Monday 1 August 2011

آخریہ بم دھماکے ہوتے ہی کیوں ہیں ؟

وسیم راشد
دہشت گردی ایک ایسا مرض ہے جس نے آج کل پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسے روکنے کی جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس میںاتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مرض کچھ اور ہے اور علاج کچھ اور ہی کیا جا رہا ہے۔ سرکار کو پتہ ہے کہ مرض کی اصل جڑ کہاں ہے، لیکن ووٹ بینک کی سیاست سے مجبور ہو کر وہ لوگوں کے دھیان کو بھٹکانا چاہتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے…
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اور شاید یہ آگے بھی ہوتے رہیں، اگر چند بنیادی کمزوریوں کو ٹھیک نہ کیا گیا۔ یہ بنیادی کمزوریاں نہ صرف شہریوں کے اندر ہیں بلکہ پولس نظام اور ملک کی ان ایجنسیوں میں بھی ہیں جن کے اوپر قانون کو نافذ کرنے اور نظم و نسق کو بنائے رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں دہشت گرد بڑی خاموشی سے اپنا کام انجام دیتے رہیں اور پولس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ میں نے چند دنوں پہلے ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران فوج کے ایک جنرل کی زبانی سنا تھا کہ ملک کے اندر سب سے بہتر انٹیلی جنس پولس محکمہ کے بیٹ انچارج (Beat Incharge) کے پاس ہوتا ہے، یعنی وہ پولس والا جسے کسی چوراہے، گلی محلے یا کسی چھوٹے علاقہ میں تعینات کیا جاتا ہے، اس کے پاس خفیہ خبر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ ملک کی بڑی سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی سے زیادہ پختہ خبر پہنچا سکتا ہے۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ گلی، محلوں اور چوراہوں پر تعینات یہ پولس والے آخر کرتے کیا ہیں؟
میں نے اکثر و بیشتر راہ سے گزرتے وقت یہ دیکھا ہے کہ کوئی پان بیڑی بیچنے والا یا پھر سڑک کے کنارے ریہڑی لگانے والا کسی پولس والے کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے یا پھر اس کے ساتھ تلخ کلامی کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے جب قریب سے جاکر اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ چونکہ وہ پان بیڑی بیچنے والا یا ریہڑی لگانے والا پولس والے کو اپنی دکان غیر قانونی طریقے سے لگانے کی وجہ سے پیسے دیتا ہے اس لیے اسے پولس والے سے ڈر نہیں لگتا۔ پولس والا سے اس کی اکثر و بیشتر جھڑپ اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ وہ پولس والے اس سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اس پولس والے کی جگہ پر، جسے وہ پہلے پیسے دیا کرتا تھا، اب کوئی نیا پولس والا آگیا ہے اور اس سے زیادہ پیسے وصول کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح ہم سب نے اکثر و بیشتر سڑکوں پہ دیکھا ہوگا کہ پرائیویٹ بس کے ڈرائیور یا کنڈکٹر ٹریفک پولس سے نہیں ڈرتے، اور بہت ہی غلط طریقے سے بس چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں اور آخر کار دہلی حکومت کو سڑکوں سے پرائیویٹ بسوں کو ہٹانے کا فیصلہ لینا پڑا۔ پرائیویٹ بس والا یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے پولس کو پیسے کھلائے ہیں، لہٰذا اسے غیر قانونی طریقے سے بس چلانے کا اور لوگوں کو مارنے کا گویا سرٹیفکیٹ حاصل ہو گیا ہے، اس لیے وہ پولس والے سے نہیں ڈرتا۔لیکن اس کے برعکس ایک شریف آدمی ہر وقت پولس والے سے ڈرتا ہے۔  ان دونوں مثالوں کا اگر دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر مطالعہ کیا جائے تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں جتنے بھی غیر قانونی کام کرنے والے لوگ ہیں وہ پولس سے اس لیے نہیں ڈرتے کیوں کہ وہ کسی نہ کسی بہانے پولس والوں کو پیسہ کھلاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پولس ان کے گناہوں کی طرف سے آنکھ موند لیتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون کو توڑنے والے یہ شر پسند اور سماج دشمن عناصر ایسی سرگرمیوں کو انجام دے دیتے ہیں، جس کا شمار دہشت گردانہ واقعات میں ہونے لگتا ہے۔
اب آئیے بم دھماکوں کے پیچھے کارفرما اپنی دوسری بنیادی غلطیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ چند دنوں قبل ہمارے ایک جاننے والے (جو اتفاق سے ایک صحافی بھی ہیں) کی موٹر سائیکل غائب ہوگئی۔ وہ بیچارہ دوڑا ہوا، پولس تھانے گیا اور تھانہ انچارج سے اس کی شکایت کی، اس نے اپنی طرف سے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر بھی درج کرانے کی کوشش کی، لیکن پولس نے ایف آئی آر درج نہیں کی اور اسے سمجھا بجھا کر گھر واپس بھیج دیا کہ کچھ پتہ چلا تو ہم آپ کو ضرور بتا دیں گے۔
مان لیجئے کسی دہشت گرد گروپ نے کہیں دھماکہ کرنے کے لیے چوری کی گئی اس موٹر سائیکل کا استعمال کردیا، تو اس میں پھنسے گا کون؟ ظاہر ہے جس کے نام پر یہ موٹر سائیکل تھی، وہی پھنسے گا، کیوں کہ دھماکے کے بعد پولس کو ایک پختہ ثبوت مل جائے گا کہ فلاں جگہ پر کیے گئے دھماکے میں فلاں شخص کے نام سے خریدی گئی موٹر سائیکل کا استعمال ہوا ہے۔ پولس آئے گی، اسے اٹھاکر لے جائے گی اور پھر پورا میڈیا ہفتوں مہینوں تک اپنے طریقے سے پورے ملک کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہے گا کہ اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ یہی شخص ہے۔ یہ شخص اپنے بچاؤ میں کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کر سکتا۔ البتہ جس وقت اس کی بائک چوری ہوئی تھی، اور اس نے پولس کو اس کی اطلاع دی تھی، اس وقت اگر اس کی ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو اس کے ہاتھ میں آج اپنے بچاؤ میں ایک پختہ ثبوت ہوتا، جس کی بنیاد پر شاید وہ دہشت گردی کے اتنے بڑے الزام سے بچ جاتا۔
