ملک میں ایک چنگاری سلگنے لگی ہے، یہ کب ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرلے ، کسی کو نہیں معلوم۔ حکومت کی طرف سے حالانکہ اسے کچلنے کی پوری تیاری چل رہی ہے، لیکن یہ تحریک اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے اسے انقلاب کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اگر وہ چاہے تو تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہے، مسائل کے حل کے ذریعہ ہی عوام کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے۔ سرکاری نظام میں جہاں جہاں اور جو جو خامیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے۔ سرکار اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہم اپنے ملک کو جنت نشاں بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیسوں کی کمی نہیں ہے، نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے، کمی اگر ہے تو صرف صدق دلی کی، قوت ارادی کی، ملک کے تئیں وفاداری کی۔ اگر سرکار آج سے ہی ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے اور عوام کی خدمت کے فریضہ کو انجام دینا شروع کردے تو پھر ہم ایک سنہرے ہندوستان کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جب تعلیم کا بول بالا ہوگا، صاف و شفاف سرکاری نظام ہوگا تو چوری، ڈکیتی، عصمت دری اور اس جیسے زیادہ تر جرائم خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ ہندوستان عالمی پیمانے پر اپنا قائدانہ رول ادا کرے، لہٰذا ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے اندر کی کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا پڑے گا۔ وقت کی یہی آواز ہے، ہمارے لیڈران اس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہے۔

Monday 20 June 2011

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔

وسیم راشد
یہ ہمارا ملک ہندوستان ہے جہاں ہمارے آئین نے ہمیں ہر طرح کی آزادی دی ہے۔ جب ہم سنتے ہیں We the People of India تو ہم وطن عزیز کی محبت میں سر شار ہو کر خود کو ہر طرح سے محفوظ اور آزاد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کی آزادی ، مذہبی آزادی، بولنے کی آزادی یہ ہمارے وہ بنیادی حقوق ہیں جن پر ہمیں ناز ہے مگر جس طرح ایم ایف حسین کو جلاوطنی کی موت دیار غیر میں نصیب ہوئی اس سے لمحہ بھر کے لیے یہ احساس ہوا کہ کہیں یہ سب صرف آئین کے صفحات تک ہی تو محدود نہیں ہے۔ ایم ایف حسین دنیا ئے آرٹ و پینٹنگ کا شہنشاہ جس نے تقریباً 60سال تک دنیائے آرٹ کو ایسے ایسے نادر نمونے دیے کہ دنیا نے اس کو بے تاج بادشاہ تسلیم کر لیا۔دیار غیر میں اپنے وطن عزیز آنے کی خواہش میں سینہ میں ہزاروں طوفان چھپائے ، سینہ کے درد کی شکایت سے دنیا کو خیرباد کہہ گیا ۔ اس کا قصور کیا تھا ، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے فن میں ڈوب کر کچھ ایسی تصویریں بنا ڈالیں جس سے ایک طبقہ کے لوگ ان کی جان کے دشمن ہو گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ پینٹنگ حسین نے 1970میں بنائی تھی، اس پر ہنگامہ 31سال بعد ہوا اور ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی ملنے لگیں اور اس طرح کبھی قطر کبھی دبئی، کبھی ادھر کبھی ادھر اور پھر آخری منزل لندن ۔ وہ جب تک زندہ رہا اپنے فن کے ذریعہ دنیا بھر کے نادر نمونے اپنی تصویروں میں پیش کرتا رہا اور مرتے مرتے ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ زندہ دلی کیا ہوتی ہے۔ وہ جب ملک کے اندر رہا تب بھی اس نے اپنے قول و عمل سے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کا دل کسی اور ملک کے لیے دھڑکتا ہے، اور جب اس نے دیارِ غیر میں جاکر پناہ لی تب بھی اس نے اپنی حب الوطنی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کے لیے آہیں بھرتا تھا، ہندوستان واپس آنے کی آس لیے آخرکار وہ اس جہانی فانی کو ہی الوداع کہہ گیا۔ ایم ایف حسین نے اپنے اس لاجواب فن پر کبھی گھمنڈ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے فن کو زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی۔ اگر ایک سچے عاشق کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے کائنات کے ہر ذرے میں محبوب کا ہی عکس نظر آتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال مقبول فدا حسین کا تھا، جنہیں دنیا کی ہر چیز میں خوبصورتی دکھائی دیتی تھی۔ اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے وہ برش اور کینوس کے محتاج نہیں تھے بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ پتھر یا کوئلے سے بھی تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اپنے فن سے مصوری کو جاودانی بخش دی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ کسی بھی واقعہ پر مصوری کے ذریعہ اپنے رد عمل کا فوری اظہار کر دیتے تھے، اس کی پروا کیے بغیر کہ دیکھنے والے پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ عظیم شاعر وہی بن سکتا ہے جسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو کہ شعر سننے والے پر اس کا کیا اثر ہوگا، اگر اس نے لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال کرنا شروع کردیا تو کبھی اچھا شاعر نہیں بن سکتا، شاعری تو صرف اپنے جذبات و خیالات کو الفاظ میں پرونے کا نام ہے۔ مقبول فدا حسین نے یہ کرکے دکھا دیا۔ حسین نے کبھی اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ سب سے بڑے مصور ہیں، جیسا کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے اپنے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’ٹنوں من مٹی کے نیچے لیٹا ہوا بیدی اب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سب سے بڑا خالق وہ ہے یا خدا!‘۔ مقبول فدا حسین کو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑی کیوں کہ بقول اقبال ’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘۔ حسین صاحب کی پینٹنگ میں ان کاپورا احساس موجزن ہوا کرتا تھا، اسی لیے لوگ ان کی پینٹنگ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ دماغ میں کسی قسم کا غرور نہ پیدا ہو جائے، شاید اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایم ایف حسین نے کبھی اپنے پیر میں جوتے چپل نہیں پہنے۔ جہاں بھی جاتے ننگے پیر جاتے۔ یہی تھا ان کابڑپن، جس کی لوگ اب بھی داد دیتے ہیں۔
لیکن اپنی مصوری کے سفر میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تنازعہ کا شکار ہوگئے، ان کے برش نے کچھ لوگوں کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا، کسی کے مذہبی جذبے کو ٹھیس لگی اور پھر ایک طبقہ دیوانہ وار ان کے پیچھے پڑ گیا، ان کے ذریعہ بنائی گئی تصویروں کو نذر آتش کیا جانے لگا، انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ حالانکہ اسی مذہب کے ماننے والوں میں سے ایک طبقہ ہمیشہ ان کا دفاع بھی کرتا رہا اور یہ دلیل دیتا رہا کہ حسین صاحب نے اس قسم کی پینٹنگ بناکر کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے بلکہ ایسا تو صدیوں سے ہوتا آیا ہے، اس کی زندہ مثالیں آج بھی ہمیں مختلف مذہبی مقامات پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں، پھر اگر کسی پینٹر نے اسے اپنے طریقے سے کاغذ پر اتار دیا تو اس نے غلط کیا کیا۔ لیکن دیوانے مانے نہیں، پتھر پھینکتے رہے، آگ لگاتے رہے، حالانکہ ان کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، ان کی توڑ پھوڑ حسین صاحب کو خوفزدہ نہیں کر سکی، وہ اور بھی طاقت و توانائی کے ساتھ نمودار ہوئے اور مردہ تصویروں کو بولنے پر مجبور کرتے رہے۔ ان کی اس ہمت کو دیکھ کر ان کے دشمن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر یہ انسان کس مٹی کا بنا ہے۔ انھیں گردے کا کینسر تھا، لیکن انھوں نے اپنی رفتار و گفتار سے اس مرض کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اسپتال کے بستر پر پڑے ہوئے بھی وہ اپنے دوست سے یہ تقاضہ کرتے رہے کہ ’بھئی چائنیز ریسٹورنٹ‘ میں کب لے کر جا رہے ہو۔ اسے کہتے ہیں کہ زندہ دلی۔ انھوں نے خدا کی دی ہوئی انمول نعمت ’زندگی‘ کو پوری طرح جیا، اس کے ہر گوشہ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر میں مروں تو میرے ہاتھ میں برش ہو اور میں کوئی تصویر بنا رہا ہوں، ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کسی فوجی کی موت سرحد پر دشمنوں سے لڑتے لڑتے ہوجائے۔ یہ تھا جذبہ، جس نے ان کی تصویروں کو بولنے پر مجبور کردیا۔
آج ان کی موت پر صدر جمہوریہ ہند بھی افسردہ ہیں، محترم وزیر اعظم بھی اور وہ سبھی بڑے بڑے لوگ، بڑے سیاسی رہنما جنھوں نے ان کی جلاوطنی کے درد کو جیتے جی محسوس نہیں کیا۔ آج مرنے کے بعد نائب صدر حامد انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ان کی موت سے نہ صرف قوم بلکہ آرٹسٹ برادری کا زبردست نقصان ہوا ہے۔وہ ہندوستان کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ جی ہاں ہندوستان کی محبت تو ان کی رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے تھی، پر ہندوستان ان کو وہ محبت کیوں نہ دے سکا جس کے وہ مستحق تھے۔صرف اس لیے کہ ہندی دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنانے والا ایک مسلمان تھا۔کھجوراہو، اجنتا ایلورا میں جو ہندو دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ، وہ تو ہوئیں آرٹ کا نمونہ، ان کو دیکھنے کے لیے آپ پوری دنیا سے ٹورزم کا پیسہ سمیٹتے ہیں،  وہ آرٹ کا نادر نمونہ کہلاتی ہیں مگر حسین کے ذریعہ بنائی گئیں تصویریں آرٹ کے نام پر کلنک ہو گئیں یہ کیسا دوہرا معیار ہے۔ہمارے ملک میں پہلے جب یہ سنا اورکہا جاتا تھا کہ ہندوستان مردہ پرستوں کا ملک ہے۔یہاں مرنے کے بعد ہی تعظیم و تکریم ، انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے تو اتنی شدت سے کبھی اس بات کو نہ سوچا، نہ محسوس کیا مگر جب آج انہیں بھارت رتن دینے کی بات کہی جا رہی ہے تو یہ احساس دو چند ہو گیا ہے۔ ایم ایف حسین نے متعدد بار معافی مانگی، وہ مقدمات سے تنگ آ چکے تھے ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے ایم ایف حسین کی درخواست پر اور راج کوٹ بھوپال ، پندھار پور یعنی سبھی جگہ کے مقدمات کو دہلی منتقل کرنے کا آرڈر دیا تھا مگر پھر بھی مرتے مرتے فدا حسین ان مقدمات سے پیچھا نہ چھڑا سکے اور نہ ہی اپنی آخری خواہش کے مطابق ممبئی کا فالودہ کھاسکے۔جی ہاں، جب مرنے سے دو تین دن قبل شوبھا ڈے نے ان سے لندن کے اسپتال میں ملاقات کی تو انھوں نے اسپتال کا کھانا کھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا ۔ میں ممبئی کا فالودہ کھانا چاہتا ہوں۔ آج حسین کی موت پر ہم سب ہندوستانی نہ جانے کیوں اندر ہی اندر احساس جرم سے ہمکنار ہیں کہ ہم اپنے ملک کے بیش قیمت کوہِ نور کو واپس نہ لا سکے اور ایک کوہِ نور برطانیہ کی ملکہ کے تاج میں جڑ گیا۔ دوسرا وہیں کی مٹی میں دب کر خاک ہو گیا۔

Wednesday 15 June 2011

اردو کو لے کر کانفرنسیس تو ہوتی ہیں پر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا

وسیم راشد
کبھی کبھی سیاست پر لکھتے لکھتے طبیعت گھبرانے لگتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی اور مسئلہ پر لکھا جائے، بلکہ مسئلہ پر ہی کیوں۔کیوں نہ کسی ادبی محفل کی بات کی جائے۔ تو چلیے اس بار بات کرتے ہیں دہلی میں یکم جون کو ہوئی آل انڈیا اردوایڈیٹرس کانفرنس کی ۔ دہلی کے انجمن ترقی اردو ہند کے دفتر میں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں دہلی کے تقریباً سبھی نامور صحافیوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا قیام بقول ڈاکٹر خلیق انجم 1927 میں عمل میں آیا اور آزادی کے بعد یہی پہلی تنظیم تھی، جس نے اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔اس وقت اس تنظیم کو مشہور صحافی، سابق ممبر پارلیمنٹ اور سابق سفیر جناب م۔ افضل صاحب چلا رہے ہیں اور جس زمانہ میں وہ انگولا کے سفیر تھے اس زمانہ میں بھی ان کے رفیق کار مودود صدیقی صاحب اس تنظیم کوفعال بنانے میں لگے رہے۔حالانکہ اس کا نام آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس ہے مگر اس کانفرنس میں دہلی کے ہی تمام صحافی اور شرکاء تھے ۔ ان معنوں میں قابل تحسین ہیں جناب م۔ افضل صاحب کہ انھوں نے پھر سے ان سوکھے دھانوں میں پانی ڈال کر اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کی ۔اس کانفرنس میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا کہ اردو صحافت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اس پر تجاویز سامنے آنی چاہئیں۔ پہلے اس کانفرنس کے مثبت پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں کیونکہ عام طور پر اردوصحافیوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ہر بات میں منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ مگر شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک اچھے صحافی کو پہلے منفی پہلو کو ہی سوچنا چاہیے ۔پھر مثبت پہلو کی طرف آنا چاہیے۔ توخیر مثبت پہلو اس کاانعقاد تھا۔ ظاہر ہے دوبارہ سے کسی تنظیم کو متحرک بنانا مشکل کام ہے اور پھر سبھی اہم صحافیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ایک یہ بات ہم اردو پڑھنے لکھنے والوں میں بری ہے کہ جیسے ہی اسٹیج پر آتے ہیں اور مائک ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا اپنا کیا مقام ہے۔بس بنا مطلب کی تعریف و توصیف کرنے میں لگ جاتے ہیں جس سے کہ بس آرگنائزرز کو خوش کیا جا سکے ۔ یہی حال اس کانفرنس میں بھی تھا۔ مگر خود م۔ افضل صاحب نے جس طرح اردو اخبارات کو اشتہارات نہ ملنے کے مسئلہ کو خوبصورتی سے اٹھایا اور پھر معصوم مرادآبادی، جو خود بھی ایک نامور سینئر صحافی ہیں، نے اس کو تفصیل سے بتایا وہ بہت اہم بات تھی۔ م۔ افضل کا یہ کہنا کہ انگریزی اور ہندی میں تو اشتہار دیے جاتے ہیں اور خوداردو کے تعلق سے جو اشتہارات ہوتے ہیں وہ بھی انگریزی اور ہندی میں نظر آتے ہیں۔یہ اپنی جگہ بہت اہم بات تھی۔ انھوں نے ایک بات اور بڑی اہم کہی کہ اردو زبان کو جس طرح مسلمانوں کے ساتھ جو ڑ کر اس کا دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے وہ بھی سراسر نا انصافی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر خلیق انجم کا یہ کہنا کہ تمام اخبارات اور رسائل کے ذمہ داران متحد ہو کر اردو کی نشو و نما کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں اور لگاتار اپنے مطالبات دوہرائیں تو بات بنے۔یہاں ہم بہت ہی ادب سے خلیق انجم صاحب سے کہنا چاہیں گے کہ گزشتہ دو سالوں سے اردو ایڈیٹرس کی لگاتار کانفرنسز ہو رہی ہیں اور بھلے ہی گروہ بندی چل رہی ہو یعنی جناب ایک یہی آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس نہیں بلکہ ایک دوسرا گروپ بھی ہے جس کی جماعت میں بڑے بڑے نامور صحافی موجود ہیں۔تو خیر اس طرح کی کانفرنس کاانعقاد بھی ہوتا ہے ، تجاویز بھی رکھی جاتی ہیں، مگر نتیجہ ابھی تک کچھ نہیں نکلا۔ ایک بہت بڑی کانفرنس محترمہ شیلا جی، کپل سبل، ہارون  یوسف وغیرہ کے ساتھ بھی ایڈیٹرس نے کی تھی اور بار بار یہی کہا گیا تھا کہ اشتہارات اردو اخبارات کو نہیں ملتے، صحافیوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، مگر سب کچھ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ اس کانفرنس میں بھی بار بار یہ تجاویز رکھی گئیں کہ اردو صحافتی کورس کی سخت ضرورت ہے۔ ہاں اس ضمن میں اگر کسی نے قابل تعریف بات کی تو وہ انقلاب کے نارتھ انڈیا ایڈیٹر جناب شکیل شمسی نے کہی۔ جن کا کہنا یہ تھا کہ ترجمہ کا فن سکھانے کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے نوجوان صحافیوں کو زیادہ تر ہندی اور انگریزی سے ترجمہ کرنا پڑتا ہے جس میں وہ صحیح زبان اور صحیح الفاظ کا استعمال نہیںکر پاتے ۔ بے شک جہاں اردو کی بڑی بڑی تنظیمیں ، بڑے بڑے ادارے مشاعرے کے نام پر ایک ایک شاعر کو 10سے 12ہزار اور اس سے زیادہ دیتے ہیں، وہ ادارے صحافیوں کو ٹریننگ دینے کا انتظام کیوں نہیں کرتے۔ ہر سیمنار میں قورمہ، بریانی، پلائو، متنجن کھا کر اور ایک لمبی ڈکار لے کر ہم اردو والے ایسے اردو والے، ویسے اردو والے کرتے ہوئے ہم سبھی گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم ان اداروں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ غالب، میر ، مومن کے نام پر بہت کھا لیا ، کما لیا۔ اب کم سے کم اس زبان کی بقاء پر بھی توجہ دے دی جائے اور اس کے نوجوانوں کو بھی زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔دراصل نوجوان صحافیوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی میں ایسے الجھ جاتے ہیں۔ بس زبان سیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ صحافت بھی سیکھ لی۔ اگر ایسے نوجوان صحافیوں کو باقاعدہ تربیت کے ساتھ ساتھ کچھ پیسے بھی دیے جائیں تو پھر ان کے لیے آسانی ہو جائے۔ جہاں تک اردو صحافیوں کی تربیت کا تعلق ہے ، ترجمہ، رپورٹنگ، صفحہ بنانا، نیٹ سے خبروں کا نکالنا، مختلف اہم سائٹ تلاش کرنا، انٹرویو لینا وغیرہ یہ سبھی نئے آنے والے اردو صحافیوں کے لیے سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے بڑے بڑے اداروں کوہی آگے آنا ہوگا۔ اس کانفرنس میں ہفت روزہ نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی صاحب نے کئی مسائل اور تجاویز رکھیں، پر ان کی ایک بات بہت اہم تھی کہ اردو اخبارات کی ایک پروفیشنل تنظیم قائم کی جائے جو اخبارات اور صحافیوں کے حقوق کے لیے لڑ سکے۔ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ آخر اردو اخبارات ہی اس طرح کی کی کسم پرسی کا شکار کیوں ہیں۔سکھ ہم سے کم اقلیت میں ہیں ، پارسی بھی ہم سے کم اقلیت مانے جاتے ہیں ، مگر کبھی ان لوگوں کی طرف سے کوئی واویلا سننے میں نہیں آتا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے وہ یہ کہ ان سبھی مذاہب کے ادارے نیک جذبے کے تحت اپنے کام انجام دے رہے ہیں اور اس جذبہ سے ان کے بڑے بڑے لنگر بھی قائم ہیں۔ہمارے یہاں دیکھئے درگاہوں پر چلے جایئے تو بھکاری آپ کو درگاہ کے دروازے تک قدم نہیں رکھنے دیتے۔ اور لنگر بٹنے کا وقت ہو تو وہ دھکم دھکا اور کھینچا تانی ہوتی ہے کہ توبہ بھلی۔مگر کسی گرودوارہ یا مندر یا گرجا گھر کے باہر آپ نے نہ تو سکھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہوگا، نہ ہی لنگر کے وقت کوئی مارپیٹ دھکم دھکا ہوتے ۔ خیر ہم بھی نہ جانے کیسے اصل موضوع سے بھٹک گئے۔ تو ہم سبھی اردو والے ہر وقت روتے رہتے ہیں، نہ جانے کیوں ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہنا، گروہ بندی کرنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ ایسے میں جذبے کیا کام کریں گے۔اسی کانفرنس میں بے حد سینئر صحافی احمد مصطفی راہی، خالد مصطفی صدیقی،مودودصدیقی، محمد احمد کاظمی، چندر بھان خیال، کفیل احمد، عبد الرحمن، شاہد ماہلی،شکیل انجم ، شکیل حسن شمسی، سہیل انجم،احمد جاوید،معصوم مرادآبادی وغیرہ کافی تعداد صحافیوں کی تھی۔جس میں یقینا کچھ اہم تجاویز نکل کر سامنے آئی ہیں۔ اس کانفرنس میں م۔ افضل صاحب کو کانفرنس کا صدر بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔جو اس لحاظ سے بہت اہم تھی کہ ظاہر ہے تنظیم تبھی کامیاب ہوگی جب اس کا سربراہ چنا جائے اور یقینا م۔ افضل سے بڑھ کر اس کا کوئی حقدار نہیں۔ وہ جب بھی اس تنظیم کو لے کر چلے تو انھوں نے بہت حد تک مثبت کام کیے۔مگر ہمارا بس یہ کہنا تھا کہ بے شک م۔ افضل صاحب کو ہی صدر بنایئے مگر جمہوری ملک میں اگر آپ کسی کو نامزد ہی کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے مگر جب آپ الیکشن کر کے اسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہی طریقہ ٔ کار اپنایا جائے۔ شریف الحسن نقوی نے بڑی اہم بات کہی کہ ہمارے اخبار کے تراشے اگر حکومت اور انتظامی شعبوں تک پہنچ جائیں تو ہمارے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔چند تجاویز اس ضمن میں ہم نے بھی رکھی ہیں اور وہ یہ کہ پرانی دہلی کے لڑکے لڑکیوں کا تلفظ بے حد خراب ہوتا ہے۔پر وہ بھی پرانی دہلی کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر میڈیا کی راہ اپنا رہے ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا میں جا تو رہے ہیں مگر ان کا تلفظ بے حد خراب ہے، اس کے لیے بھی اگر کوئی تربیتی مرکز اندرون فصیل قائم کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ترجمہ کا کورس ضرور کرایا جائے اور علاقائی سطح پر جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی جگہ عام رائج الفاظ کا استعمال سکھایا جائے۔ایک جون اور دو جون دونوں ہی تاریخیں اہم ہیں۔ ایک جون کو یہ کانفرنس ہوئی اور دوجون کو پٹنہ میں ای ٹی وی اردو کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک بڑا سیمنار منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد کافی تھی اور بہت ہی اہم مسائل مسلمانوں کے تعلق سے سامنے آئے۔ اس لحاظ سے ای ٹی وی اردو کی کاوشوں کی ستائش بھی ہونی چاہیے اور ہم اردو والے اور مسلمان احسان فراموش یقینا نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو ہم اس کا احسان بھی مانتے ہیں،اور اس کے لیے اپنی پلکیں تک بچھا دیتے ہیں۔