ملک میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد جس طرح اور جتنی تیزی سے چند لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر ان کے خلاف ثبوت بھی جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر اسی قسم کے حالات سے دو چار ہوتے ہوں گے۔ کسی کے پاس سے فرضی پاسپورٹ ملتا ہے اور پھر پولس کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ٹریننگ لینے کے لیے پڑوس کے ملک گیا تھا جہاں سے اسے پوری ٹریننگ، پیسے اور دھماکہ خیز مادّے کے ساتھ ہندوستان میں بم دھماکے کرنے کے لیے واپس بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ ہر معاملے میں نہ سہی ایک دو معاملے ایسے ضرور سننے کو مل جاتے ہیں کہ چونکہ پاسپورٹ قانونی طریقے سے بنانا ایک ٹیڑھی کھیر ہے جب کہ پولس یا پاسپورٹ دفتر میں کام کرنے والے کسی ملازم کو پیسے کھلاکر آسانی سے پاسپورٹ بنوائے جا سکتے ہیں، اس لیے اس قسم کے فرضی پاسپورٹ بنا دیے گئے اور بعد میں وہ شخص دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پایا گیا۔
یہ ہیں وہ بنیادی کمزوریاں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم واقعی ملک کے اندر امن و امان چاہتے ہیں۔ آج ملک کے عام شہریوں کی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ چونکہ کوئی بھی سرکاری کام جائز طریقے سے نہیں کرایا جاسکتا ، اس لیے ہر کام ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے کرنے میں حرج کیا ہے، پکڑے جانے پر پولس والوں کو پیسے کھلا دیں گے، معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ ملک سے دہشت گردی کو اگر ختم کرنا ہے، تو لوگوں کی اس ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب سرکاری ملازمین رشوت لے کر کام کرنا بند کردیں اور پولس والے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پیسہ لے کر کسی بھی غلط کام کو کرنے کی اجازت نہ دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب پولس والے سے پوچھا جاتا ہے کہ بھئی! پیسہ وصولی کیوں کرتے ہو، تو جواب ملتا ہے کہ صاحب کو پہنچانا پڑتا ہے۔ اب وہ صاحب کون ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صاحب لوگ اگر چاہیں تو ملک کے اندر پرندہ پر نہیں مار سکتا، سرحد پار سے کیا ملک کے اندر کے کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی جگہ پر جاکر بم رکھ دے اور بے گناہوں کے خون سے ہولیاں کھیلتا رہے۔ صاحب کا اگر یہ فرمان پولس والے کو مل جائے کہ میں کچھ نہیں جانتا، میرے حلقے یا علاقے میںایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو تھانہ انچارج کی خیر نہیں، دہشت گردوں کو تو بعد میں پکڑا جائے گا پہلا جواب تو آپ پولس والوں کو دینا ہوگا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ پھر دیکھئے، یہی پولس والے کیسے ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔
شیو راج پاٹل جب وزیر داخلہ تھے، تو ملک میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے کئی واقعات پیش آئے جن میں 26/11 کا ممبئی حملہ بھی شامل ہے، لیکن وہیں جب پی چدمبرم ملک کے نئے وزیر داخلہ بنے تو اچانک ان بم دھماکوں کا سلسلہ بھلا کیسے تھم گیا؟ ظاہر ہے کہ سرکار نے جہاں دہشت گرد عناصر پر لگام کسنے کی ایماندارانہ کوشش کی، وہیں دوسری طرف سرکاری ایجنسیوں کی بھی ذمہ داری اور جوابدہی ضرور طے کی ہوگی، تبھی اتنے اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن گزشتہ 13 جولائی کو ممبئی میں ایک بار پھر تین بم دھماکے ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کی سطح پر اب بھی کچھ نہ کچھ کمزوری رہ گئی ہے، جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دھماکوں کے بعد پور ے ملک سے لوگوں کو گرفتار کرنا، پڑوسی ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا، بی جے پی کا کانگریس حکومت کو ذمہ دار قرار دینا اور اس کی پالیسیوں کو کوسنا اور پھر کانگریس کا پلٹ وار کرتے ہوئے آر ایس ایس وغیرہ کی طرف نشاندہی کرنا تو بہت آسان کام ہے۔ دھماکے کے بعد جھوٹی سچی کہانی گھڑ لینا بھی بہت آسان کام ہے۔ لیکن اصل کام جس کو کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ دھماکہ ہونے سے پہلے ہی اس کا پتہ لگا لیا جائے، بے قصوروں اور معصوموں کو مرنے سے بچا لیا جائے، اس کی سازش کرنے والے افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اگر کہیں پر پولس سے خطا ہوئی ہے تو اسے بھی نہ بخشا جائے۔ 26/11 حملے میں کسی بھی پولس والے کو سزا نہیں ہوئی۔ کیوں نہیں ہوئی، اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ سرکار اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں قانون کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف ملک کے عوام میں عزائم کی کوئی کمی ہے۔ ہر آدمی اپنا کام ایمانداری سے کرے اور الزام دوسروں پر تھوپنے سے پرہیز کرے، تو شاید ہم ایک پرامن ہندوستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