Friday 10 June 2011

قائد اعظم آئو ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان۔۔۔

وسیم راشد
ابھی کچھ دنوں قبل ہمارے محترم وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’دوست بدلے جاسکتے ہیں، مگر پڑوسی نہیں۔‘‘ ظاہر ہے یہ بات انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کی تھی۔ کہنے کا مطلب کچھ بھی رہا ہو،پاکستان اس وقت ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جب دوست، پڑوسی سبھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ پاکستان جو دنیا کا دوسرا بڑا مسلم اکثریت والا ملک ہے، اس وقت تن تنہا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہر دن نئی مصیبت، نئی پریشانی اور نئی بدنامی کی وجہ سے ایکLost State بن چکا ہے۔ حکومت کیا کر رہی ہے، کیسے چل رہی ہے، کیا بیان دینا ہے، کیا ایکشن لینا ہے، کس کو صفائی دینی ہے، کس کو بچانا ہے، کس کو مارنا ہے، کچھ نہیں پتہ۔ خفیہ ایجنسی کیا کر رہی ہے، افسران کیا کر رہے ہیں، کسی میں کوئی آپسی تال میل نہیں ہے۔ ابھی چند دنوں قبل ملا عمر کے مرنے کی خبر آئی، پھر تصدیق ہوئی کہ وہ مرا نہیں۔ ایسے میں ہمیں ایک شعر یاد آرہا ہے کہ:
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے شک پاکستان کا اندرونی انتشار، اسامہ کی موت، آئی ایس آئی کا کردار، پاکستان کے بحری اڈے پر دہشت گردوں کا حملہ اور 16 گھنٹے کی کارروائی کے دوران ہوئی تباہی، یہ سب وہ پے در پے حادثات ہیں، جنہوں نے پاکستان کے حکمرانوں کو یقینا دیوانہ سا بنا دیا ہے۔ یہاں ہم پاکستان سے ہمدردی نہیں جتا رہے ہیں، مگر آپ خود سوچئے کہ کسی کے گھر میں پے در پے حادثات ہوتے رہیں تو صاحب خانہ غریب دیوانہ تو ہو ہی جائے گا، وہی حال پاکستان کا ہے۔
سبھی حکمراں اپنی کرسی اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں سے پاکستان ڈرون حملے کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ملٹری کمزور، حکمراں بے بس، عوام مہنگائی سے بدحال، نوجوان مستقبل کی فکر سے بوکھلائے ہوئے، یہ ہے اس وقت کا پاکستان۔ پاکستان کی ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں گلنار آفریں۔ انہوں نے کافی عرصے قبل ایک نظم کہی تھی۔
قائد اعظم آؤ ذراتم دیکھو اپنا پاکستان
جس کی بنیادوں کی خاطر
لاکھوں نے دی اپنی جان
جس کی خاطر کھیت جلے کھلیان جلے گھر بار لٹے
ماؤں کے کلیجے چاک ہوئے
جب کڑیل بیٹے خاک ہوئے
پھولوں کا سنگھاسن ڈول گیا
پرواز پرندے بھول گئے
احساس کے جھرنے سوکھ گئے
دریا کی روانی رک سی گئی
یوں خون کی ہولی کھیلی گئی
دشوار بہت تھی راہ طلب
ہر گام مگر ہم ساتھ رہے
ہم بن کے تمہاری شان رہے
ہاتھوں پہ لیے قرآن رہے
جو تم نے کہا وہ ہم نے کہا
لے کے رہیںگے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
قائد اعظم آؤ ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان
میرا خیال ہے، جس وقت کی یہ نظم ہے، اس وقت میں اور اب میں تو پاکستان کی صورت حال بالکل الگ ہے، اب تو پاکستان اسی خطرناک لائن پر آگیا ہے، جس سے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے نہ آگے جاسکتا ہے۔ یقینا محمد علی جنّاح نے جو خواب اسلامی مملکت کا دیکھا تھا، وہ چکناچور ہوچکا ہے۔ آج آئی ایس آئی کے کردار پر بے شمار سوالات لگائے جارہے ہیں۔ یہ بھی الزام ہے کہ اسامہ کو آئی ایس آئی نے ہی پناہ دی ہوئی تھی، اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایبٹ آباد میں پاکستانی فوجی اکیڈمی ہے، پھر اسامہ وہاں 6 سال تک کیسے چھپ سکتا ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی اسامہ ایبٹ آباد میں فوجی اکیڈمی کے پاس رہ رہا تھا تو پاکستانی ملٹری کو میڈل دینا چاہیے کہ وہ کسی طرح نہ اپنے بارڈر کی حفاظت کرسکے اور نہ ہی اتنے بڑے دہشت گرد کا پتہ لگا سکے۔ پاکستان سے شائع مختلف اخبارات پر ہماری لگاتار نظر ہے اور اب جب کہ انٹرنیٹ نے یہ سہولت ہماری میز تک پہنچا دی ہے تو ہم بھی اس کا فراخدلی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کے ایک مشہور اخبار’’دی نیوز‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ کے کچھ مضامین پر ہماری نظر پڑی تو ایک مشہور صحافی ایاز بابر کا ایک مضمون تھا جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان ایک ناکام مملکت ہے۔ اب جب ہیڈلی کے اعترافات کے بعد 26/11 میں ممبئی حملوں میں کس طرح اس نے باقاعدہ نہ صرف لشکر طیبہ بلکہ آئی ایس آئی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہیڈلی نے جس میجر اقبال کو ممبئی حملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے، کہیں یہی شخص تو آئی ایس آئی کا سربراہ نہیں ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان کی انٹر سروسس انٹیلی جنس ہے، جس کا قیام 1948 میں ہوا تھا۔ اس کی Juristiction میں صاف لکھا ہے کہ حکومت پاکستان اس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے۔ پاکستان کی 3 خفیہ ایجنسیاں ہیں، جن میں آئی بی یعنی انٹیلی جنس بیورو اور ایم آئی یعنی ملٹری انٹیلی جنس ہیں۔ جن میں آئی ایس آئی سب سے پہلی ایجنسی ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ ہند-پاک 1947 کی لڑائی کے بعد پاکستان کی تینوں بحری، بری اور ہوائی افواج میں ملٹری انٹیلی جنس کو مضبوط کرنا۔ مگر آئی ایس آئی نے تو اپنے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگادیاا ور دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے والی ایجنسی بن گئی۔ یہ بھی بتایا ہے کہ میجر اقبال نے ہندوستان میں حملے کے لیے مقامات کی نشاندہی کرنے اور پوری طرح ان مقامات کی ویڈیو بنانے اور تصاویر کھینچنے کا کام اس کو سونپا تھا۔ نیشنل ڈیفنس کالج ممبئی دہلی، ممبئی ایئر پورٹ، ممبئی پولس ہیڈکوارٹر، بحری اڈہ اور یہودی کمیونٹی سینٹر سب ہیڈلی کے دہشت گردانہ حملے کی فہرست میں شامل تھے۔ ایک بات یہاں میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ سبھی مقامات بے حد سیکورٹی والے ہیں۔ دہلی کے ڈیفنس کالج میں بھی سخت ترین سیکورٹی ہے پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ کالج کی فلم بھی بنالی گئی۔ پہلی بات تو ایک غیرملکی کو وہاں داخلہ کیسے ملا ہیڈلی کی پوری شباہت اسے بیرونی ملک کا دکھاتی ہے، کیسے اس نے سبھی مقامات کو تصویروں میں قید کرلیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ممبئی حملہ کے لیے خود ہندوستان کی سیکورٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے، لیکن حکومت پاکستان نے کیا آئی ایس آئی کے وجود کو اسی طرح تسلیم کرلیا ہے کہ آئی ایس آئی حکومت پاکستان سے بلند ہوگئی ہے۔ اوبامہ سے ابھی ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ کیا کوئی ہائی ویلیو ٹارگیٹ پاکستان جیسا ملے گا تو آپ تب بھی اسی طرح کریںگے تو اوبامہ نے ایک دم بغیر سوچے سمجھے کہا ہاں۔ لیکن میری اپنی رائے تو امریکہ کے لیے بھی یہی ہے اور دوسرے سپرپاور کے لیے بھی کہ خود ان پر کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ اپنی دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اس کے علاوہ بھی جس پر چاہیں مسلط ہوجاتے ہیں۔ صدام حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے، حسنی مبارک کا زوال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جس میں براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ ضرور امریکہ شامل ہے۔ قذافی کا حال بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور اسامہ کا حشر بھی ہم نے دیکھا ہے۔ دراصل مغربی ممالک دہشت گردی سے متعلق بھی اور ترقی پذیر ممالک سے بھی دوہرا معیار رکھتے ہیں۔ اوبامہ کی جرأت کی داد دیں کہ انہوں نے پاکستان میں گھس کر اپنے دشمن کو ختم کردیا، مگر کیا یہی پالیسی وہ ہندوستان یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ اپنائیںگے؟ اگر یہ ممالک دہشت گردی کی زد میں آتے ہیں تو کیا ممبئی حملہ کے دہشت گردوں کا بھی اوبامہ اسی طرح کسی آپریشن میں صفایا کریںگے؟
چلئے پاکستان کے مستقبل کی بات کرتے چلیں۔ پاکستان کا مستقبل تو یقینا خطرے میں ہے، مگر کیا کوئی وہاں کے غریب عوام کے بارے میں بھی سوچتا ہے؟یہ لوگ جو اچھی تعلیم، اچھی نوکریوں اور پرامن ملک کے متلاشی ہیں، کیا ہے ان نوجوانوں کا مستقبل؟ ایک اور اہم بات کسی زمانے میں پاکستان ہندوستان کا ہی ایک حصہ تھا۔ دونوں ممالک یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب بھی لاکھوں کروڑوں خاندان ایسے ہیں، جن کے ماں باپ انڈیا میں ہیں تو دادا دادی پاکستان میں۔ چچا، تایا، خالہ، ماموں، پھوپھا، پھوپھی، بہن بھائی نہ جانے کتنے ہی رشتے ہیں، جن کی آنکھیں اپنوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں۔ کیا ہوگا ان کا؟ اگر دونوں ممالک کے حالات بہتر نہیں ہوئے تو ان سبھی کو جدائی کی آگ میں جھلسنا پڑے گااور اب بھی کون سے ویزا کے اصول نرم ہیں، پاکستان میں تو ابھی ہندوستانی سفارت خانہ نے ایسا فارم نکالا ہے، جس کو بھرنے میں ہی اور انڈیا سے verify ہو کر جانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ بہت مشکل ہے ویزا ملنا۔ ہندوستان میں پاکستانی ویزا فیس صرف 15 روپے ہیں، مگر دوسرے شہر سے دہلی بار بار آکر ویزا کی جد و جہد میں 15 ہزار لگ جاتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اپنے رشتے داروں کی ڈبڈبائی آنکھیں یاد ہیں، جو رخصت ہوتے وقت ایک ہی سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ کیا اس زندگی میں دوبارہ مل پائیںگے؟ شاید نہیں شاید ہاں، اس کا جواب نہ ہمارے پاس ہے نہ آپ کے پاس، صرف دونوں حکومتوں کے پاس ہے۔

Friday 3 June 2011

حسنی مبارک کی حالت زار : دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت ہو