Wednesday 27 July 2011

کابینہ میں نئی ردوبدل، بے وقت کی راگنی

وسیم راشد
وزیراعظم منموہن سنگھ نے حالیہ دنوں میں دوسری بار اپنی کابینہ میں ردو بدل کی ہے۔ اس ترمیم میں کچھ نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں تو کچھ پرانے وزراء کو فارغ کردیا گیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ترقی دے کر کابینی درجے کا وزیر بنا یا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 نئے چہروں کو قلمدان دیے گئے ہیں جبکہ 7کو  باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ در اصل منموہن سنگھ پر حزب اختلاف کے ساتھ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی جانب سے ایک عرصے سے یہ تنقید کی جارہی تھی کہ وہ گزشتہ حکومت کے مقابل اس بار سست روی کے شکار ہوگئے ہیں، ساتھ ہی ان پر یہ بھی الزام تھا کہ ان کے کئی وزراء اپنی ذمہ داریوں کوبہتر ڈھنگ سے نہیں انجام دے رہے ہیں۔ اس تنقید سے بچنے کے لیے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں ردو بدل کیا ہے ۔کابینہ میں ان کے اس رد وبدل کو الگ الگ نظریے سے دیکھا جارہا ہے۔کوئی اسے عوام میں کانگریس کی بگڑتی ساکھ کو بحال کرنے اور آنے والے سال میں اتر پردیش میں ہونے والے عام انتخاب کی تیاریوں کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے عوام کو بہلانے کے لیے ایک لالی پاپ سے تعبیر کررہا ہے۔حقیقت جو بھی ہو، لیکن منموہن سنگھ کے اس ردو بدل سے یہ اشارہ تو مل ہی رہا ہے کہ ان پر سست روی کا اوران کی پارٹی پر بد عنوانی اورمہنگائی پر قابو نہ پانے کا جو الزام لگتا رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے یہ ایک حتمی اور آخری کوشش کی گئی ہے،تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اس ردو بدل کے بعد اب ملک کے اندر پھر کبھی کوئی 2 جی اسپکٹرم  نہیں ہوگا،اور نہ ہی آدرش گھوٹالے جیسے واقعات ہوں گے اور نہ ہی کوئی وزیر دولت مشترکہ کھیلوں میں گھپلے کے الزام میں شک کے دائرے میں آئے گا ۔اگر انہوں نے واقعی ایسا ہی سوچا ہے تو ان کی یہ حکمت عملی کچھ کارگر نظر نہیں آرہی ہے،کیوں کہ چند وزراء کو تبدیل کردینے سے مسائل کا حل نہیںنکالا جاسکتا۔ بلکہ اس کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کلیدی وزارتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ وزارتیں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہی ہیں۔ اگروہ اس میں کامیاب نہیں ہورہی ہیں تو ان وزارتوں میں ہی اصلاح و ترمیم کی جائے۔ ایسا اس لیے کہ کسی بھی حکومت کی شبیہ کو عوام میں  بہتر بنانے کے لیے انفرادی طور پر وزراء کے فیصلے کا بہت بڑا رول نہیں ہوتا بلکہ اس میںمجلس وزراء کا بڑا رول ہوتا ہے اور چونکہ اب بھی پرانے لوگوں کا دبدبہ قائم ہے اور کلیدی وزارتوں میں پرانے چہرے ہی موجود ہیں لہٰذا اس معمولی تبدیلی سے کسی بڑے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔دوسری اہم بات یہ کہ وزیر اعظم کو قلمدانوں کی تقسیم کے وقت ملک کی 29 ریاستوں کی نمائندگی اور آبادی کے تناسب کا خاص خیال رکھنا چاہیے،جو اس ردو بدل میں نظر نہیں آرہا ہے۔بلحاظ آبادی مسلمانوں کو نمائندگی دینے سے موجودہ حکومت قاصر رہی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رد وبدل کا یہ عمل اب بھی ہر خطے اور ہر طبقے کو مطمئن کرانے میں پوری طرح ناکام ہے۔ایسی صورت میں جن طبقوں یا جن ریاستوں کو مناسب نمائندگی نہیں مل سکی ہے اس کے لیے منموہن سنگھ کا رویہ کیا رہتا ہے اور ان ریاستوں اور طبقوں کو وہ کس طرح خوش رکھ پاتے ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ محض چند چہروں کی تبدیلی سے حکمرانی کے نظام میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔
ممکن ہے فی الوقت وزیر اعظم کی نگاہ اتر پردیش میں ہونے والے انتخاب پر ہو، اور اسی کو مدّنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس نئے رد و بدل کو انجام دیا ہو۔اگر ایسا ہے تو اس میں بھی انہیں کوئی خاص کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے،کیوںکہ ایک طرف ان کے اس عمل سے یوپی کے کانگریسی کارکنان خاص طور پر راجپوت برادری کے لوگ نالاں نظر آرہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یوپی میں راجپوت ووٹروں کی بڑی اہمیت ہے،اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مایا وتی نے پچھلے انتخاب میں 10 راجپوتوں کو ٹکٹ دیا تھا،جن میں 4 راجپوت اس وقت ممبر پارلیمنٹ ہیں،لیکن منموہن سنگھ نے حالیہ ردو بدل میں راجپوتوں کو کوئی نمائندگی نہیں دی،جس کا منفی اثر آنے والے الیکشن پر پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف نئے چہروں میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے مسلم کارکنان بھی مایوسی کے شکار ہیں،ایسے میں آنے والا الیکشن کانگریس کے لیے کوئی خوشخبری لے کر آئے گا، یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ساتھ ہی سلمان خورشید جو وزارتِ اقلیتی امور کی دیکھ بھال کررہے تھے، انہیں وزارتِ قانون دے دی گئی ہے اور اقلیتی امور کی ذمہ داریاں بطور اضافی ان کے پاس رہنے دی گئی ہیں۔اس سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ حکومت کو اقلیتی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے،اگر دلچسپی ہوتی تو اقلیتی امور کی وزارت کسی نئے وزیر کو باضابطہ طور پردی جاتی۔ اگرچہ خود وزیر اعظم کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے مگر ممکن ہے یہ فیصلہ انہیں کانگریس ہائی کمان کے دبائو میں آکر کرنا پڑا ہو۔
اگر وزیر اعظم وزارتوں میں ردو بدل کرکے واقعی ملک میںخوشحالی لانے اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے ان وزراء کو باہر کا راستہ دکھانا چاہیے تھا جن پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح بد عنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، کیوں کہ جب تک یہ وزراء کیبنٹ میں شامل رہیں گے اس وقت تک عوام کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کئی ایسے وزراء جن کو عام آدمی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کو بھی اہم قلمدان تفویض کردیے ۔ان کے اس فیصلے کو سیاسی مبصرین بے یقینی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، انہیں نہیں لگتا کہ اس رد و بدل سے حکومت مہنگائی یا بد عنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، البتہ کانگریس کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اس فیصلے کو ایک عمل لاحاصل سے تعبیر کرکررہا ہے۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سید شاہ نواز حسین کہتے ہیں کہ پو پی اے حکومت داغدار، اور لاسمتی کی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کابینہ سے وزیر داخلہ پی چدمبرم، وزیر مواصلات کپل سبل اور ولاس راؤ دیش مکھ کو نہیں ہٹایا،جبکہ مسٹر چدمبرم بھی 2 جی اسپکٹرم کے گھوٹالے میں اتنے ہی خطاکار ہیں جتنے کے وزیر مواصلات اے راجا۔ اسی طرح کپل سبل نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے جرمانہ کی رقم میں زبردست کمی کرکے اسے راحت دی اور ولاس رائو دیش مکھ کا نام آدرش ہائوسنگ سوسائٹی کے گھوٹالہ کے سلسلے میں آیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام کو اس بات کی امید تھی کہ وزیر اعظم داغدار وزیروں کو باہر کا رستہ دکھائیں گے مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
اگر غور کیا جائے تو سیاسی مبصرین کے یہ نظریات حقیقت کے بہت قریب ہیں، کیوں کہ منموہن سنگھ نے جو نئی کابینہ تشکیل دی ہے یہ محض دکھاوے کا ایک عمل لگتا ہے، جس میں وزارتیں تو منتقل کی گئی ہیں،نئے چہرے توشامل کیے گئے ہیں لیکن ان سے کوئی نئی امید نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ اگر یہ تشکیل عوامی فائدے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی تو وزارتوں میں جو ردو بدل ہوا ہے اور کچھ وزراء کے قلمدان منتقل کیے گئے ہیں ،ان میں عوامی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں عوامی ضرورتوں سے زیادہ پارٹی کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے اور وزارت کی اٹکل پچو تقسیم کردی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جے رام رمیش جن کے پاس ماحولیات کی وزارت تھی، اور جنہوں نے متعلقہ وزارت میں کئی اہم فیصلے اور اقدامات کیے،لیکن ان سے ماحولیات کی وزارت چھین کر دیہی ترقیات کی وزارت سونپ دی گئی، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ماحولیاتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کو منظوری دینے میں مزاحمت کی تھی،جس کی وجہ سے حکومت کو بے چینی محسوس ہورہی تھی لہٰذا ان سے یہ وزارت لے کر مزاحمت کے دروازے بند کردیے گئے ۔وزیر قانون ویرپا موئیلی کے قلمدان کی تبدیلی میں بھی سیاست کا ہی اثر دکھائی دیتا ہے،کیوںکہ لوک پال بل کے معاملے سمیت کئی امور پر دیگر وزارتوں کے ساتھ ان کی نہیں بن رہی تھی۔حکومت یہ چاہتی تھی کہ سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہو اور لوک پال بل میں وہی نکات شامل ہوں جو کانگریس کے لیے بارآور ہوں،ظاہر ہے موئیلی کے اختلاف کی وجہ سے کانگریس کے لیے پریشانیاں پیدا ہورہی تھیں لہٰذا ان سے وزارت قانون لے کر ان پریشانیوں کا سد باب کردیا گیا۔ گویا کابینہ کی نئی رد و بدل میں عوامی فائدے کم اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے عزائم زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ نیا ردو بدل کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے ہوا ہے یا عوامی و قومی فائدوں کے لیے۔