 وسیم راشد
۔جب انسان اپنی بے پناہ کامیابی کے بعد اس کامیابی کو تنکا تنکا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تب کتنا بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہوگا۔ حسنی مبارک اور ان کا خاندان اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ حسنی مبارک 11فروری 2011 تک دنیا کے چند بڑے حکمرانوں میں شمار ہوتے تھے۔ دنیا میں اس وقت 36 حکمراں ہیں۔ ان حکمرانوں کی دولت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثاثوں سے زیادہ ہے۔ حسنی مبارک اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھے۔ ان کے پاس 70 بلین ڈالر تھے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے ترقی پذیر ملکوں کے بجٹ 70 بلین سے کم ہوتے ہیں۔
حسنی مبارک نے یہ رقم مصر سے کمائی ہے۔ جوانی میں وہ مصری فضائیہ میں ایک عام افسر تھے۔ 14 اکتوبر 1981 میں مصر کے حکمراں بننے پر انہوں نے  اپنے قبلہ کا رخ امریکہ کی طرف کرلیا۔ اس اطاعت و فرمانبرداری کے نتیجے میں انہیں مصر کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا موقع ملا۔ یوروپ اور امریکہ سے ملنے والی امداد پر بھی ہاتھ صاف کرتے رہے۔ یوروپ اور امریکہ کو بھی معلوم تھا کہ ہر پھر کے یہ دولت سوئس بینکوں میں جانی ہے اور سوئس بینکوں میں جمع دولت آج تک کس کو ملی ہے، جو حسنی مبارک کو مل جائے گی؟ حسنی مبارک عالمی بینکوں کے قرضے میں سے بھی بڑا حصہ کھاتے رہے۔ بے شمار ہتھیاروں کے سودوں میں سے بھی بڑی رقم ڈکار گئے۔ بے شمار جعلی کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے دئے۔ مصر میں نئے شہر آباد کئے اس سے بھی بے شمار دولت اکھٹا کی۔ بے نام زمینوں پر قبضے کرتے رہے، بعد میں یہی زمینیں اربوں روپے میں فروخت کیں۔ مصر میں قحبہ خانے، کلب اور دوسرے فحاشی اور عیاشی کے اڈے قائم کیے۔ا س کا ایک مخصوص حصہ بھی ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا تھا۔ حسنی مبارک اپنی پارٹی کے نام پر امیروں سے بڑے بڑے چندے بھی لیتے تھے۔ یہ سرکاری عہدے بھی فروخت کرتے تھے۔ اپنی امریکہ سے وفاداری بھی فروخت کرتے تھے اور اس وفاداری کا معاوضہ بھی قبول کرتے تھے۔ یہ سارے کام وہ اکیلے نہیں کرتے تھے۔ ان کا خاندان بھی ان کی اس تجارت میں شامل تھا۔
حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک فلاحی تنظیموں کے نام پر امراء سے بڑے بڑے چندے وصول کرتی تھیں۔ مہینے میں دو چار پارٹیوں میں امیروں کو مدعو کرکے فلاحی کاموں کے لیے کروڑوں کے چندے وصول کرتی تھیں۔ ان کے اس دھندوں میں دونوں بیٹے جمال مبارک اور علاء مبارک بیوی سوزان مبارک اور ان کی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور ا سکے جنرل سکریٹری صفوت الشریف شامل تھے۔ یہ سب حضرات کسی بھی سرکاری افسر کو برخاست کرسکتے تھے اور اس کی جگہ اپنا منظورِ نظر کا تقرر کرسکتے تھے۔ حسنی مبارک کی دولت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ لندن، پیرس، دمشق اور دوسرے بڑے شہروں میں ان کی جائیدادیں تھیں۔ اکاؤنٹس سوئس بینکوں میں تھے۔ ان کی جائیدادوں کا کرایہ صرف 150 ملین ڈالر آتا تھا۔
30 سال کے اقتدار کے بعد حسنی مبارک نے شرم الشیخ میں پناہ لی۔ دونوں بیٹے اور بیوی بھی نظربندی کی حالت میں ہیں۔ حسنی مبارک پر کرپشن اختیارات سے تجاوز اور لوٹ کھسوٹ اور حریت پسندوں کے قتل عام کے الزامات ہیں اور فوج نے انہیں Prosecutor کے سامنے پیش کردیا۔ یہ Prosecutor ان کا اپنا مقرر کردہ ہے۔ لیکن آج حسنی مبارک اس کے سامنے ملزم کے طور پر پیش ہورہے تھے، جب حسنی مبارک کو ان کے جرائم کی فہرست پیش کی گئی تو ان کو دل کا دورہ پڑگیا۔ ڈاکٹروں نے طویل جد و جہد کے بعد ان کی جان بچالی۔ ان کے دونوں بیٹوں اور اہلیہ کو بھی شرم الشیخ پہنچا دیا گیا۔ حسنی مبارک کی پارٹی پر عدالت نے پابندی لگادی ہے۔ پارٹی کے سارے دفتر سیل ہوچکے ہیں۔ اکاؤنٹس سیز ہوچکے ہیں، پارٹی کے جنرل سکریٹری صفوت الشریف گرفتار ہوچکے ہیں، ان پر غیرقانونی دولت رکھنے، انقلابیوں کے قتل ، کرپشن اور طاقت کے بے جا استعمال کے الزامات ہیں۔ حسنی مبارک کی اہلیہ بھی زیر تفتیش ہیں، جب کہ ان سب کے سوئس اکاؤنٹس اور جائیدادیں سیز ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتا، فوج ان لوگوں کو عوامی غیض و غضب سے بچانے کی کوشش کررہی ہے اور حسنی مبارک اپنی کامیابیوں کا بیڑہ غرق ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،ا نہیں اس ذلت سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ حسنی مبارک جن حکمرانوں کی عبادت کرتے تھے، ان سب نے آنکھیں پھیرلی ہیں۔ جن کے اشاروں پر ہزاروں خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، وہ آج حسنی مبارک کو پہچانتے بھی نہیں۔ جن کی شہ پر مصر کو بے دردی سے لوٹا تھا، وہ آج حسنی مبارک کو جانتے بھی نہیں، ان کے لیے حسنی مبارک تاریخ کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔
حسنی مبارک کا حال ان حکمرانوں کے مستقبل کی طرف اشارہ کررہا ہے، جو طاقت کے نشے میں چور ملکوں کے قومی خزانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ سرکاری عہدے بیچ رہے ہیں۔ کرپٹ ترین لوگوں کو ظلم کے ساتھ مظلوم عوام پر مسلط کر تے ہیں۔ کاش آج کے کامیاب کہلانے والے لٹیرے حکمراں حسنی مبارک کا عسرت و یاس سے بھرا چہرہ دیکھیں۔ آج اس بیچارے کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔ کاش ان حکمرانوں کو معلوم ہوجائے کہ ظلم سے ملکوں کو لوٹنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ اقتدار وہ دولت وہ تکبر جو حسنی مبارک کے پاس تھا، اب کہاں ہے؟ کاش آج کے کرپٹ حکمراں سوچیں کہ یہ دولت شہرت کامیابی اقتدار کب تک رہے گا۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اقتدار دولت و عزت دے تو اسے چاہیے کہ انصاف کرے، اگر تم انصاف نہیں کروگے تو تمہارے ساتھ جلد ہی انصاف کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ انصاف نہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیتا ہے اور جو لوگ انصاف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ابدی عزت عطا فرماتا ہے۔ آج کے ظالم حکمرانوں کو نیلسن منڈیلا نظر نہیں آتے۔ نیلسن منڈیلا 27 سال جیل میں رہے، جس میں سے 12 سال قید بامشقت اور 15 سال قید کے بعد جب رہائی ملی تو 5 سال اقتدار میں رہنے کے بعد اب ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ ضرورت مند غریبوں، بیماروں کے مسیحا ہیں۔ دنیا کا ہر انسان ان کی عزت کرتا ہے ان سے محبت کرتا ہے، جب وہ اپنی رہائش گاہ سے باہر آتے ہیں تو لوگ بہت مؤدب الفاظ میں ان سے سلام و دعا کرتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے ڈالر نہیں کمائے، جائیدادیں نہیں بنائیں سوئس اکاؤنٹ نہیں کھلوائے۔
آج کے بے انصاف ظالم لٹیرے حکمرانوں کو تاریخ کے ان لوگوں پر نظر ڈالنی چاہیے جو آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور جن کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ خلفاء راشدین، عمربن عبدالعزیز، مہاتما گاندھی، محمدعلی جناح وغیرہ ایسے نام ہیں جن کو احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ ایسے ظالم جابر لٹیرے ناانصاف حکمرانوں کو ایک انگوٹھی پہنا دی جائے جس پر لکھا ہو ’’یہ وقت زیادہ دیر نہیں رہے گا‘‘ یہ دراصل ایک حکایت ہے کہتے ہیں پہلے زمانے میں ایک نیک بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے دانشور وزیرسے کہا کہ میرے انگوٹھی پر ایسی عبارت لکھواؤ جس کو پڑھ کر جب  میں پریشانی میں ہوں تو پریشانی کم ہوجائے اور جب زیادہ خوش ہوں تو خوشی زیادہ نہ رہے۔ اس کے دانشور وزیر نے اس کی انگوٹھی پر لکھوایا’’یہ وقت زیادہ دیر نہیں رہے گا‘‘ لیکن اقتدار کے نشے میں چور، ناانصاف، ظالم اور لٹیرے حکمرانوں کے لیے شاید یہ انگوٹھی بھی کارگر ثابت نہ ہو، کیوں کہ وہ لوگ تو اپنے آپ کو حکمراں سمجھنے لگتے ہیں۔
دراصل حکمرانی کا دعویٰ ہی خدائی دعویٰ ہے۔ فرعون نے بھی حکمرانی کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ نظام میں چلاتا ہوں، فرعون اور اس جیسے خدائی دعویٰ کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کائنات کا خالق میں ہوں۔ اس کا دعویٰ صرف حکمرانی کا دعویٰ تھا اور یہی دعویٰ خدائی دعویٰ ہے۔ یہی دعوے آج کے حکمراں کرتے ہیں۔