Wednesday 20 July 2011

پد یاترا: یو پی الیکشن کا ترپ کا پتہ


وسیم راشد
کانگریس کے شہزادے نے یوپی الیکشن میں مایاوتی سرکار کا تختہ پلٹنے کا پورا ارادہ کر لیا ہے اور اس کے لیے انہوں نے کسانوں کا ساتھ دینے کے علاوہ مایا وتی سرکار پر پوری طرح حملہ کردیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ اترپردیش کو دلدل میں لے جارہی ہیں۔علی گڑھ تک کی پد یاترا کے تیسرے دن راہل گاندھی نے گائوں کے لوگوں کو  ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی پوری یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے بار بار یہ بھی کہا کہ دلال اس ریاست کو چلا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی کی مایا وتی سرکار میں کئی خامیاں ہیں۔عصمت دری ، لوٹ مار اور افسروں کی من مانی کی خبروں سے لے کر کسانوں کی زمین کو کم قیمت پر لے کر بلڈروں کے ہاتھوں فروخت کرکے بڑی قیمت وصول کرنے جیسے واقعات  مایا وتی کی حکومت پر ایک بد نما داغ ہے اور ان کو عوام کے سامنے لانے کے لیے راہل گاندھی نے جو قدم اٹھایا ہے اور کسانوں کا ساتھ دینے اور ان کے حقوق واپس دلانے کے لیے پدیاترا کا  جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ اپنے آپ میں ایک اچھا قدم ہے،لیکن اس وقت ہمارے ذہن میں بار بار ایک محاورہ آرہا ہے کہ راہل جی کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آرہا ہے مگر اپنی شہتیر نظر نہیں آتی ہے۔یو پی سرکار کو انہوں نے ایک دلال سے تعبیر کیا ہے۔میں یوپی سرکار کے دفاع میں کچھ کہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس وقت میرا یہ موضوع ہے،لیکن جو بات میرے ذہن میں بار بار آتی ہے ،یہ ہے کہ یوپی سرکار کو دلال کہنے سے پہلے انہیںایک مرتبہ مرکز میں اپنی سرکارکی کارکردگی پر نظر ڈال لینی چاہیے جو بد عنوانیوں کے متعدد الزامات سے گھری ہوئی ہے۔2 جی اسپیکٹرم کا معاملہ ہو یا دولت مشترکہ کھیلوں میں گھوٹالے کا الزام ، آدرش گھوٹالے ہوں یا پھر پی ایف میں ہیرا پھیری۔غرض یہ وہ الزامات ہیں جو راست کانگریس سرکار پر عائد ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاملات اتنے سنگین ہیں کہ اس کا جواب دینا کانگریس کے لیے بھاری پڑ رہا ہے، ایسے میں وہ اس پد یاترا کے موقع پر یوپی سرکار کو دلال کہہ کر عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ ان الزامات کی وجہ سے عوام میں کانگریس کی جو شبیہ بگڑی ہے اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں،کیا وہ اپنی اس مہم کو آنے والے الیکشن میں کیش کرانا چاہتے ہیں؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ، چونکہ بہار میں گزشتہ الیکشن کے موقع پر اپنی انتھک کوششوں کی وجہ سے انہیں زبردست کامیابی کی امید تھی، مگر انہیں صرف مایوسی ہاتھ لگی اور نتیش کمار کی پالیسی نے انہیں بہار کی زمین پر قدم جمانے کا موقع نہیں دیا، اب وہ یوپی میں اپنی سیاسی طاقت دکھا کر بہار کی خفت مٹانا چاہتے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صوبہ یوپی جس کا مرکز میں حکومت بنانے اور بگاڑنے میں بڑا کردار ہوتا ہے  اوریہ یہاں سیاسی قدم جمانااسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مایا وتی کی مضبوط سیاسی دیوار میں نقب لگائی جائے۔اس کام کے لیے انہیں کسی موقع کی تلاش تھی اور اب جبکہ کسانوں کی زمین کا معاملہ ان کے ہاتھ لگا ہے تو وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے اور اس کا فائدہ اٹھا کر مایا وتی کے خلاف ماحول بنا کر اپنے لیے زمین ہموار کررہے ہیں،جیسا کہ اس طرح کے اشارے مختلف پارٹی کے لیڈران بھی دے چکے ہیں۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر شاہ نواز حسین نے راہل گاندھی کی اس پد یاترا کو ’’ کانگریس کا ایک منصوبہ بند پروگرام ‘‘ کہاہے۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈر شیوپال سنگھ یادو نے  کہا کہ ’’ راہل کی پد یاترا ایک ڈرامہ ہے، وہ گائوں والوں کے ساتھ کھانا کھاکر ان غریبوں کو کیا دے سکیں گے‘‘۔ اس سلسلے میں اوما بھارتی نے راہل گاندھی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جس طرح بھٹہ پارسول میں جاکر کسانوں کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں، اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر میں جاکر ان کسانوں کے بارے میں باتیں کرتے اور لینڈ ایکوائرمنٹ کے تعلق سے کسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی فیصلہ کرواتے۔ بی کے یو کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’جو دہلی  کے اے سی روم میں بیٹھنے کے عادی ہوں وہ کسانوں کے لیے کیا لڑائی لڑ سکیں گے، راہل پہلے کھیتوں میں کام کرنا سیکھیں پھر کسانوںکے حقوق کی باتیں کریں‘‘۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ راہل کی پد یاترا کے پس پردہ کسانوں کے لیے ہمدردی ہوسکتی ہے ،اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی مسئلے کا حل یا ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے پد یاترا کی نمائش ضروری ہے؟ کیا عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ کسانوں اور عوام کے ہمدرد ہیں، گائوں گائوں جاکر میٹنگیں کرنا ،جس سے ریاستی حکومت کے لیے سیکورٹی کے مسائل کھڑے ہوں، ضروری ہے؟ یہ سچ ہے کہ پد یاترا کی اپنی ایک اہمیت ہے اور پد یاترائوں کے ذریعہ حکومت کی توجہ حساس مسائل کی طرف مبذول کرانے کی روایت رہی ہے اور اس کے فوائد بھی دیکھنے کوملے ہیں ۔چنانچہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے 1983 میں کنیا کماری سے باپو سمادھی، راج گھاٹ تک کی پد یاترا کی تھی۔ ان کی یہ پد یاترا عوام میں اپنی ساکھ بنانے اور اندرا گاندھی حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے تھی۔ انہوں نے اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی ۔اسی طرح 1987 میں سنیل دت نے اپنی بیٹی پریہ دت کے ساتھ عوام میں خود کو متعارف کرانے کے لیے پدیاترا کی۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ 1989 کے انتخاب میں انہیں کامیابی ملی۔ 2003 میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے آندھرا پردیش کی صورت حال میں سیاسی تبدیلی کے لیے ایک پد یاترا کی۔اس کا فائدہ انہیں 2004 میںریاست میں ہونے والے انتخاب میں ملا اور انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ فروری 2011 میں سابق کانگریس ایم پی جگموہن ریڈی نے ایک پد یاترا پولوارام ایریگیشن پروجیکٹ کی حمایت میں کی۔اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد لیڈروں نے پد یاترا کے ذریعہ عوامی رجحان کو اپنے حق میں کرنے، اور حکومت وقت کی کوتاہیوں کو منظر عام پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پد یاترا ہی ایک ایسا راستہ رہ گیا ہے جس کے ذریعہ ایک لیڈر بہترین لیڈر مانا جائے، یا اس لیڈر کو عوام دوست سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی جن کو ایک کامیاب وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا،نے کبھی کوئی پد یاترا نہیںکی اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کسی ریاست میں اس طرح کی مہم چلائی۔اس کے باوجود انہیں ایک اچھا لیڈر، عوام کا ہمدرد اور دلوں پر راج کرنے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
بہر کیف، ایک ایسے وقت میں جب کہ مہنگائی ایک قومی مسئلہ بنی ہوئی ہے،بدعنوانی کی وجہ سے عوام بے حال ہے ،ایسے میں راہل گاندھی کا یوپی ریاست میں کسانوں کے لیے پدیاترا کرنا واضح کرتا ہے کہ وہ یوپی میں کانگریس کے لیے میدان بنا رہے ہیں ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ریاستی سرکار کی کوتاہیوں کو اجاگر کیا جائے، مرکزی سرکار کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی جائے،مگر ایسا لگ رہا ہے کہ شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ عوام ان کی اس ہنگامی پد یاترا کو سمجھنے لگے ہیں اور یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس پد یاترا میں کسانوں اور عوام کی ہمدردی کم اور ووٹ بینک کی سیاست زیادہ نظر آرہی ہے۔اسی لیے وہ جہاں بھی جاتے ہیں یوپی سرکار کو اپنے نشانے پر ضرور لیتے ہیں۔بہرکیف، اس پدیاترا سے  وہ چاہے مایا سرکار کا تختہ پلٹنے میں کامیاب ہوں یا نہیں لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ لڈو ٹوٹے گا تو تھوڑا تو جھڑے گا ہی۔ وہ اپنی اس پد یاترا کے طفیل میں کچھ نہ کچھ سیاسی فائدہ حاصل کر ہی لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پد یاترا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ گائوں کے لوگوں کا من موہ لینا چاہتے ہیں۔لیکن وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Saturday 2 July 2011

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

وسیم راشد
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا…جو چیرا تو ایک قطرئہ خوں نہ نکلا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ایڈیٹرز سے بند کمرے میں ہوئی ملاقات کے بعد نہ جانے بار بار یہ شعر کیوں ذہن میں آرہا ہے۔ اس قدر ہنگامہ تھا کہ وزیر اعظم ایڈیٹرز سے ملنے والے ہیں، فلاں وقت طے ہوا ہے،5 اخبار کے ایڈیٹرز ہیں۔ لیکن جب ان 5 اہم ایڈیٹرز کے نام سامنے آئے تو پھر یہ کہاوت یاد آئی کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں، اپنے اپنوں کو دے ۔ بھئی اخبار ان کے اپنے ،ایڈیٹرز ان کے اپنے، سوالات ان کے اپنے، مطلب کے جوابات ان کے اپنے ،تو پھر کیسی کانفرنس ، اس میں عوام کہاں ہیں، عوام کے دکھ درد کہاں ہیں؟بند کمرے میں چلنے والی اس کانفرنس سے یہ 5 مدیران باہر آتے ہیں تو صرف اور صرف وزیر اعظم جی کی زبان بولتے ہیں۔ ان کے Spokes person  بن کر باہر نکلتے ہیں۔ 100 منٹ کی اس آپسی بات چیت میں باتیں تو بہت سی ہوئیں، سوالات بھی ہوئے، مگر کیا حل نکلا ، کچھ نہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ چاہے کمپٹرولر ہو، آڈیٹر جنرل ہو یا پارلیمانی کمیٹی ،شواہد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں تو CAG کی رپورٹ جس طرح شواہدات کے ساتھ سامنے آئی، اس میں کیا کر لیا گیا۔ CWG کے تمام گھوٹالے شواہد ات کے ساتھ ہی منظر عام پر آئے ،اس کے کتنے ممبروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔
وزیر اعظم سے جب پڑوسی ممالک کے بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے سری لنکا کی صورت حال پر بحث کی، بنگلہ دیش کی بات کی، لیکن پاکستان کے مسئلے پر سنجیدہ موقف اپنانے پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا۔ جب بابا رام دیو پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنا وہی رٹا رٹایا جملہ دہرادیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مگر ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وزیر اعظم کے سونے کا انتظار کیا گیا ۔ جب وہ سونے چلے گئے تو پولس کو کاروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر اس وقت کیا کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس کے نتائج کتنے برے ہو سکتے ہیں۔ اگر بابا رام دیو بھیڑ کو بھڑکانے میں کامیاب ہوجاتے اور اپنی گرفتاری دے دیتے تو شاید آج حالات ہی دوسرے ہوتے ، شاید وہ مار اکاٹی ہوتی جس کے نتائج بڑے بھیانک ہوتے، مگر وہ تو رام دیو کو اس وقت کچھ سوجھا ہی نہیں ، اسی لیے پولس ان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر اعظم کے یہ 5 نمائندے کہتے ہیں، وہ نہایت سکون اور اطمینان سے جواب دے رہے تھے۔ ان کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی، تو کیا یہ سبھی حقیقتاً وزیر اعظم کے ہی ترجمان بن کر کمرے سے باہر نکلے تھے۔کیا وزیر اعظم نے مہنگائی کے مسئلہ پر کوئی مثبت رائے دی۔ جب ان کی پارٹی  بر سر اقتدار آئی تھی تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،مگر وہ کتنا اپنا وعدہ نبھا پائے، یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں۔
اب وہ کہتے ہیں کہ 2012  میں مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،پھر وہ اسی طرح کے وعدے باربار کر چکے ہیں۔اس وقت مہنگائی سے غریب عوام بے حال ہے ۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اگر اس وقت سبزیوں کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو
ٹماٹر        17 سے 50 روپے کلو
بھنڈی        7 سے 30 روپے کلو
گھیا        5 سے 15 روپے کلو
توری        20سے 60 روپے کلو
کالی توری        9 سے 25 روپے کلو
کریلا        10 سے 35 روپے کلو
آلو         5 سے 15 روپے کلو
پیاز        12 سے 20 روپے کلو
گوبھی         15 سے 35 روپے کلو
شملہ مرچ        20 سے 55 روپے کلو
یعنی چار گنا قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ  Lame Duck نہیں ہیں ۔کیوں اس گھٹیا استعارہ کی وضاحت کرنے کی وزیر اعظم کو ضرورت پڑی۔ صرف اسی لیے کہ وہ ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ اب عوام کا ان پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے اور عوام حقیقتاً ان کو کٹھ پتلی وزیر اعظم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس قدر مہنگائی، اتنے گھوٹالے،بدعنوانی، استحصال، کسانوں کی خود کشی، عورتوں پر ظلم وستم اور ان کی عصمت دری، آخر کیا ہورہا ہے اس ملک میں؟کیسے چل رہاہے یہ ملک؟ اور اگر وزیر اعظم کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے تو یقینا وہ  Lame Duck  کہے جائیں گے۔ خود وزیر اعظم ماہر معاشیات ہیں ۔ تیل کے دام ہر دو مہینے بعد بڑھ جاتے ہیں ، پٹرول ڈیزل عام آدمی کے لیے سونے چاندی کے مول جیسا ہے۔ وزیر اعظم کو تو اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ کم سے کم عوام کے نمائندوں یا میڈیا یا مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے میٹنگ ہی کر لیں، جو ان کو کچھ تو دکھ درد کا اندازہ ہو۔ عام طور پر ان کی شبیہ الگ تھلگ رہنے والے وزیر اعظم کی بن کر ابھری ہے اور ظاہر ہے پارٹی یا حکومت کے اہم فیصلوں میں ان کا رول بھی زیادہ نہیں ہے۔شاید یہی وجہ رہی ہو کہ اس وقت انہوں نے اپنی بات رکھنے کے لیے اعتماد کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی ہو۔ہاں ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے کہ آنے والے پارلیمنٹ سیشن میں جو پہلی اگست سے شروع ہونے والی ہے، اپوزیشن پارٹی بدعنوانی کا ایشو زور و شور سے اٹھانے کا ارادہ کر چکی ہے۔ ایسے ہی ایک طرف عوام کے ساتھ کمیونی کیشن گیپ اور دوسری طرف حزب مخالف کا یہ ارادہ یقینا کانگریس پارٹی کے لیے مشکلیں پیدا کر سکتا ہے۔شاید اپنی اس امیج کو بچانے کے لیے وزیر اعظم نے اس میٹنگ کا اہتمام کیا ہو، ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ دوری ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم ہر ہفتے سینئر صحافیوں کے ساتھ میٹنگ کریں گے اور اب جو بھی ہو ،یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ سال کانگریس کے لیے پریشانیوں اور مصیبتوں کا سال گزرا ہے، گھوٹالے اور وہ بھی ایسے کہ رقم گنتے گنتے بھول جائیں اور صفر لگاتے لگاتے تھک جائیں۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عوام امید کرتے ہیں کہ ان کے سینئر لیڈر عوام کے رابطے میں رہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اکثر چینل والے یہ پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم لوک پال بل کے تعلق سے کوئی واضح بیان کیوں نہیں دے رہے ، ہو سکتا ہے یہ سب قواعد اسی لیے کی جارہی ہو۔اب چدمبرم جی کو کون بتائے کہ عوام میٹنگ کرنے یا بار بار رابطے ہی میں آنے سے قریب نہیں ہوتے، ان غریبوں کے پیٹ کو روٹی چاہیے۔ ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا کوئی مل جائے تو یہ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کی نہیں پتا ،جو وزراء کام کر رہے ہیں ان کے بارے میں نہیں پتا،فنانس منسٹری میں BUG لگا دیا جاتا ہے ،ہوم منسٹری کو پتہ ہی نہیں کہ چیونگم لگا دیا گیا ہے اور پوری سیکورٹی Compromise ہو گئی ہے۔ بیان دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے  کے تعلق سے ( ان کا یہ جواب وہ بھی اپنا نہیں) میری کابینہ کے ساتھی کہتے ہیں کہ’’ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے سے عدم استحکام پیدا ہوگا جو بعض دفعہ قابو سے باہر ہو سکتا ہے‘‘۔ اب منموہن جی سے کوئی یہ کہے کہ سب کچھ دوسرے کہتے ہیں، آپ بھی کچھ کہیے۔ آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ ہاں ایک اہم بات جو وزیر اعظم نے کہی کہ کوئی بھی آدمی ہندوستان کے وزیر اعظم کو بڑی آسانی سے ہٹا سکتا ہے اس لیے لوک پال سے کیا فائدہ۔تو منموہن جی سے کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ آپ نے ان کو اس لائق چھوڑا ہی نہیں کہ یہ بھوک سے نڈھال غریبی کی چکی میں پس رہے عوام کو آپ نے روزی روٹی میں ایسا الجھا دیا ہے کہ یہ آپ کو ہٹانے کے متعلق تو کیا سوچیں گے ، جواپنی بیماری، بھوک مری سے نجات نہیں پا سکتے۔
وزیر اعظم اگر اسی کمیونی کیشن گیپ کو ختم کرنا چاہتے ہی ہیں تو انہیں عوام کا دل پہلے جیتنا ہوگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بقول ’’ دی ہندو‘‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ وزدھاراجن  کہ عوام وزیر اعظم سے لوک پال بل جیسے ایشو اور بد عنوانی کے تعلق سے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔ہندوستان ٹائمس کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما کہتے ہیں کہ حکومت بد عنوانی کے الزام میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور تمام الزامات آپسی بات چیت سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم کی یہ میٹنگ ایک اسٹیج شو کے سوا کچھ بھی نہیں۔مخصوص صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرنا میٹنگ کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔ان تمام بیانات میں امیج  کنسلٹینٹ دلیپ چیرین کا بیان زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس وقت حکومت کو اپنی امیج بنانے کے بجائے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔انہیں مہنگائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت کانگریس پارٹی جو بھی کر رہی ہے صرف اور صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے کر رہی ہے۔اگر وزیر اعظم کو اپنی ساکھ بچانی ہے تو انہیں عوام  کے دل میں گھر بنانا ہوگا۔ ورنہ تو ہر ہفتے کیا ہر دن میٹنگ کر لیجئے ،مہنگائی غریبی ، بھوک مری، بے روزگاری، بد عنوانی، کرپشن، استحصال، ان سب کا خاتمہ نہیں ہو ا تو کانگریس کا خاتمہ لازمی ہے۔