Friday 27 May 2011

ممتا کی جیت میں مسلم ووٹوں کی حصہ داری

وسیم راشد
لیجئے 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج آچکے ہیں، اس سے پہلے کہ مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل اور عوامی رجحان پر بات کی جائے، سب سے پہلے مبارکباد دیتے ہیں الیکشن کمیشن کو اور اس میں صحیح معنوں میں اگر کوئی قابل مبارک باد ہے تو وہ ہیں چیف الیکشن کمشنر جناب ایس وائی قریشی صاحب۔ بہار کا انتخاب جس طرح پر سکون ہوا اور اس کے بعد 5 ریاستوں کے انتخابات جس طرح بغیر کسی بھی پریشانی اور دنگے فساد کے گزر گئے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ اب الیکشن کمیشن ہر ریاست میں وہاں کے عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات کراتی ہے۔ ان دنوں جب کہ سبھی اخبارات اور چینلز ریاستوں کے نتائج پر بحث و مباحثہ میں لگے ہوئے ہیں، ہماری نظر چیف الیکشن کمشنر کے اس بیان پر بھی گئی، جس میں انتخابات میں پیسوں کے بڑھتے اثر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ قریشی صاحب کے اس بیان کو بہت ہلکے میں نہیں لینا چاہیے کہ انتخابات کے دوران 70 کروڑ روپے قبضے میں لیے گئے، جن میں سے 60 کروڑ صرف تمل ناڈو سے برآمد کیے گئے ہیں۔ قریشی صاحب کے اس بیان میں وہ کڑوی سچائی پوشیدہ ہے، جس کے تحت سبھی پارٹیاں یہ پیسہ پروپیگنڈہ، جلسے جلوس، انتخابی انتظامات، چائے پانی اور ووٹ خریدنے تک کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اگر اسی طرح کی روک لوک سبھا انتخابات میں بھی لگا دی جائے تو یقینا صاف ستھرے انتخابات کی امید کی جاسکتی ہے۔ شروعات کہیں سے تو ہونی ہے۔
چلیے اب بات کرتے ہیں مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی جیت کی تو ممتا بنرجی کو یقینا عوام کا دل جیتنا آتا ہے۔ سوتی ساڑی، پیروں میں ہوائی چپل، معمولی شکل و صورت پر معصومیت لیے عوام کے درمیان گزرتے ہوئے ان کی پریشانیوں میں شامل ممتابنرجی وہ ہردل عزیز شخصیت ہیں، جن کی سادگی، محنت اور جد و جہد نے آج انہیں اتنی بڑی کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ ہم بنگال کے ایک اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے تو اس کی شہ سرخی پر نظر گئی جو اس طرح تھی’’غرور غارت ممتا لہر پر عوامی جذبات کی سونامی نے سرخوں کا صفایا کردیا‘‘ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ بائیں محاذ کی شکست میں ان کی وہ پالیسیاں شامل تھیں، جنہوں نے ان کو بنگال کے عوام سے دور کردیا اور یقینی طور پر اس میں تبدیلی کی لہر بھی اہم ہے، بلکہ خود سی پی آئی ایم کے سینئر قائدین نے مغربی بنگال کے نتائج پر ترنمول کانگریس کے انتخابی نعرے ’’تبدیلی‘‘ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور عوام کو تبدیلی کی ضرورت تھی، اسے بھی مانا ہے۔ سیتا رام یچوری کے بیان پر جائیں تو انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ وہاں پر جنتا میں پریورتن کی آشا رہی اس کا فائدہ ترنمول کو ملا ہے۔ پولٹ بیورو رکن برندا کرات نے بھی اس بات کو مانا ہے کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ برنداکرات نے ایک اچھے لیڈر کی طرح یہ بھی کہا کہ ہم پوری متانت کے ساتھ یہ نتائج قبول کرتے ہیں اور ہم ریاست میں ایک ذمہ دار اپوزیشن کا رول ادا کریںگے۔ برندا کرات کے اس بیان کی صداقت سے انکار نہیں کہ سی پی آی ایم کو 294 میں سے 63 سیٹوں پر ہی چاہے کامیابی ملی ہو، مگر ظاہر ہے وہ ریاست کی ایک ہی مضبوط اپوزیشن ہے۔ سی پی آئی ایم کو اپنی طاقت کو سمجھنا ہوگا اور پھر سے خود کو کھڑا کرنا ہوگا، اگر بی جے پی کی طرح وہ ناکام اپوزیشن ثابت ہوتی ہے تو پھر شاید آئندہ انتخابات میں اتنی سیٹیں بھی نہ مل پائیں۔ ہاں اس ضمن میں سومناتھ چٹرجی کا بیان بہت اہم ہے کہ سی پی آئی ایم عوام سے کٹ گئی ہے، یہی ہار کی اہم وجہ ہے۔ ہمارے خیال میں سومناتھ چٹرجی کے اس بیان میں بہت صداقت ہے۔ کمیونسٹ پارٹی سے ماضی میں لاتعداد غلطیاں ہوئی ہیں، جس کا الیکشن سے پہلے مناسب طریقے سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ ا س کے علاوہ بائیں محاذ کے پاس اس وقت قدآور لیڈرس نظر نہیں آتے اور جہاں تک ممتا بنرجی کا تعلق ہے، وہ عوام کے دل سے بہت قریب ہیں۔ 9 اگست 1997 کو گاندھی جی کے بت کے سامنے ترنمول کا یہ چھوٹا سا پودا اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ ممتابنرجی کی زندگی کی پہلی جیت 1989 کا لوک سبھا کا وہ الیکشن ہے، جس میں انہوں نے سومناتھ چٹرجی کو ہرا دیا تھا، وہ دن ہے اور آج کا دن بنگال کی اس شیرنی نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ممتا کی جو شبیہ مغربی بنگال میں ابھری وہ ایک سیدھی سادی، عوام کے دل سے قریب، عوام کے لیے کچھ بھی کرگزرنے والی لیڈر کی بن کر ابھری۔ ممتا کی آج کی جیت کو اس واقعہ سے بھی جوڑنا ہوگا، جب وہ 1993 میں ندیا ضلع کی عصمت دری کی شکار لڑکی کو لے کر رائٹرس بلڈنگ چلی گئیں، جہاں چیف منسٹر جیوتی باسو نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، تو وہ جیوتی باسو کے گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ 23 جولائی کو یہاں ہوئے ہنگامے اور پولس فائرنگ میں 13 نوجوان کانگریسی کارکن مارے گئے اور اس کو لے کر انہوں نے پوری ریاست میں احتجاج کیا۔ اب بھی ترنمول اس دن کو ہر سال شہید دوس کے روپ میں مناتی ہے۔ ممتا کو ظاہر ہے جیوتی باسو جیسے قابل اور سنجیدہ لیڈر کے دور میں چھوٹے چھوٹے ہی مسائل حل کرنے کو ملے، مگر عام آدمی کو یہ لگا کہ ایک یہی لیڈر ہے جو ان کے پکارنے پر ہوائی چپل میں کیچڑ سے لت پت گلیوں میں دوڑتی چلی آتی ہے۔ ممتا ان چھوٹے چھوٹے مسائل اور کاموں کی بدولت اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہیں۔ سنگور میں ٹاٹا کے نینو کار خانہ لگانے کے وقت ممتا کا رویہ اتنا سخت نہیں تھا پر انہیں لگا کہ بہت سارے کسان اپنی زمین نہیں دینا چاہتے اور سرکار انہیں معقول معاوضہ دیے بغیر ہی زمین ہڑپنا چاہتی ہے تو انہوں نے اپنا آندولن تیز کردیا، پھر نندی گرام کے کیمیکل ہب کے لیے زمین کو ہڑپنے کی خبر ملتے ہی جو عوامی اشتعال بھڑکا اور پولس فائرنگ ہوئی، اس کے خلاف ممتا کا آندولن پورے بنگال میں پھیل گیا۔ ممتا نے بنگال کے عوام کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ مرکزی سرکار میںرہتے ہوئے بھی وہ بنگال کے عوام کے ساتھ رہیں۔ ریلوے کی وزیر ہونے پر انہوں نے بنگال کے عوام تک کئی اسکیمیں پہنچائیں اور بنگال کو پورے ہندوستان سے جوڑ دیا۔ آج جو ان کی جیت ہوئی ہے، وہ 30 سال کی کڑی محنت کا نتیجہ ہے۔
اعداد و شمار دیکھیں تو صوبے میں اس بار ایک تو پہلی بار عوام نے نڈر اور بے خوف ہو کر ووٹ دیا۔ اگر پہلے فیز کی بات کریں تو 84.11 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ دوسرے فیز میں بھی 82 فیصد ، تیسرے میں 78.3 فیصد، چوتھے میں 83.68 فیصد، پانچویں میں 83 فیصد اور چھٹے میں 83.55 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہ اعداد و شمار کسی بھی ریاست کے بہترین ووٹنگ فیصد کو ظاہر کرتے ہیں اور اس فیصد میں بنگال کے مسلمانوں نے 99 فیصد ترنمول کانگریس کو ووٹ دیا۔ واضح طور پر دو حصوں میں بٹا ہواہے ہندو اکثریت والا مغربی بنگال اور مسلم اکثریت والا مشرقی بنگال ہم سبھی جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آبادی مسلم اکثریتی مشرقی بنگال پر مبنی ہے، لیکن بنگال کا جو حصہ اس وقت ہندوستان کے اندر ہے، اس میں بھی مسلمانوں کی کل آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 28 فیصدہے، جو تازہ مردم شماری کے بعد 30 فیصد ہوسکتی ہے۔ مسلمان اس وقت زیادہ تر مغربی بنگال کے مشرقی اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں، جس کی سرحد بنگلہ دیش سے منسلک ہے۔ کولکاتا سے جنوب مشرق اور شمال کے دور درازعلاقوں میں جو گھنی آبادی موجود ہے، اس میں مسلمانوں کی کل آبادی 40 فیصد ہے اور یہیں کے مسلمانوں کی مکمل حمایت کی وجہ سے آج ممتابنرجی کو اتنی واضح کامیابی ہاتھ لگی ہے۔ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں 1700 سے زیادہ امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی، جن میں سے 300 سے کچھ کم مسلم امیدوار تھے، سی پی ایم نے 40 سے کچھ زیادہ مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا۔ ترنمول نے 39 کو اور کانگریس نے 23 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔ جب کہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے کل 116 مسلم امیدوار کھڑے ہوئے اور 61 مسلمانوں نے بطور آزاد امیدوار اس انتخاب میں حصہ لیا۔ ترنمول کانگریس نے جس طرح مسلمانوں کو دل کھول کر ٹکٹ دیا۔ مسلمانوں نے بھی دل کھول کر ووٹ دیا اور اس طرح ایک بار پھر مسلم ووٹ کی طاقت نے ممتا کی آندھی میں تیز جھونکے کا کام کیا۔ آج ممتا اپنی جیت کو ماں، ماٹی اور مانش کی جیت کہہ رہی ہیں۔ خود اپنی نظموں میں انہوں نے ماں، ماٹی اور مانش کے لیے اپنی محبت اور ان کے دکھ تکلیف کو لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’وقت کی رفتار کے ساتھ تال ملا کر دھرتی آج تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، وقت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ تب وقت برباد نہ کر کے بنگال میں ایک ایسا طوفان آئے، جس کی تیز لہر میں ساری فضول چیزیں بہہ جائیں، ہر شعبہ میں ترقی نظر آئے اور بنگال کے لوگ فخر سے یہ کہہ سکیں کہ بنگال جو آج سوچتا ہے، اگلے دن ہندوستان وہی سوچتا ہے۔‘‘
آج وہ دن آگیا ہے جب ممتا کی آندھی نے پورے بنگال کو لپیٹ لیا ہے۔ امید اچھی رکھنی چاہیے ہوسکتا ہے یہ لہر سچ میں بنگال کو ماں جیسی ممتا کے سائے میں ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرسکے۔