Friday 1 July 2011

یہ حکومت غریبوں کے لئے نہیں امیروں کے لئے ہے؟

وسیم راشد
یہ میرے سامنے بڑی ہی خوبصورت سی تصویر ہے ہندوستانی خارجہ سکریٹری نروپما رائو اور پاکستان کے خارجہ سکریٹری سلمان بشیر کی۔ دونوں ہی بڑے پرجوش انداز میں اسلام آباد میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔مگر کیا یہ دل ملانے کا کام بھی کر پائیں گے۔ بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ نروپما جی اسلام آباد با قاعدہ پوراوفد لے کر گئی ہیں جس میں ہندوستان سے نہ صرف پاکستان کے سفیر بلکہ یہاں کے صحافی اور بڑے بڑے افسران شامل ہیں ۔ نروپما رائو نے کہا کہ وہ امن و سلامتی کے موضوع پر بات کرنے جارہی ہیں اور انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ان مذاکرات میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعمیری سوچ کے ساتھ شریک ہوں گی۔
اور اب اسی خوشی فہمی والی میٹنگ کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں دوسری ایک اور بڑی خبر کی طرف، جس میں ہندوستانی قیدیوں کو صومالیائی بحری قزاقوں کے ہاتھوں مسلسل 10 ماہ تک قیدی رہنے اور اذیتیں دینے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔اور اس رہائی کا سہرا جاتا ہے حقوق انسانی کے پاکستانی ممبر انصار برنی کے سرجنہوں نے باربار ان بحری قزاقوں سے مذاکرات کرکے ان تمام بد نصیبوں کو گھر اور بیوی بچوں کی شکل دکھلائی ہے۔اگر ان تمام دل خراش اور اعصاب شکن واقعہ کا جائزہ لیں تو بات لمبی تو ہوجائے گی مگر تمام تر واقعات کیسے کیسے ہوئے ، اس کا علم ضرور ہوجائے گااور پوری کہانی کا بھی ،کیونکہ ابھی تک کسی کو بھی اس پورے قصے کا علم نہیں ہے۔
26 جولائی 2010 کو 22 افراد پر مشتمل عملہ کراچی سے بحری جہاز ایم وی سوئزمیں افریقہ کے لیے روانہ ہوتا ہے۔2 اگست 2010 کو بحری قزاق ان پر حملہ کرکے ان سبھی کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ان کی رہائی کے لیے جہاز کے مالک سے ایک سو ملین ڈالر کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے اس جہاز کے مصری مالک عبد المجید مطار اور قزاقوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور صومالی قزاق ان سبھی کو تشد د کا نشانہ بنانا شروع کریتے ہیں۔ تبھی انصار برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، انصار برنی صاحب اس کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اور 27 فروری 2011 کو ان سبھی لٹیروں سے ٹیلی فون سے رابطہ کرتے ہیں ، مگر جب انصار برنی ان قزاقوں کو بتاتے ہیں کہ چاروں پاکستانی اور ہندوستانی سب غریب گھروں سے ہیں تو قزاق اس رقم کو پانچ ملین کر دیتے ہیں ۔اسی دوران جہاز کے کپتان وصی احمد، انصار برنی کو اس تشدد کے بارے میں بھی اطلاع دیتے ہیں جو سبھی یرغمالیوں پربار بار کیا جارہا تھا۔11 مارچ کو قزاقوں نے رقم 23 لاکھ امریکی ڈالر ز کردی، مگر ساتھ ساتھ خبردار بھی کردیا کہ اگر پانچ روز کے اندر اندر یہ رقم ادا نہیں کی گئی تو جہاز پر موجود لوگوں کو قتل کردیا جائے گا۔انصار برنی نے اسی دوران اسلام آباد میں مصر کے سفیر سے رابطہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ جہاز پر مصر، ہندوستان، سری لنکا اور پاکستان کے شہری  ہیں۔ اگر ان ممالک کی حکومتوں نے تعاون نہیں دیا تو حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔مگر نہ ہندوستان کی حکومت پر کوئی اثر ہوا نہ ہی مصر سے کوئی تعاون ملا۔ آخر کار انصار برنی 21 اپریل 2011 کو رقم کا انتظام کرنے ہندوستان آئے،جہاں انہوں نے ان مغویہ حضرات کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اسی دوران ایک ہندوستانی رکن پارلیمنٹ کے ڈی سنگھ نے تاوان کی بھاری رقم کا ایک حصہ دینے کا وعدہ کیا۔لیکن عین موقع پر وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور 6 لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان کرنے کے بعد ٹال مٹول کرنے لگے۔23 مئی 2011 کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی اور ان قزاقوں نے ایک مصری مغوی پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی ، جس سے وہ پوری طرح جھلس گیا ۔ انہوں نے سبھی پر تشدد کی انتہا کردی اور پینے کا پانی تک بند کردیا۔ انصار برنی کی اپیل پر ایک مرتبہ پھر 11 جون تک ڈیڈلائن بڑھادی گئی اور 10 جون کو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مقررہ وقت تک انہیں رقم نہیں ملی تو وہ مصری چیف انجینئر ویل صالح محمد کو گولی مار کر قتل کردیں گے۔ادھر انصار برنی ٹرسٹ نے اکیس لاکھ امریکی ڈالرز کی امداد جمع کرکے رقم شپنگ کمپنی کے ذریعہ مصر کی حکومت کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ میں جمع کرادی اور مصر میں ایک پرائیوٹ کمپنی کا ایک جیٹ طیارہ بھی تیس ہزار ڈالر روزانہ اجرت پر لیا گیا، اور 13 جون2011 کو صومالی قزاقوں نے تمام یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ اس طرح 23 جون کو سبھی لوگ کراچی پہنچ گئے۔
اب آتے ہیں اس تلخ حقیقت کی طرف کہ یہ ہندوستانی قیدی جن میں دو ہریانہ کے، ایک ہماچل پردیش ، ایک تمل ناڈو اور ایک جموں و کشمیر کے اور ایک ممبئی کے تھے۔ ان سب کو 2.1 ملین ڈالر کے عوض رہائی ملی۔ سبھی لوگ24 جون کی صبح 9:36 پر اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر پہنچے۔ جس وقت یہ سبھی طیارے سے باہر نکلے وہ منظر دیکھنے کے لائق تھا، سبھی رشتے داروں کی آنکھوں میں بچھڑنے کا کرب اور ملنے کی خوشی قابل دید تھی۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن کو وہ اٹھائے ہوئے بے صبری سے اپنے والد یا رشتہ دار کا انتظار کر رہے تھے۔سب کی زبان پر ایک ہی نام انصار برنی ، انصار برنی۔ وہ اپنے اسی محسن کا بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے، دعائیں دے رہے تھے۔
یقینا ان قیدیوں کی رہائی باعث مسرت اور انصار برنی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اسی رہائی کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے رشتے داروں کو مبارکباد دی۔مگر کیا ایس ایم کرشنا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خوشی کا اظہار کریں۔ ان 6 ہندوستانیوں کے لیے ہماری حکومت نے کیا کوششیں کیں، کیا حکومت کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خود حکومت کو انصار برنی سے رابطہ کرکے ان کی مدد کی خواہش نہیں ظاہر کرنی چاہیے تھی؟
آپ کے ملک کے لوگ ،6 اہم قیمتی جانیں ،کیا ان کا اسی لیے کوئی مول نہیں تھا کہ وہ غریب لوگ تھے ۔اگر کوئی وزیر کا بیٹا ہوتا ، کارپوریٹ ورلڈ سے کوئی اہم شخص ہوتا، کوئی بڑا آئی اے ایس افسر ہوتا، کوئی بڑا تاجر ہوتا یہاں تک کہ کوئی بڑا نامی گرامی غنڈہ بھی، تو شاید حکومت حرکت میں آتی اور ان کو چھڑانے کے لیے دن رات ایک کر دیتی، مگر یہ قیدی بنائے جانے والے مزدور تھے۔ آج ایک پاکستانی پر پورا ہندوستان فخر کر رہا ہے ، ان بچوں کی آنکھیں انصار برنی کی شکر گزار ہیں۔ان کی بیویاں دونوں ہاتھ اٹھائے انصار برنی کو دعائیں دے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ دعا والے ہاتھ ہیں تو دوسری طرف نروپما رائو اور سلمان بشیر کے ہاتھ ہیں ۔کتنا فرق ہے دونوں ہاتھوں کے ملنے میں۔ حکومت کا رویہ اسی بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ملک کی حکومت صرف اور صرف امیروں اور ڈپلومیٹس کی جان کی حفاظت کی پرواہ کرتی ہے۔ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے عام آدمی کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ اربوں ،کھربوں روپے سوئس بینک میں جمع ہیں ، کروڑوں اربوں کا کھلواڑ کیا جارہا ہے اور غریبوں کی جان بچانے کے لیے حکومت کوڑی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں، ایسی ہی جمہوریت پر جب عوام سوالیہ نشان لگاتے ہیں تو ان ڈپلومیٹس کو کتنا برا لگتا ہے۔
جنہیں چھڑایا گیا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے، جنہوں نے چھڑایا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے ،مگر ان سب میں ایک رشتہ ایک جیسا تھا ، وہ انسانیت کا رشتہ تھا۔ مجھے یاد ہے دہشت گرد وں نے مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی کو اغوا کر لیا تھا اور اس وقت مفتی سعید چاہتے تو تاریخ رقم کر سکتے تھے اور رشتے ناطوں سے الگ ہٹ کر صرف اور صرف ملک کے فائدے کے لیے سوچ سکتے تھے۔ تاریخ بھی بڑا بننے کا موقع ہر ایک کو بار بار نہیں دیتی۔ اگر مفتی سعید ایسا کرلیتے تو آج تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا اور جو مسلمانوں کو بار بار اپنے وطن پرست ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے  وہ صرف ایک عمل سے دیا جاتااور ہر مسلمان ان پر فخر کرتا مگر انہوں نے وہ موقع کھو دیا۔ حکومت بھی چاہتی تو انصار برنی کی جگہ ایس ایم کرشنا کو یہ واہ واہی کا موقع دے سکتی تھی مگر جس کی قسمت پر یہ نام اور شہرت لکھی تھی اس نے کیا۔ آج ہم سبھی کو انصار برنی پر فخر ہے۔

Monday 27 June 2011

سارا پیسہ لیڈروں کی جیب میں۔۔تو عوام کا کیا ہوگا؟

وسیم راشد
عوامی جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک کے عوام حکومت وقت سے خوش ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے انھیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ کانگریس کا یوں تو نعرہ ہے ’کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ‘، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہری سے آپ جاکر پوچھ لیں کہ کیا وہ موجودہ حکومت سے خوش ہے، تو آپ کو شاید ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا، ’نہیں‘۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو ہر گلی کوچے میں ہر شخص یہ کہتا ہوا بھی نظر آ جائے گا کہ ’کانگریس کی حکومت جب جب آئی، کمر توڑ مہنگائی لائی‘۔ تعجب ہے کہ جس پارٹی کے اندر منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی اور مونٹیک سنگھ آہلو والیہ جیسے ماہر اقتصادیات ہوں وہ پارٹی مہنگائی پر قابو نہ کرسکے۔ بی جے پی کو لوگ بنیوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن کانگریس کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے۔ بدعنوانی کی بات کریں تو، کانگریس کی قیادت والی موجودہ یو پی اے حکومت نے ملک کے اندر گھوٹالوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حکومت کا ایک سابق وزیر اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے اور کتنے لیڈر ایسے ہیں جو جیل جانے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ انا ہزارے نے ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کی جب مہم چلائی اور بابا رام دیو نے جب ملک کے عوام کو ہندوستان کے قلب، دہلی میں لاکر جمع کردیا اور حکومت کو کھلی چنوتی دی، تو اقتدار کی چولیں ہل گئیں، ہر وزیر بغلیں جھانکنے لگا۔ آخر کانگریس بدعنوانی مخالف اس عوامی مہم سے اس قدر خائف کیوں ہے۔ اس کا خوف ہی اس کے گناہ کو ثابت کر رہا ہے۔ معاملہ چاہے دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران پیسوں میں کی گئی ہیرا پھیری کا ہو یا پھر سوئس بینک میں جمع کالے دھن کا، اگر کسی روز اس میں ملوث تمام افراد کے نام سامنے آئیں گے، تو اس میں گانگریس کے لیڈروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی کیوں کہ اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کانگریس نے ہی کی ہے۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز، اے او ہیوم نے ڈالی تھی، اور ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے تھے، لیکن انھوں نے یہاں کی بے پناہ دولت کو لوٹنے کے لیے ایوان اقتدار کو اپنے قابو میں کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہندوستان کی دولت انگریزوں کے ذریعہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی جانے لگی۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کانگریس کا یہی حال ہے۔ چہرے بدل چکے ہیں، لیکن نیت وہی ہے۔ دولت کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ لیڈر بن جائیں، اس کے بعد کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آپ کو جائز و ناجائز کسی بھی کام سے روک سکے۔ کانگریس کے اندر ایسے لیڈر ایک ڈھونڈنے سے ہزار ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے موڈ کو بھانپ کر یہ لوگ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر عوام کے اندر بیداری پیدا ہوگئی تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔کسی گاؤں دیہات کے چھوٹے موٹے لیڈر کے پاس اگر آپ یہ تجویز لے کر جائیں کہ فلاں جگہ اسکول کالج نہیں ہیں، بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے ان کے والدین کو پیسوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے، آپ برائے کرم یہاں پر کوئی اسکول یا کالج بنوادیں، تو آپ کو جواب فوراً نفی میں ملے گا۔ ہاں، البتہ وہ لیڈر آپ سے یہ ضرور کہے گا کہ بھلا پڑھ لکھ کر آپ کے بچے کیا کریں گے،ان کے کھیلنے کودنے کے لیے اسپورٹس کمپلیکس بنوا دیتا ہوں، کارخانے لگوا دیتا ہوں جہاں پر ان بچوں کو نوکریاں مل جائیں گی اور ان کی گزر بسر کا انتظام ہو جائے۔ کبھی آپ نے ایسے جواب کے پیچھے چھپے اسباب کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ لیڈر نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں، کیوں کہ تعلیم سے بیداری پیدا ہوتی ہے، اپنے حقوق کو لوگ پہچاننے لگتے ہیں، بڑے ہوکر یہی بچے جب ان لیڈروں سے ان کے گناہوں کا جواب طلب کریں گے تو ان کی مشکلیں بڑھ جائیں گی، اسی لیے وہ ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ملک کے اندر بنیادی تعلیم کا قانون پاس ہو چکا ہے، لیکن جب اسکول ہی نہیں رہیں گے تو پھر تعلیم کا کیا مطلب ہے۔ جو اسکول اور کالج موجود ہیں، ان میں اساتذہ کا ہی تقرر نہیں کیا جائے گا، تو پھر حق تعلیم کا قانون تو بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان کے لیے ارباب اقتدار میں نشستیں محفوظ کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پنچایتی نظام میں تو عورتوں کو پچاس فیصد ریزرویشن دیا بھی جا چکا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ خواتین پر ظلم و ستم کے سلسلے اب بھی جاری ہیں۔ یوپی میں مایاوتی کی سرکار ہے، لیکن وہاں آج بھی عورتوں کی عزت سر عام لوٹی جا رہی ہے اور بیچاری بہن جی کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی یوپی کے لکھیم پور کھیری ضلع کے نگھاسن تھانہ میں 14 سالہ نابالغ لڑکی کی پولس کے ذریعہ عصمت دری کرنے اور پھر اسے مار کر ایک درخت سے لٹکانے کا سنسنی خیز واقعہ سامنے آیا ہے، جو مایاوتی حکومت کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں، یہاں بھی آئے دن عورتوں کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور جب شیلا جی سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت میں عورتیں محفوظ نہیں ہیں، تو وہ لڑکیوں کو دیر رات گھر سے نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ایک طرف تو آپ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں اونچے مقام پر بٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور پھر دوسری طرف آپ ہی انہیں دیر رات گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں، یہ بھلا ممکن کیسے ہے۔ کال سنٹر میں لڑکیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے اور انہیں رات کے وقت ہی اپنے آفس جانا یا پھر آفس سے گھر آنا پڑتا ہے، یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انہیں پوری سیکورٹی فراہم کریں۔
کانگریس کی حکومت میں پولس کا رویہ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے ملک کا پولس نظام انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پولس کا صرف ایک کام تھا، معصوم ہندوستانیوں پر ظلم ڈھانا۔ لیکن آج جب انگریز نہیں ہیں تو پھر پولس کے اس فرسودہ نظام کو درست کیوں نہیں کیا جاتا۔ ملک کے دانشور طبقہ کی یہ رائے ہے کہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے زیادہ تر واقعات میں پولس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی علاقے میں لوٹ مار کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو اس میں ملوث شر پسند عناصر پولس کو پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔ لیکن اگر عام شہری پولس کے پاس چوری کے کسی واقعہ کی رپورٹ لکھوانے جائے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہیں کسی با رسوخ آدمی کا فون پولس کے پاس آ جائے تو پولس چوری کے سامان کو چوبیس گھنٹے میں برآمد کر لیتی ہے، آخر کیسے؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ چوروں اور غنڈوں کی طرف سے پولس کو چوری کے مال سے کمیشن مل جاتاہے، اس لیے وہ اکثر ایسے واقعات کے بعد خاموش ہو جاتی ہے۔ پولس اگر چاہے تو ملک کے کسی بھی حصہ میں پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ لیکن پولس کام اس لیے نہیں کرتی کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اگر پولس کے لوگ ایماندار ہوگئے تو پھر لیڈروں تک وصولی کا پیسہ کیسے پہنچے گا۔ اسی لیے کسی جرم کو ہوتا ہوا دیکھ کر بھی پولس آنکھیں موند لیتی ہے۔
ملک کا عام آدمی سرکار کے اس اندھے بہرے قانون سے کافی پریشان ہے، ملک میں قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں پر اس قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، اگر وہی بے ایمان ہو جائیں تو پھر کون کیا کر سکتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا پڑے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد ان لیڈروں کو جھولی پھیلاکر عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے اور ووٹ کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، لیکن یہی گداگر جب بڑا عہدہ پاجاتے ہیں تو پھر عوام کو اپنی بوٹوں تلے روندنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر ملک کے اندر کسی عوامی انقلاب کی ایسی آندھی چلے کہ کوئی لیڈر بچے ہی نہیں۔ یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے لیڈر اپنا محاسبہ خود کریں اور عوام کی نبض کو پہچانیں، ملک کے وفادار بنیں اور ایسی کوشش کریں کہ اس ملک میں ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو، وہ ہر طرح سے مضبوط بنیں تاکہ ان کے اوپر کوئی ظالم حکمراں نہ مسلط ہو سکے۔
انّا ہزارے اور بابا رام دیو کی تحریک اور اسے ملنے والی عوامی حمایت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف پورے ملک میں ایک چنگاری سلگنے لگی ہے، یہ کب ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرلے ، کسی کو نہیں معلوم۔ حکومت کی طرف سے حالانکہ اسے کچلنے کی پوری تیاری چل رہی ہے، لیکن یہ تحریک اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے اسے انقلاب کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اگر وہ چاہے تو تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہے، مسائل کے حل کے ذریعہ ہی عوام کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے۔ سرکاری نظام میں جہاں جہاں اور جو جو خامیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے۔ سرکار اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہم اپنے ملک کو جنت نشاں بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیسوں کی کمی نہیں ہے، نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے، کمی اگر ہے تو صرف صدق دلی کی، قوت ارادی کی، ملک کے تئیں وفاداری کی۔ اگر سرکار آج سے ہی ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے اور عوام کی خدمت کے فریضہ کو انجام دینا شروع کردے تو پھر ہم ایک سنہرے ہندوستان کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جب تعلیم کا بول بالا ہوگا، صاف و شفاف سرکاری نظام ہوگا تو چوری، ڈکیتی، عصمت دری اور اس جیسے زیادہ تر جرائم خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ ہندوستان عالمی پیمانے پر اپنا قائدانہ رول ادا کرے، لہٰذا ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے اندر کی کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا پڑے گا۔ وقت کی یہی آواز ہے، ہمارے لیڈران اس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہے۔