Friday 20 May 2011

!خدا کرے اسامہ کی موت دہشت گردی کی موت ہو

وسیم راشد
اف  کس قدر ہنگامہ خیز گزرے ہیں گزشتہ 15 دن۔ اسامہ بن لادن کی موت اور اس کے بعد میڈیا کی چاندی اور ہر اخبار کے لیے بحث کا گرما گرم موضوع اسامہ کی موت کے بعد بے شمار کہانیاں سامنے آئیں اور جس میں خود امریکی پریس کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آئے،جس میں کبھی کہا گیا کہ وہ نہتا تھا، کبھی کہا گیا کہ اس کے پاس ہتھیار تھے، کبھی کہا گیا کہ اس نے اپنی دفاع میں اپنی بیوی کو آگے کرلیا، کبھی یہ کہ بیوی اس کو بچانے کے لیے آگے آئی اور اس کے پیروں میں گولی ماری۔ لاتعداد بیانات کے ساتھ ساتھ حقائق بھی سامنے آتے گئے، وہ حقائق جو امریکہ پیش کر رہاتھا، جس میں پاکستان کو لے کر بھی لعن طعن کی جارہی تھی اور پاکستان کی طرف سے بھی متضاد بیانات کا سلسلہ جاری تھا اور ابھی تک ہے۔لیکن ان کا جو کام ہے، وہ اہل سیاست جانیں۔ بڑی بڑی بحث میں الجھنا اور الجھانا ہمارا شیوہ نہیں۔ ہم نام و نمود کے لیے نہیں لکھتے، ہمارا موقف صحیح اور حقیقت پسندی کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ سطحی جذباتیت سے تو بہت کھیلا جاتا رہا اور آج بھی مسلمانوں کو خوب بیوقوف بنایا جارہا ہے، مگر چند سوالات اسامہ کی موت سے ایسے پیدا ہوگئے ہیں، جن کو ہم بے وقوف مسلمان بھی خوب سمجھتے ہیں۔ پہلا سوال تو ایک معصوم بچی نے اگلے دن ہی کردیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کسی کے ملک میں آجائیں اور اس ملک کو پتہ ہی نہیں چلے؟ مگر اس کا جواب بھی بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا کہ اس پورے آپریشن میں اس طرح کے ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے، جو راڈار میں نہیں آتے؟ دوسرا سوال کہ اتنا بڑا آپریشن ہوجائے اور آس پاس کو بھنک تک نہ پڑے۔ امریکہ بتائے دنیا کو کہ اسامہ مارا گیا ہے۔
امریکہ اسامہ کو مار کر اس کی لاش لے کر واپس بھی چلا جاتا ہے اور پورا پاکستان سوتا رہتا ہے، نہ جانے کیوں یہ بھی ہضم نہیں ہورہا۔ تیسرا سوال کہ اسامہ کو رات کو مارا گیا اور صبح 11 بجے ہندوستان کے وقت کے مطابق یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی، مگر دن کے 2 بجے تک یہ بھی بیان آگیا کہ اسامہ کی لاش سمندر میں دفنا دی گئی؟ اتنی جلدی جلدی یہ سب ہوا کہ اب سوچنے بیٹھو تو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ پہلی بات تو سمندر میں دفنا دینا بہت ہی عجیب و غریب تصور ہے۔ ظاہر ہے سمندر کی تہہ میں جا کر زمین کو پاتال تک ڈھونڈ کر تو اسامہ کو دفن نہیں کیا گیا ہوگا اور اگر اسے سمندر میں پھینکا بھی گیا ہے تو امریکہ ان تصویروں کو سب کے سامنے کیوں نہیں لارہا۔ اس کو دفنانے سے شرپیدا ہونے کا خدشہ تھا، مگر اس کو بغیرغسل کے، بغیر کفن کے سمندر میں پھینکنے سے کیا اوباما حکومت ان سوالوں سے بچ جائے گی، جو اس وقت مسلم ممالک کھڑے کر رہے ہیں۔ امریکہ کا یہ کہنا کہ اسامہ کی لاش کی تصویریں جاری اس لیے نہیں کی جارہی کہ وہ کافی لرزہ خیز ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جے کیسی کے بیان پر اگر غور کریں کہ اسامہ کو ہلاک کرنے کے فوراً بعد کی تصویر رونگٹے کھڑی کرنے والی ہے، لیکن کیا تصویریں نہ دکھانے سے امریکہ کے اس آپریشن پر سوالیہ نشان نہیں لگ جائے گا؟ جو لوگ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 40 منٹ میں سب کچھ ہوجائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، وہ یہ بھی نہیں مانیںگے کہ اسامہ کا مرنا سچ ہے۔ اب ڈی این اے رپورٹ اور چہرہ پہچاننے والا سافٹ ویئر ایک عام آدمی کی پہنچ میں تو ہے نہیں تو پھر کیسے یقین آئے گا ایک عام انسان کو۔ امریکہ میں ہی تصویریں جاری کرنے کے لیے کچھ لوگوں کی زبردست مانگ ہے۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ ڈائنا فین اسٹین نے بھی یہ مانا ہے کہ فوٹو ضرور جاری کرنا چاہیے۔ آپ صرف ایک بات بتائیے کہ اگر ہمارے گھر میں خدانخواستہ کوئی رشتے دار یا کسی قریبی کی موت ہوجاتی ہے اور وہ بھی کسی بھیانک حادثے میں تو اس کی مسخ شدہ لاش کا چہرہ بھی تو گھر والے رشتے دار دیکھتے ہی ہیں اور پھر یہ آپریشن تو ایک سپرپاور کی طرف سے ہوا ہے، جس میں جذباتیت کو پس پشت رکھ کر حقائق کو سامنے لانا نہایت ضروری ہے اور جس وقت اس کی لاش کو سمندر میں پھینکا گیا، تب امریکہ کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اسلامی ممالک اس غیراسلامی طریقے پر احتجاج کرسکتے ہیں، جتنا احتجاج اور جتنے جذبات تصاویر کو دیکھ کر بھڑکیںگے، اتنے ہی اس بات پر بھی بھڑک سکتے ہیں کہ چاہے کوئی کتنا بڑا مجرم کیوں نہ ہو، اس کی آخری رسومات، اس کی تدفین، اس کے مذہب کے اعتبار سے کی جانی چاہیے۔ غضب کا جواب ہے امریکہ کا کہ اسلامی شریعت کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر تدفین ہوجانی چاہیے۔ چلو مان لیا کہ اس کو سمندر میں جب اتارا گیا تو عربی کی آیتیں پڑھی جارہی تھیں ٹھیک ہے اگر اسامہ کا چہرہ نہیں دکھاسکتے تو کم سے کم اس بیگ کو ہی دکھا دو، جس میں رکھ کر اسامہ کو سمندر میں اتارا گیا، وہ منظر ہی دکھا دو ان لوگوں کو ہی دکھا دو جو آیتیں پڑھ رہے تھے۔ کچھ تو مسلمانوں کے جذبات کو تسلی نصیب ہوگی، لیکن یہاں ایک بات اور بھی دیکھنی ہے کہ مسلم ورلڈ اسامہ کو دہشت گرد تسلیم کرتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ یہاں یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ پوری دنیا کا مسلمان یہ مانتا ہے کہ اسامہ امریکہ کا بنایا ہوا، ڈھالا ہوا اور استعمال کیا ہوا وہ بت تھا، جس کو امریکہ نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور جب امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ اس کی موت فائدہ پہنچاسکتی ہے تو اس بت کو خود اپنے ہی ہاتھوں توڑ دیا، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کوئی جاہل قوم ہے، جو بغیر کسی بات کے بھڑک جاتی ہے، ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں وطن پرستی کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ قرآن مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز سے بھی محبت کرنا سکھاتا ہے۔ یہ قوم کوئی پاگل نہیں ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والے کی حمایت کرے گی، مسلمان بھی دہشت گردی کا مخالف ہے۔ خیر بحث یہ نہیں ہے، بحث یہ ہے کہ اسامہ کی موت سے جو سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟ آج صرف اسلامی ممالک ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر احتجاج ہورہا ہے۔ سابق جرمن چانسلر اور معروف اسٹیٹ مین ہیلمٹ شٹ کے بیان پر غور کریں تو انہوں نے تو اسامہ کے متعلق پوری کارروائی کو ہی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی مانا ہے، اسامہ کی موت سے متعلق بیانات پر جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، اگر جائیں تو ہالینڈ کے بین الاقوامی قوانین کے مشہور وکیل جان گرٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ بن لادن کو زندہ گرفتار کر کے امریکہ لے جانا چاہیے تھا۔ حقوق انسانی کے مشہور وکیل رابرٹ سن کا بھی یہی بیان ہے کہ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ کسی شخص کو پکڑ کر عدالت میں لایا جائے اور شہادتوں کی روشنی میں اس پر جرم ثابت ہو اور قانون کے مطابق سزا سنائی جائے، لیکن اس طرح کے بیانات کا شاید امریکہ کے پاس یہی جواب ہے کہ اتنے خونخوار مجرم کو مارنا ہی ضروری تھا تاکہ آئندہ عبرت ہو، لیکن ایک بات امریکہ کی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس طرح اسامہ کو انہوں نے ہیرو بنانے کا پورا سامان مہیا کرا دیا ہے۔ وہ لوگ جو واقعی اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ ایک بار تو یہ ضرور سوچیںگے کہ اس کی کم سے کم آخری رسوم ہی ادا کردی جائیں۔ کیا پتہ کہ اگر اس کی نماز جنازہ ہوجاتی اور لوگ اس کی میت کو دیکھ لیتے تو عبرت حاصل کرتے۔ اب آجاتے ہیں پاکستان سے متعلق کچھ سوالات پر۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے، جس کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوا اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا ٹھپہ اس پر کافی عرصے سے لگا ہوا ہے۔ پوری دنیا پاکستان اور پاکستانیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لیکن وہ پاکستان جو امریکہ سے امداد لے کر پنپ رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کو پتہ ہو کہ لادن وہاں ہے اور وہ امریکہ کو خبردار نہ کرے۔ اس میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کی کچھ ایسی ساز باز ہوئی ہو کہ پاکستان کو اس میں خاموش رہنے کو کہا گیا ہو اور یہ کہا گیا ہو کہ ہم تمہارے یہاں سب کچھ کرکے آجائیںگے تم انجان بنے رہنا تاکہ دنیا کو امریکہ یہ دکھا سکے کہ اس کے ملک میں 9/11 جیسا واقعہ کرنے والے کو امریکہ ایسی سزا دیتا ہے یا پھر واقعی پاکستان جانتا ہی نہیں تھا، کیوں کہ خود امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو بھنک تک نہیں لگنے دی۔ پاکستان یقینا معصوم نہیں ہے، مگر نہ جانے کیوں پاکستان کو پتہ نہ ہونا اور اگر ہو تو لاعلمی کا اظہار کرنا کچھ ناسمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ ایک ایک کر کے سبھی بڑے عرب لیڈران کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ کرنل قذافی کے بیٹے سیف اور پوتوں کی موت تو دنیا اسامہ کے چکر میں بھول ہی گئی، مگر ہم آپ کو یاد دلادیں کہ یہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا ہے، سب کچھ منظم ہے۔ افغانستان، عراق، مصر، لیبیا، ان سبھی کے حکمرانوں کو ختم کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ پوری عرب دنیا کو ذلیل و خوار کر کے اور ساتھ میں پاکستان کی بربادی کا تماشا دیکھ کر امریکہ شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، تو یہ اس کی بھول ہے۔ مگر ہم یہ نہیں کہنا چاہتے، ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہندوستانی مسلمان دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے وطن عزیز سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں، ہاں اسامہ کی بے دردانہ موت اور اس کی لاش کی بے حرمتی پر سخت احتجاج کرتے ہیں۔ ہمیں اس کے مارے جانے پر قطعی دکھ نہیں، ہمیں غیر اسلامی طریقے سے اس کی لاش کو سمندر میں پھینکے جانے پر اعتراض ہے اور وہ سوال جو ہم سے ہضم نہیں ہو رہے، ہم ان کے جواب چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔

Friday 13 May 2011

کولہاپور: پولس ٹریننگ اسکول یا جنسی استحصال کا اڈہ

وسیم راشد
ایک فلم آئی تھی انجام جس میں مادھوری دیکشت شاہ رخ خاں کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتی ہے۔ شاہ رخ خاں شادی شدہ مادھوری سے بے انتہا پیار کرتا ہے اور جب اظہار محبت میں ناکامی ہوجاتی ہے تو وہ مادھوری کے شوہر کا قتل کر کے اس کا الزام مادھوری پر ہی لگا دیتا ہے۔ مادھوری جب حوالات میں ہوتی ہے تبھی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ حاملہ ہے، اسی دوران خاتون پولس انسپکٹر حوالات میں بند دوسری لڑکیوں کو کچھ بڑے سیاست دانوں کے سامنے ان کی ہوس پوری کرنے کے لیے بلاتی ہے اور اسی میں مادھوری بھی شامل ہوتی ہے۔ مادھوری خود کو کس طرح بچاتی ہے اور دوسری لڑکیاں کس طرح اس دلدل میں پھنس جاتی ہیں، یہ پوری فلم کی کہانی ہے، مگر اس میں ایک بات اہم ہے اور وہ یہ کہ جیل کی چار دیواری، پولس اور خاکی وردی میں ملبوس ہمارے وطن کے رکھوالے سب عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ان سب کے بیچ میں رہ کر بھی عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں۔ کچھ دن قبل خبر آئی کہ کولہا پور کے ایک پولس ٹریننگ اسکول میں 11 کنواری ٹرینی کانسٹبل حاملہ پائی گئیں۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ ملک جہاں بالی ووڈ کی چھوٹی سے چھوٹی ادنیٰ سے ادنیٰ خبریں تو سارا دن چینل کی زینت بنی رہتی ہیں، وہاں اتنی بڑی خبر بس 2دن اخبار کی زینت بنی اور وہ بھی بہت ہی مختصر سی خبر کی طرح پہلے دن صفحۂ اول پر اور دوسرے دن کسی اندرونی صفحہ کے کسی کونے میں اور کسی کسی چینل نے اس کو اپنے یہاں سے ٹیلی کاسٹ کیا، اس خبر کا کیا اثر ہوا کتنے لوگوں کی گرفتاری ہوئی، کتنے افراد اس میں ملوث پائے گئے، اس کے بارے میں ابھی کوئی بھی مزید اطلاع نہیں مل پائی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ٹریننگ اسکول میں ایک نہیں پوری 11 لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا گیا ہو، اس کو لے کر ہنگامہ کیوں نہیں ہوا، مہیلا مکتی مورچہ، مہیلا مکتی سنگھ جیسی تنظیمیں کہاں سو رہی ہیں۔ معمولی معمولی بات پر ہنگامہ کھڑا کرنے والی دوسری تنظیمیں کہاں ہیں؟ جنسی استحصال کے الزام میں انسپکٹر یوراج کامبلے کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کامبلے کا کہنا ہے کہ انہیں بلی کا بکرا بنایا گیا ہے، جب کہ ایک پولس ٹرینی نے کامبلے پر ہی الزام لگایا ہے۔ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ مقامی ممبرپارلیمنٹ سدا شیو راؤ کہتے ہیں کہ 11 حاملہ ہیں جب کہ دیگر اطلاعات کے مطابق صرف 3 حاملہ ہیں۔ اب یہ تو آپ اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی حاملہ عورت کو چھپایا نہیں جاسکتا اگر شروعات بھی ہے تو بھی میڈیکل کرانے سے حقیقت سامنے آجاتی ہے، ایسے میں یہ بیان چہ معنی دارد؟
خواتین کا استحصال کوئی نئی بات نہیں ہے، جب سے اس مظلوم قوم نے گھر سے باہر قدم نکالا ہے، تب سے ہوسناکی کا شکار ہوئی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کو گھر سے باہر نکلنے کا حق ہی نہیں ہے اور کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت گھر سے باہر صرف اپنے شوق کے لیے نکلتی ہے۔ ستم یہ کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی ہر عورت بدکردار ہے۔ عورت کی پریشانی یہ ہے کہ وہ گھر میں بچوں کو روتا بلکتا نہیں دیکھ سکتی، شوہر کو پریشان نہیں دیکھ سکتی، باپ کے کندھوں کو اپنی شادی کے بوجھ سے جھکتا نہیں دیکھ سکتی اور ماں کے سر میں ہر دن چمکتے تاروں کا اضافہ نہیں سہ سکتی، تبھی وہ گھر سے باہر نکلتی ہے، مگر اس کو سمجھنے والا اس کے جذبے کو سراہنے والا کوئی نہیں ہوتا ہر شخص گھر سے باہر نکلنے اور نوکری کرنے والی عورت کو باپ کا مال سمجھتا ہے۔ معاف کیجیے گا الفاظ ذرا تلخ ہوگئے ہیں، مگر کیا شیرینی میں لپیٹ کر کہنے سے تلخ بات میٹھی ہوجائے گی، نہیں بلکہ اس کا اثر ختم ہوجائے گا اور تلخ بات یہی ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے اس کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔ گھر میں الگ طرح سے باہر الگ طرح سے، گھر میں اس کو بار بار یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ وہ کماتی ہے تو کوئی احسان نہیں کرتی یا کہ کام کرتی ہے تو کیا گھر میں بیٹھ کر کھائے گی، اگر بہو ہے تو ساس نندوں کے طعنے کہ خود تو تیار ہو کر نکل جاتی ہیں، ہم سارادن چولہا پھونکیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس غریب کے ٹوٹتے جسم اور تھکے دماغ کو آسودگی کہیں بھی نصیب نہیں ہوتی۔ آفس یا کسی ادارے میں کام کرتی ہے تو ساتھ کام کرنے والوں کی ہوسناک نگاہیں ہر مرد ایک بار ضرور آزماتا ہے۔
کولہا پور میں جس طرح کنواری لڑکیوں کے حاملہ ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس سے کئی باتیں صاف ہیں کہ اس اسکول میں یہ گورکھ دھندہ سالوں سے چل رہا ہوگا، اس کے علاوہ صد فی صد اس میں ایک نہیں کئی افراد ملوث ہوںگے اور وہ بھی بڑی مچھلیاں ہوںگی جن کو جال ڈال کر پکڑا جائے تو ہی قابو میں آئیں گی۔ ہوم منسٹر پاٹل جی نے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولس متھلی جھا کو اس پورے معاملہ کا انچارج بنایا ہے۔ کامبلے نے جن دوسینئر پولس آفیسر دیانیشور منڈے اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولس پر کالے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ان کا بھی کیا بھروسہ کہ ان کے ساتھ اور نہ جانے کتنے نام ہوںگے۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ مہاراشٹر حکومت کو فوری طور پر اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی آفیسرز کو اگر وہ اس میں ملوث پائے جائیں تو برخاست کردینا چاہیے۔
اس وقت جب کہ پورا ملک بدعنوانی کا شکار ہے۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے اور آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہر شخص دوسرے کو پچھاڑ دینا چاہتا ہے، ایسے میں خواتین ہر جگہ غیرمحفوظ ہیں۔ دلی میں جنوبی دہلی کے ڈیفنس کالونی علاقہ میں ایک 15 سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ سامنے آیا۔ میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ ایسا نہیں ہے کہ بڑے شہروں میں ہی لڑکیاں غیرمحفوظ ہیں، چونکہ ان شہروں میں میڈیا تک رسائی اور میڈیا کی عام انسان تک رسائی آسان ہے، اسی لیے یہ واقعات سامنے آجاتے ہیں، جب کہ گاؤں، قصبوں اور دیہاتوں کی حالت تو اور بھی خراب ہے، وہاں کھیتوں میں کام کرنے والی کسان عورتیں اپنے ہی گھر کے لوگوں کے ذریعے جنسی استحصال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان معصوموں کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا، نہ ہی ان کا ساتھ دینے والا کوئی ہوتا ہے۔ عصمت دری کا شکار ہوئی لڑکیاں یوں تو بدنامی کے ڈر سے سامنے ہی نہیں آتیں اور اگر آ بھی جاتی ہیں تو پھر ایک ہولناک مستقبل ان کے سامنے ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی کیس ایسے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں، مگر ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہار کی ایک خاتون پرنسپل روپم پاٹھک کی ان کے ہی علاقے کے ایم ایل اے کے ذریعہ سالوں عصمت دری ہوتی رہی اور بار بار پرنسپل اس کی شکایت کرتی رہی، مگر وہی ہوا جو ان تمام کیسوں میں ہوتا ہے، روپم پاٹھک پر ہی سوال اٹھائے جانے لگے اور ایک دن تنگ آکر اس نے سرعام ممبراسمبلی کا خون کردیا، گویا اس طرح اس نے اپنے حساب سے انصاف کرلیا، مگر اس کا انصاف کون کرے گا۔ آج بھی وہ بے یار و مددگار جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کے برے دن کاٹ رہی ہے۔ آئی جی راٹھور کا نام کسے یاد نہیں بڑی بڑی مونچھوں والا یہ سخت چہرے والا شخص جس پر روچیکا جیسی معصوم نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا، اس نے بھی ایک دن نہ جانے کیسے خود کو بے قصور ثابت کر الیا اور اب بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے اور وہ معصوم اپنی جان سے چلی گئی۔ یہ سب تووہ کیس ہیں جو سامنے آگئے ہیں اور بھی نہ جانے کتنے ایسے کیس اگر ہم ڈھونڈنے بیٹھ جائیں تو انٹرنیٹ پر مل جائیںگے، مگر ہم یہاں اپنی قابلیت کا رعب جمانے کے لیے یہ مضمون قلمبند نہیں کر رہے ، بلکہ حقیقتاً اس درد کو آپ سے بانٹ رہے ہیں جو درد ایک عورت ہوتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں۔ رات دن عورتوں سے جسمانی استحصال اور ان کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، ابھی کئی دن کے اخبارات میں لگاتار شوہر کے ذریعہ بیوی کو زد کوب کرنے اور جلا کر مارڈالنے کی کئی خبریں نظر سے گزری ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ جو عورت ماں، بہن، بیوی کا روپ ہے اس عورت کو باہر اکیلا پاکر کون سا حیوان بیدار ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار پورے نظام کو بدلا جائے، خواتین کے تحفظ کے لیے خواتین ہی آگے آئیں اور ان پر جو بھی مظالم ہو رہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھائیں، دیکھیے ان کی حفاظت کرنے یا ان کا دفاع کرنے آسمان سے تو خدا کسی کو نہیں بھیجے گا خود ان ہی کو اس کا بیڑا اٹھانا ہے، تبھی کچھ حالات بدل سکتے ہیں۔ یہ سب سنی سنائی یا غیر عملی باتیں نہیں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اگر عورت مضبوط ہو تو ا س کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرے۔

Friday 6 May 2011

مودی کی مسلم مخالف پالیسی ہندو ازم پر بھی داغ ہے

وسیم راشد
لیجئے پھر گجرات فسادات سے متعلق بیان سامنے آ گیا۔ اس بیان کی اہمیت اس لئے نہیں کہ9 سال بعد آیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اب مسلمانوں کے زخم کچھ بھرنے لگے تھے اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ بے گناہ لوگوں کو بچایا جا سکے گا۔یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بدعنوانی کے خلاف بھوک ہڑتال کر رہے ہمارے انا جی نے مودی کی تعریف اس طرح کی کہ مسلمان جو انا ہزارے کے ساتھ جنتر منتر پر موجود تھے اور ان کے لئے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اچھے اچھے اور بڑے بڑے شعراء کے اشعار لا رہے تھے او رمیڈیا کے سامنے جوش و خروش سے پڑھ رہے تھے ، ان کے جذبات بھی سرد پڑ گئے۔دراصل مودی کا ایشو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے وہ ناسور ہے جس کا علاج تو ممکن نہیں ہے مگر طرح طرح کی دوائیوں سے اس کی تڑپ اور درد کو ہلکا کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس فساد میں تقریباً1044لوگ مارے گئے تھے جس میں 790مسلمان اور 25ہندو تھے (افسوس ہے کہ مرنے والوں کی فہرست ہندو مسلمان کی فہرست سمجھ کر بنانی پڑ رہی ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اتنے ہندو یا مسلمان نہیں اتنے انسان مرے۔) 223سے 250تک لوگ اس فساد میں ایسے کھوئے کہ ابھی تک پتہ نہیں چل پایا۔  2548کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ ایک ہزار کے قریب عورتیں بیوا اور 606بچے یتیم ہو گئے تھے۔ایسا فساد جس سے پوری دنیا ششدر رہ گئی اور جس نے جلیاں والا حادثہ کو پھر سے تازہ کر دیا اور مودی کی شبیہ ایسی داغدار ہوئی کہ بیرون ممالک میں جانے کے لئے ویزا تک نہیں ملا ۔
ہاں یہ سلوک مودی کے ساتھ غیروں نے کیا۔ ہمارے اپنوں نے تو ان کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار پھر سے اسی ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔گویا اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ جو بھی مودی نے کیا وہ اس کا حق تھا ۔ بی جے پی یہ بھول گئی کہ مودی کی مسلم مخالفت دراصل ہندو ازم کی شبیہ خراب کرنا ہے۔کیونکہ پوری دنیا میں ہندو مذہب بھی اپنی روایت کی پاسداری ، حسن سلوک اور انسانی ہمدردی کے لیے جانا جاتا ہے۔مودی کے اس اینٹی مسلم کردار سے ایک طرح سے وہ اینٹی ہندو ازم کی مثال بن جاتے ہیں۔ مودی سے متعلق مختلف بیانات پھر سے سامنے آرہے ہیں اور اس بار گجرات کے ہی ایک سینئر پولس افسر سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے حلف نامہ میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے گودھرا کی ٹرین میں کار سیوکوں کو جلائے جانے کے واقعہ کے بعد اعلیٰ پولس افسروں سے کہا تھاکہ وہ ہندئوںکو اپنا غصہ نکالنے دیں۔
سنجیو بھٹ 2002میں فسادات کے وقت انٹیلی جنس کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ بھٹ کا یہ بیان بے حد اہم ہے کیونکہ بھٹ نے27فروری 2002کو گودھرا کے واقعہ کے بعد احمد آباد میں جب اعلیٰ پولس افسران کی میٹنگ بلائی تو مودی نے پولس سے کہا کہ ’’وہ فسادیوں کو نہ روکیں اور مسلمانوں کی طرف سے مدد کی التجائوں پر توجہ نہ دیں‘‘ یہ ہے مودی کی مسلم دشمنی کا جیتا جاگتا ثبوت۔ مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خود کو نیشنل ایشوز سے نہیں جوڑتے۔ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث رہتے ہیں۔ان کی داڑھی، ٹوپی پر بار بار نکتہ چینی کی جاتی ہے مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں نے تو جنگ آزادی سے لے کر آج تک بار بار اپنے وطن عزیز کے لئے قربانیاں دی ہیں۔مگر اسی ملک نے ایک مودی تک کی قربانی نہیں دی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے زخم ہمیشہ ہی ہرے رہے۔18صفحات پر مشتمل اپنے حلف نامہ میں سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ کو یہ تفصیلات فراہم کیں کہ اس میٹنگ میں آٹھ افسران شامل تھے اور ان سے مسٹر مودی نے کہا کہ’’ ایک طویل عرصہ سے گجرات پولس اب مذہبی فسادات میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہمیشہ balanced رہی ہے لیکن اس بار ایسی صورتحال ہے کہ مسلمانوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ کبھی ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہونے پائے۔‘‘مسٹر سنجیو بھٹ نے اپنے حلف نامہ میں یقینا سچائی سے کام لیا ہوگا۔اب یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر 9سال بعد سنجیو بھٹ کا ضمیر جاگا ہے، کیونکہ جس وقت رپورٹرس نے ان سے سوال کیا کہ آخر ان کا یہ سب اس وقت کرنے کا کیا مقصد ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میرا کوئی مقصد نہیں ہے میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔اس جواب سے ایک عام مسلمان تو مطمئن ہو سکتا ہے مگر ایک صحافی کے دل میں ضرور شک و شبہات پیدا ہو ں گے کہ آخر اس فرض کو پہلے ادا کیوں نہیں کیا گیا؟ رپورٹر نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ ان کو کبھی دھمکی بھی ملی ہے تو بھی بھٹ نے جواب دیا کہ انہیں جو بھی کہنا ہے وہ سپریم کورٹ میں کہیں گے۔ ہاں یہ ضرور انھوں نے کہا کہ دسمبر 2002سے 2009تک نہ کورٹ نہ کمیشن نے نہ کسی ایجنسی نے ان کو بلا کر کچھ پوچھا ۔ سنجیو بھٹ نے ایس آئی ٹی کو بھی یہ باتیں بتائی تھیں لیکن اس نے ان کے بیان پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ایسا ہی آر بی سری کمار کے ساتھ بھی ہوا تھا کہ انھوں نے نریندر مودی کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ایک حلف نامہ گجرات فساد پر جمع کرایا تھا لیکن تب بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔آر بی سری کمار بھی انٹیلی جنس بیورو میں تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھٹ کے ذریعہ داخل کیا گیا حلف نامہ ان کے حلف نامہ کو اور بھی پختہ کرتا ہے۔دیکھئے کیا رول ہے ہماری انٹیلی جنس بیورو کا کہ بار بار ایک شخص کے خلاف حلف نامے داخل ہو رہے ہیں،مگر اس شخص کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
بھٹ 1988کے بیچ کے آئی پی ایس آفیسر ہے اور اس وقت جونا گڑھ اسٹیٹ ریزرو پولس ٹریننگ سینٹر میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہیں۔ بھٹ کو یہ بھی حیرانی ہے کہ 27اپریل کو دوسرے اور معاملات کے ساتھ اس حلف نامہ کو سامنے آنا تھا یہ میڈیا میں پہلے سے کیسے لیک ہو گیا۔ یہ ہندوستان ہے جناب یہاں پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی یہ تک پہلے سے پتہ لگا کرپتہ لگا کر اگر لڑکی ہے تو اسے پیٹ میں ہی مار دیا جاتا ہے جو بہت بڑا قانونی جرم ہے تو پھر میڈیا میں یہ رپورٹ آ جانا کون سی بڑی بات ہے۔ہاں ایک مثبت بات ضرور ہوئی کہ بھٹ کے اس حلف نامہ کے مواد پر گجرات کانگریس صدر ارجن مودھ واڑیا نے بی جے پی اور اس کے اعلیٰ افسران سے جواب طلب کیا ہے اور ان کی یہ بات حق بجانب ہے کہ بی جے پی وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پر اتنے بڑے ایشوپر بی جے پی خود قوم کو کیا جواب دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بی جے پی نے بھی ایک صحیح اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہوتا تو آج کانگریس حکومت کی سبھی بدعنوانیاں سامنے آتی جاتیں اور حکومت اپوزیشن کو جواب دہ ہوتی۔مگر اٹل بہاری واجپئی کے بعد بی جے پی میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ، اڈوانی جی نتن گڈکر ی کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔سشما سوراج صرف گرجنے کے لئے ہیں۔ بڑی ہنسی آتی ہے سینئر بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی کے اس بیان پر جو انھوں نے بھٹ کے بیان کے بعد دیا ہے کہ جوڈیشیل میکانزم اس پورے معاملہ کو دیکھے گا۔ اس لئے اس کو اس پر چھوڑ دینا چاہئے۔آفریں ہیںتیستا سیتلواڑ پر جو گجرات فسادات کے بعد برابر مسلمانوں کے حقوق کے لئے ان کو انصاف دلانے کے لئے لڑ رہی ہیں ۔ انھوں نے خود بھی اس بات کو مانا ہے کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ براہ راست کسی ایسے شخص کی طرف سے جو وہاں خود موجود ہو سچائی سامنے آئی ہے اور وہی بات انھوں نے کہی ہے جو مسلمانوں کے دل ودماغ میں ہے اور جس کو وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتے ہیں اور جس کی کوئی سنوائی نہیں کہ ایسے چیف منسٹر کو دو بار منتخب کیا گیا جس کو گجرات فساد کے بعد ہرگز دوبارہ نہیں بنانا چاہئے تھا ۔ جو خود گجرات کا مالک ہے ، وہاں کا حکمراں ہے ، وہ کیسے تفتیش کو غیر جانبدار رہنے دے گا۔ تیستا کے اس بیان سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ گجرات فساد کی آج بھی صحیح تفتیش نہیں ہو پائی ہے۔ ابھی تو اور نہ جانے ایسے کتنے عقدے کھلیں گے ۔ سابق آئی پی ایس افسر جی ایس راج گڑھ جو کہ گجرات میںتعینات تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ فروری 2002میں جب میٹنگ رکھی گئی وہ چھٹی پر تھے۔ اس لئے انہیں پتہ نہیں کیا ہوا۔یہ بھی ایک سوال ہے؟کہ آخر وہ چھٹی پر کیوں تھے، ایسے میںجبکہ پورا ملک ، پوری ریاست جل رہی ہو اور اتنے اہم ایشو پر میٹنگ بلائی جا رہی ہو۔ ایک سینئر پولس آفیسر کا چھٹی پر جانا چہ معنی دار ؟ادھر ذکیہ جعفری کے ذریعہ بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ مودی سمیت سینئر پولس آفیسر اور سینئر بیوروکریٹس سبھی اس فساد میں شامل تھے۔یہ ضرور ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بار بار مختلف اداروں، تنظیموں، این جی اوز ، صلاح کار کمیٹیوں اور فلاحی تنظیموں کے ذریعہ گجرات فساد کے انصاف پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں لیکن اس بار یہ ضرور ہے کہ اس حلف نامہ نے بی جے پی کو مجبور کر دیا ہے کہ پھر سے مودی کے بارے میں سوچا جائے اور قوم بھی اڈوانی سے کچھ امید رکھتی ہے۔ہاں کچھ سوال ضرور اس تعلق سے ایک ادنیٰ صحافی کے دماغ میں کلبلا رہے ہیں، جن کا جواب آپ کو بھی چاہئے۔
٭    پہلا سوال یہ ہے 9سال بعد ہی سنجیو بھٹ کو یہ خیال کیوں آیا ؟
٭    جو ثبوت وہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے والے ہیں، وہ ان کے پاس پہلے سے موجود رہے ہوں گے، ان میں کتنی سچائی ہے؟
٭    27فروری 2002کی میٹنگ میں بھٹ کی موجودگی سے مودی حکومت کیوں انکار کر رہی ہے؟
٭    27فروری کی میٹنگ میںاور آفیسر بھی موجود رہے ہوں گے ، انھوں نے کیوں خاموشی اختیار کی، کیا سبھی کا ضمیر مردہ ہے؟
٭    ناناوتی کمیشن جو گجرات فسادات کی جانچ کر رہا ہے ، اس نے بھٹ سے کیوں پوچھ تاچھ نہیں کی؟
٭    ایک آخر ی لیکن ذرا چبھتا ہوا سوال، وہ یہ کہ سنجیو بھٹ کب ریٹائر ہو رہے ہیں، کہیں یہ مستقبل کی کوئی پلاننگ تو نہیں ہے؟
اپنے آخری سوال پر ہم خود شرمندہ ہیں، کیونکہ ابھی تک تو سنجیو بھٹ نے بڑی ہمت اور جواں مردی سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں کسی پینل یا عدالت کے سامنے طلب کیا گیا تو وہ سارے ثبوت پیش کر دیں گے۔ خدا کرے سنجیو بھٹ کی شکل میں مسلمانوں کا کوئی سچا ہمدرد سامنے آئے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک سنجیو بھٹ کیا ایسے نہ جانے کتنے ہی سنجیو بھٹ سامنے آ جائیں اور مودی کی مسلم مخالفت کھل کر سامنے آجائے اور سرکردہ اور تعلیم یافتہ ہندوبھائیوں کو بھی اس کا بات کا احساس ہوجائے کہ کہیں نہ کہیں مودی سے ان کے ہندوازم پر بھی داغ لگ رہاہے۔