Monday 20 June 2011

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔

وسیم راشد
یہ ہمارا ملک ہندوستان ہے جہاں ہمارے آئین نے ہمیں ہر طرح کی آزادی دی ہے۔ جب ہم سنتے ہیں We the People of India تو ہم وطن عزیز کی محبت میں سر شار ہو کر خود کو ہر طرح سے محفوظ اور آزاد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کی آزادی ، مذہبی آزادی، بولنے کی آزادی یہ ہمارے وہ بنیادی حقوق ہیں جن پر ہمیں ناز ہے مگر جس طرح ایم ایف حسین کو جلاوطنی کی موت دیار غیر میں نصیب ہوئی اس سے لمحہ بھر کے لیے یہ احساس ہوا کہ کہیں یہ سب صرف آئین کے صفحات تک ہی تو محدود نہیں ہے۔ ایم ایف حسین دنیا ئے آرٹ و پینٹنگ کا شہنشاہ جس نے تقریباً 60سال تک دنیائے آرٹ کو ایسے ایسے نادر نمونے دیے کہ دنیا نے اس کو بے تاج بادشاہ تسلیم کر لیا۔دیار غیر میں اپنے وطن عزیز آنے کی خواہش میں سینہ میں ہزاروں طوفان چھپائے ، سینہ کے درد کی شکایت سے دنیا کو خیرباد کہہ گیا ۔ اس کا قصور کیا تھا ، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے فن میں ڈوب کر کچھ ایسی تصویریں بنا ڈالیں جس سے ایک طبقہ کے لوگ ان کی جان کے دشمن ہو گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ پینٹنگ حسین نے 1970میں بنائی تھی، اس پر ہنگامہ 31سال بعد ہوا اور ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی ملنے لگیں اور اس طرح کبھی قطر کبھی دبئی، کبھی ادھر کبھی ادھر اور پھر آخری منزل لندن ۔ وہ جب تک زندہ رہا اپنے فن کے ذریعہ دنیا بھر کے نادر نمونے اپنی تصویروں میں پیش کرتا رہا اور مرتے مرتے ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ زندہ دلی کیا ہوتی ہے۔ وہ جب ملک کے اندر رہا تب بھی اس نے اپنے قول و عمل سے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کا دل کسی اور ملک کے لیے دھڑکتا ہے، اور جب اس نے دیارِ غیر میں جاکر پناہ لی تب بھی اس نے اپنی حب الوطنی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کے لیے آہیں بھرتا تھا، ہندوستان واپس آنے کی آس لیے آخرکار وہ اس جہانی فانی کو ہی الوداع کہہ گیا۔ ایم ایف حسین نے اپنے اس لاجواب فن پر کبھی گھمنڈ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے فن کو زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی۔ اگر ایک سچے عاشق کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے کائنات کے ہر ذرے میں محبوب کا ہی عکس نظر آتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال مقبول فدا حسین کا تھا، جنہیں دنیا کی ہر چیز میں خوبصورتی دکھائی دیتی تھی۔ اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے وہ برش اور کینوس کے محتاج نہیں تھے بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ پتھر یا کوئلے سے بھی تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اپنے فن سے مصوری کو جاودانی بخش دی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ کسی بھی واقعہ پر مصوری کے ذریعہ اپنے رد عمل کا فوری اظہار کر دیتے تھے، اس کی پروا کیے بغیر کہ دیکھنے والے پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ عظیم شاعر وہی بن سکتا ہے جسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو کہ شعر سننے والے پر اس کا کیا اثر ہوگا، اگر اس نے لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال کرنا شروع کردیا تو کبھی اچھا شاعر نہیں بن سکتا، شاعری تو صرف اپنے جذبات و خیالات کو الفاظ میں پرونے کا نام ہے۔ مقبول فدا حسین نے یہ کرکے دکھا دیا۔ حسین نے کبھی اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ سب سے بڑے مصور ہیں، جیسا کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے اپنے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’ٹنوں من مٹی کے نیچے لیٹا ہوا بیدی اب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سب سے بڑا خالق وہ ہے یا خدا!‘۔ مقبول فدا حسین کو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑی کیوں کہ بقول اقبال ’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘۔ حسین صاحب کی پینٹنگ میں ان کاپورا احساس موجزن ہوا کرتا تھا، اسی لیے لوگ ان کی پینٹنگ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ دماغ میں کسی قسم کا غرور نہ پیدا ہو جائے، شاید اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایم ایف حسین نے کبھی اپنے پیر میں جوتے چپل نہیں پہنے۔ جہاں بھی جاتے ننگے پیر جاتے۔ یہی تھا ان کابڑپن، جس کی لوگ اب بھی داد دیتے ہیں۔
لیکن اپنی مصوری کے سفر میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تنازعہ کا شکار ہوگئے، ان کے برش نے کچھ لوگوں کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا، کسی کے مذہبی جذبے کو ٹھیس لگی اور پھر ایک طبقہ دیوانہ وار ان کے پیچھے پڑ گیا، ان کے ذریعہ بنائی گئی تصویروں کو نذر آتش کیا جانے لگا، انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ حالانکہ اسی مذہب کے ماننے والوں میں سے ایک طبقہ ہمیشہ ان کا دفاع بھی کرتا رہا اور یہ دلیل دیتا رہا کہ حسین صاحب نے اس قسم کی پینٹنگ بناکر کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے بلکہ ایسا تو صدیوں سے ہوتا آیا ہے، اس کی زندہ مثالیں آج بھی ہمیں مختلف مذہبی مقامات پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں، پھر اگر کسی پینٹر نے اسے اپنے طریقے سے کاغذ پر اتار دیا تو اس نے غلط کیا کیا۔ لیکن دیوانے مانے نہیں، پتھر پھینکتے رہے، آگ لگاتے رہے، حالانکہ ان کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، ان کی توڑ پھوڑ حسین صاحب کو خوفزدہ نہیں کر سکی، وہ اور بھی طاقت و توانائی کے ساتھ نمودار ہوئے اور مردہ تصویروں کو بولنے پر مجبور کرتے رہے۔ ان کی اس ہمت کو دیکھ کر ان کے دشمن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر یہ انسان کس مٹی کا بنا ہے۔ انھیں گردے کا کینسر تھا، لیکن انھوں نے اپنی رفتار و گفتار سے اس مرض کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اسپتال کے بستر پر پڑے ہوئے بھی وہ اپنے دوست سے یہ تقاضہ کرتے رہے کہ ’بھئی چائنیز ریسٹورنٹ‘ میں کب لے کر جا رہے ہو۔ اسے کہتے ہیں کہ زندہ دلی۔ انھوں نے خدا کی دی ہوئی انمول نعمت ’زندگی‘ کو پوری طرح جیا، اس کے ہر گوشہ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر میں مروں تو میرے ہاتھ میں برش ہو اور میں کوئی تصویر بنا رہا ہوں، ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کسی فوجی کی موت سرحد پر دشمنوں سے لڑتے لڑتے ہوجائے۔ یہ تھا جذبہ، جس نے ان کی تصویروں کو بولنے پر مجبور کردیا۔
آج ان کی موت پر صدر جمہوریہ ہند بھی افسردہ ہیں، محترم وزیر اعظم بھی اور وہ سبھی بڑے بڑے لوگ، بڑے سیاسی رہنما جنھوں نے ان کی جلاوطنی کے درد کو جیتے جی محسوس نہیں کیا۔ آج مرنے کے بعد نائب صدر حامد انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ان کی موت سے نہ صرف قوم بلکہ آرٹسٹ برادری کا زبردست نقصان ہوا ہے۔وہ ہندوستان کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ جی ہاں ہندوستان کی محبت تو ان کی رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے تھی، پر ہندوستان ان کو وہ محبت کیوں نہ دے سکا جس کے وہ مستحق تھے۔صرف اس لیے کہ ہندی دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنانے والا ایک مسلمان تھا۔کھجوراہو، اجنتا ایلورا میں جو ہندو دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ، وہ تو ہوئیں آرٹ کا نمونہ، ان کو دیکھنے کے لیے آپ پوری دنیا سے ٹورزم کا پیسہ سمیٹتے ہیں،  وہ آرٹ کا نادر نمونہ کہلاتی ہیں مگر حسین کے ذریعہ بنائی گئیں تصویریں آرٹ کے نام پر کلنک ہو گئیں یہ کیسا دوہرا معیار ہے۔ہمارے ملک میں پہلے جب یہ سنا اورکہا جاتا تھا کہ ہندوستان مردہ پرستوں کا ملک ہے۔یہاں مرنے کے بعد ہی تعظیم و تکریم ، انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے تو اتنی شدت سے کبھی اس بات کو نہ سوچا، نہ محسوس کیا مگر جب آج انہیں بھارت رتن دینے کی بات کہی جا رہی ہے تو یہ احساس دو چند ہو گیا ہے۔ ایم ایف حسین نے متعدد بار معافی مانگی، وہ مقدمات سے تنگ آ چکے تھے ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے ایم ایف حسین کی درخواست پر اور راج کوٹ بھوپال ، پندھار پور یعنی سبھی جگہ کے مقدمات کو دہلی منتقل کرنے کا آرڈر دیا تھا مگر پھر بھی مرتے مرتے فدا حسین ان مقدمات سے پیچھا نہ چھڑا سکے اور نہ ہی اپنی آخری خواہش کے مطابق ممبئی کا فالودہ کھاسکے۔جی ہاں، جب مرنے سے دو تین دن قبل شوبھا ڈے نے ان سے لندن کے اسپتال میں ملاقات کی تو انھوں نے اسپتال کا کھانا کھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا ۔ میں ممبئی کا فالودہ کھانا چاہتا ہوں۔ آج حسین کی موت پر ہم سب ہندوستانی نہ جانے کیوں اندر ہی اندر احساس جرم سے ہمکنار ہیں کہ ہم اپنے ملک کے بیش قیمت کوہِ نور کو واپس نہ لا سکے اور ایک کوہِ نور برطانیہ کی ملکہ کے تاج میں جڑ گیا۔ دوسرا وہیں کی مٹی میں دب کر خاک ہو گیا۔