Friday 27 May 2011

ممتا کی جیت میں مسلم ووٹوں کی حصہ داری

وسیم راشد
لیجئے 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج آچکے ہیں، اس سے پہلے کہ مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل اور عوامی رجحان پر بات کی جائے، سب سے پہلے مبارکباد دیتے ہیں الیکشن کمیشن کو اور اس میں صحیح معنوں میں اگر کوئی قابل مبارک باد ہے تو وہ ہیں چیف الیکشن کمشنر جناب ایس وائی قریشی صاحب۔ بہار کا انتخاب جس طرح پر سکون ہوا اور اس کے بعد 5 ریاستوں کے انتخابات جس طرح بغیر کسی بھی پریشانی اور دنگے فساد کے گزر گئے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ اب الیکشن کمیشن ہر ریاست میں وہاں کے عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات کراتی ہے۔ ان دنوں جب کہ سبھی اخبارات اور چینلز ریاستوں کے نتائج پر بحث و مباحثہ میں لگے ہوئے ہیں، ہماری نظر چیف الیکشن کمشنر کے اس بیان پر بھی گئی، جس میں انتخابات میں پیسوں کے بڑھتے اثر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ قریشی صاحب کے اس بیان کو بہت ہلکے میں نہیں لینا چاہیے کہ انتخابات کے دوران 70 کروڑ روپے قبضے میں لیے گئے، جن میں سے 60 کروڑ صرف تمل ناڈو سے برآمد کیے گئے ہیں۔ قریشی صاحب کے اس بیان میں وہ کڑوی سچائی پوشیدہ ہے، جس کے تحت سبھی پارٹیاں یہ پیسہ پروپیگنڈہ، جلسے جلوس، انتخابی انتظامات، چائے پانی اور ووٹ خریدنے تک کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اگر اسی طرح کی روک لوک سبھا انتخابات میں بھی لگا دی جائے تو یقینا صاف ستھرے انتخابات کی امید کی جاسکتی ہے۔ شروعات کہیں سے تو ہونی ہے۔
چلیے اب بات کرتے ہیں مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی جیت کی تو ممتا بنرجی کو یقینا عوام کا دل جیتنا آتا ہے۔ سوتی ساڑی، پیروں میں ہوائی چپل، معمولی شکل و صورت پر معصومیت لیے عوام کے درمیان گزرتے ہوئے ان کی پریشانیوں میں شامل ممتابنرجی وہ ہردل عزیز شخصیت ہیں، جن کی سادگی، محنت اور جد و جہد نے آج انہیں اتنی بڑی کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ ہم بنگال کے ایک اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے تو اس کی شہ سرخی پر نظر گئی جو اس طرح تھی’’غرور غارت ممتا لہر پر عوامی جذبات کی سونامی نے سرخوں کا صفایا کردیا‘‘ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ بائیں محاذ کی شکست میں ان کی وہ پالیسیاں شامل تھیں، جنہوں نے ان کو بنگال کے عوام سے دور کردیا اور یقینی طور پر اس میں تبدیلی کی لہر بھی اہم ہے، بلکہ خود سی پی آئی ایم کے سینئر قائدین نے مغربی بنگال کے نتائج پر ترنمول کانگریس کے انتخابی نعرے ’’تبدیلی‘‘ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور عوام کو تبدیلی کی ضرورت تھی، اسے بھی مانا ہے۔ سیتا رام یچوری کے بیان پر جائیں تو انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ وہاں پر جنتا میں پریورتن کی آشا رہی اس کا فائدہ ترنمول کو ملا ہے۔ پولٹ بیورو رکن برندا کرات نے بھی اس بات کو مانا ہے کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ برنداکرات نے ایک اچھے لیڈر کی طرح یہ بھی کہا کہ ہم پوری متانت کے ساتھ یہ نتائج قبول کرتے ہیں اور ہم ریاست میں ایک ذمہ دار اپوزیشن کا رول ادا کریںگے۔ برندا کرات کے اس بیان کی صداقت سے انکار نہیں کہ سی پی آی ایم کو 294 میں سے 63 سیٹوں پر ہی چاہے کامیابی ملی ہو، مگر ظاہر ہے وہ ریاست کی ایک ہی مضبوط اپوزیشن ہے۔ سی پی آئی ایم کو اپنی طاقت کو سمجھنا ہوگا اور پھر سے خود کو کھڑا کرنا ہوگا، اگر بی جے پی کی طرح وہ ناکام اپوزیشن ثابت ہوتی ہے تو پھر شاید آئندہ انتخابات میں اتنی سیٹیں بھی نہ مل پائیں۔ ہاں اس ضمن میں سومناتھ چٹرجی کا بیان بہت اہم ہے کہ سی پی آئی ایم عوام سے کٹ گئی ہے، یہی ہار کی اہم وجہ ہے۔ ہمارے خیال میں سومناتھ چٹرجی کے اس بیان میں بہت صداقت ہے۔ کمیونسٹ پارٹی سے ماضی میں لاتعداد غلطیاں ہوئی ہیں، جس کا الیکشن سے پہلے مناسب طریقے سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ ا س کے علاوہ بائیں محاذ کے پاس اس وقت قدآور لیڈرس نظر نہیں آتے اور جہاں تک ممتا بنرجی کا تعلق ہے، وہ عوام کے دل سے بہت قریب ہیں۔ 9 اگست 1997 کو گاندھی جی کے بت کے سامنے ترنمول کا یہ چھوٹا سا پودا اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ ممتابنرجی کی زندگی کی پہلی جیت 1989 کا لوک سبھا کا وہ الیکشن ہے، جس میں انہوں نے سومناتھ چٹرجی کو ہرا دیا تھا، وہ دن ہے اور آج کا دن بنگال کی اس شیرنی نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ممتا کی جو شبیہ مغربی بنگال میں ابھری وہ ایک سیدھی سادی، عوام کے دل سے قریب، عوام کے لیے کچھ بھی کرگزرنے والی لیڈر کی بن کر ابھری۔ ممتا کی آج کی جیت کو اس واقعہ سے بھی جوڑنا ہوگا، جب وہ 1993 میں ندیا ضلع کی عصمت دری کی شکار لڑکی کو لے کر رائٹرس بلڈنگ چلی گئیں، جہاں چیف منسٹر جیوتی باسو نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، تو وہ جیوتی باسو کے گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ 23 جولائی کو یہاں ہوئے ہنگامے اور پولس فائرنگ میں 13 نوجوان کانگریسی کارکن مارے گئے اور اس کو لے کر انہوں نے پوری ریاست میں احتجاج کیا۔ اب بھی ترنمول اس دن کو ہر سال شہید دوس کے روپ میں مناتی ہے۔ ممتا کو ظاہر ہے جیوتی باسو جیسے قابل اور سنجیدہ لیڈر کے دور میں چھوٹے چھوٹے ہی مسائل حل کرنے کو ملے، مگر عام آدمی کو یہ لگا کہ ایک یہی لیڈر ہے جو ان کے پکارنے پر ہوائی چپل میں کیچڑ سے لت پت گلیوں میں دوڑتی چلی آتی ہے۔ ممتا ان چھوٹے چھوٹے مسائل اور کاموں کی بدولت اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہیں۔ سنگور میں ٹاٹا کے نینو کار خانہ لگانے کے وقت ممتا کا رویہ اتنا سخت نہیں تھا پر انہیں لگا کہ بہت سارے کسان اپنی زمین نہیں دینا چاہتے اور سرکار انہیں معقول معاوضہ دیے بغیر ہی زمین ہڑپنا چاہتی ہے تو انہوں نے اپنا آندولن تیز کردیا، پھر نندی گرام کے کیمیکل ہب کے لیے زمین کو ہڑپنے کی خبر ملتے ہی جو عوامی اشتعال بھڑکا اور پولس فائرنگ ہوئی، اس کے خلاف ممتا کا آندولن پورے بنگال میں پھیل گیا۔ ممتا نے بنگال کے عوام کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ مرکزی سرکار میںرہتے ہوئے بھی وہ بنگال کے عوام کے ساتھ رہیں۔ ریلوے کی وزیر ہونے پر انہوں نے بنگال کے عوام تک کئی اسکیمیں پہنچائیں اور بنگال کو پورے ہندوستان سے جوڑ دیا۔ آج جو ان کی جیت ہوئی ہے، وہ 30 سال کی کڑی محنت کا نتیجہ ہے۔
اعداد و شمار دیکھیں تو صوبے میں اس بار ایک تو پہلی بار عوام نے نڈر اور بے خوف ہو کر ووٹ دیا۔ اگر پہلے فیز کی بات کریں تو 84.11 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ دوسرے فیز میں بھی 82 فیصد ، تیسرے میں 78.3 فیصد، چوتھے میں 83.68 فیصد، پانچویں میں 83 فیصد اور چھٹے میں 83.55 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہ اعداد و شمار کسی بھی ریاست کے بہترین ووٹنگ فیصد کو ظاہر کرتے ہیں اور اس فیصد میں بنگال کے مسلمانوں نے 99 فیصد ترنمول کانگریس کو ووٹ دیا۔ واضح طور پر دو حصوں میں بٹا ہواہے ہندو اکثریت والا مغربی بنگال اور مسلم اکثریت والا مشرقی بنگال ہم سبھی جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آبادی مسلم اکثریتی مشرقی بنگال پر مبنی ہے، لیکن بنگال کا جو حصہ اس وقت ہندوستان کے اندر ہے، اس میں بھی مسلمانوں کی کل آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 28 فیصدہے، جو تازہ مردم شماری کے بعد 30 فیصد ہوسکتی ہے۔ مسلمان اس وقت زیادہ تر مغربی بنگال کے مشرقی اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں، جس کی سرحد بنگلہ دیش سے منسلک ہے۔ کولکاتا سے جنوب مشرق اور شمال کے دور درازعلاقوں میں جو گھنی آبادی موجود ہے، اس میں مسلمانوں کی کل آبادی 40 فیصد ہے اور یہیں کے مسلمانوں کی مکمل حمایت کی وجہ سے آج ممتابنرجی کو اتنی واضح کامیابی ہاتھ لگی ہے۔ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں 1700 سے زیادہ امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی، جن میں سے 300 سے کچھ کم مسلم امیدوار تھے، سی پی ایم نے 40 سے کچھ زیادہ مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا۔ ترنمول نے 39 کو اور کانگریس نے 23 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔ جب کہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے کل 116 مسلم امیدوار کھڑے ہوئے اور 61 مسلمانوں نے بطور آزاد امیدوار اس انتخاب میں حصہ لیا۔ ترنمول کانگریس نے جس طرح مسلمانوں کو دل کھول کر ٹکٹ دیا۔ مسلمانوں نے بھی دل کھول کر ووٹ دیا اور اس طرح ایک بار پھر مسلم ووٹ کی طاقت نے ممتا کی آندھی میں تیز جھونکے کا کام کیا۔ آج ممتا اپنی جیت کو ماں، ماٹی اور مانش کی جیت کہہ رہی ہیں۔ خود اپنی نظموں میں انہوں نے ماں، ماٹی اور مانش کے لیے اپنی محبت اور ان کے دکھ تکلیف کو لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’وقت کی رفتار کے ساتھ تال ملا کر دھرتی آج تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، وقت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ تب وقت برباد نہ کر کے بنگال میں ایک ایسا طوفان آئے، جس کی تیز لہر میں ساری فضول چیزیں بہہ جائیں، ہر شعبہ میں ترقی نظر آئے اور بنگال کے لوگ فخر سے یہ کہہ سکیں کہ بنگال جو آج سوچتا ہے، اگلے دن ہندوستان وہی سوچتا ہے۔‘‘
آج وہ دن آگیا ہے جب ممتا کی آندھی نے پورے بنگال کو لپیٹ لیا ہے۔ امید اچھی رکھنی چاہیے ہوسکتا ہے یہ لہر سچ میں بنگال کو ماں جیسی ممتا کے سائے میں ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرسکے۔

Friday 20 May 2011

!خدا کرے اسامہ کی موت دہشت گردی کی موت ہو

وسیم راشد
اف  کس قدر ہنگامہ خیز گزرے ہیں گزشتہ 15 دن۔ اسامہ بن لادن کی موت اور اس کے بعد میڈیا کی چاندی اور ہر اخبار کے لیے بحث کا گرما گرم موضوع اسامہ کی موت کے بعد بے شمار کہانیاں سامنے آئیں اور جس میں خود امریکی پریس کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آئے،جس میں کبھی کہا گیا کہ وہ نہتا تھا، کبھی کہا گیا کہ اس کے پاس ہتھیار تھے، کبھی کہا گیا کہ اس نے اپنی دفاع میں اپنی بیوی کو آگے کرلیا، کبھی یہ کہ بیوی اس کو بچانے کے لیے آگے آئی اور اس کے پیروں میں گولی ماری۔ لاتعداد بیانات کے ساتھ ساتھ حقائق بھی سامنے آتے گئے، وہ حقائق جو امریکہ پیش کر رہاتھا، جس میں پاکستان کو لے کر بھی لعن طعن کی جارہی تھی اور پاکستان کی طرف سے بھی متضاد بیانات کا سلسلہ جاری تھا اور ابھی تک ہے۔لیکن ان کا جو کام ہے، وہ اہل سیاست جانیں۔ بڑی بڑی بحث میں الجھنا اور الجھانا ہمارا شیوہ نہیں۔ ہم نام و نمود کے لیے نہیں لکھتے، ہمارا موقف صحیح اور حقیقت پسندی کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ سطحی جذباتیت سے تو بہت کھیلا جاتا رہا اور آج بھی مسلمانوں کو خوب بیوقوف بنایا جارہا ہے، مگر چند سوالات اسامہ کی موت سے ایسے پیدا ہوگئے ہیں، جن کو ہم بے وقوف مسلمان بھی خوب سمجھتے ہیں۔ پہلا سوال تو ایک معصوم بچی نے اگلے دن ہی کردیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کسی کے ملک میں آجائیں اور اس ملک کو پتہ ہی نہیں چلے؟ مگر اس کا جواب بھی بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا کہ اس پورے آپریشن میں اس طرح کے ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے، جو راڈار میں نہیں آتے؟ دوسرا سوال کہ اتنا بڑا آپریشن ہوجائے اور آس پاس کو بھنک تک نہ پڑے۔ امریکہ بتائے دنیا کو کہ اسامہ مارا گیا ہے۔
امریکہ اسامہ کو مار کر اس کی لاش لے کر واپس بھی چلا جاتا ہے اور پورا پاکستان سوتا رہتا ہے، نہ جانے کیوں یہ بھی ہضم نہیں ہورہا۔ تیسرا سوال کہ اسامہ کو رات کو مارا گیا اور صبح 11 بجے ہندوستان کے وقت کے مطابق یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی، مگر دن کے 2 بجے تک یہ بھی بیان آگیا کہ اسامہ کی لاش سمندر میں دفنا دی گئی؟ اتنی جلدی جلدی یہ سب ہوا کہ اب سوچنے بیٹھو تو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ پہلی بات تو سمندر میں دفنا دینا بہت ہی عجیب و غریب تصور ہے۔ ظاہر ہے سمندر کی تہہ میں جا کر زمین کو پاتال تک ڈھونڈ کر تو اسامہ کو دفن نہیں کیا گیا ہوگا اور اگر اسے سمندر میں پھینکا بھی گیا ہے تو امریکہ ان تصویروں کو سب کے سامنے کیوں نہیں لارہا۔ اس کو دفنانے سے شرپیدا ہونے کا خدشہ تھا، مگر اس کو بغیرغسل کے، بغیر کفن کے سمندر میں پھینکنے سے کیا اوباما حکومت ان سوالوں سے بچ جائے گی، جو اس وقت مسلم ممالک کھڑے کر رہے ہیں۔ امریکہ کا یہ کہنا کہ اسامہ کی لاش کی تصویریں جاری اس لیے نہیں کی جارہی کہ وہ کافی لرزہ خیز ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جے کیسی کے بیان پر اگر غور کریں کہ اسامہ کو ہلاک کرنے کے فوراً بعد کی تصویر رونگٹے کھڑی کرنے والی ہے، لیکن کیا تصویریں نہ دکھانے سے امریکہ کے اس آپریشن پر سوالیہ نشان نہیں لگ جائے گا؟ جو لوگ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 40 منٹ میں سب کچھ ہوجائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، وہ یہ بھی نہیں مانیںگے کہ اسامہ کا مرنا سچ ہے۔ اب ڈی این اے رپورٹ اور چہرہ پہچاننے والا سافٹ ویئر ایک عام آدمی کی پہنچ میں تو ہے نہیں تو پھر کیسے یقین آئے گا ایک عام انسان کو۔ امریکہ میں ہی تصویریں جاری کرنے کے لیے کچھ لوگوں کی زبردست مانگ ہے۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ ڈائنا فین اسٹین نے بھی یہ مانا ہے کہ فوٹو ضرور جاری کرنا چاہیے۔ آپ صرف ایک بات بتائیے کہ اگر ہمارے گھر میں خدانخواستہ کوئی رشتے دار یا کسی قریبی کی موت ہوجاتی ہے اور وہ بھی کسی بھیانک حادثے میں تو اس کی مسخ شدہ لاش کا چہرہ بھی تو گھر والے رشتے دار دیکھتے ہی ہیں اور پھر یہ آپریشن تو ایک سپرپاور کی طرف سے ہوا ہے، جس میں جذباتیت کو پس پشت رکھ کر حقائق کو سامنے لانا نہایت ضروری ہے اور جس وقت اس کی لاش کو سمندر میں پھینکا گیا، تب امریکہ کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اسلامی ممالک اس غیراسلامی طریقے پر احتجاج کرسکتے ہیں، جتنا احتجاج اور جتنے جذبات تصاویر کو دیکھ کر بھڑکیںگے، اتنے ہی اس بات پر بھی بھڑک سکتے ہیں کہ چاہے کوئی کتنا بڑا مجرم کیوں نہ ہو، اس کی آخری رسومات، اس کی تدفین، اس کے مذہب کے اعتبار سے کی جانی چاہیے۔ غضب کا جواب ہے امریکہ کا کہ اسلامی شریعت کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر تدفین ہوجانی چاہیے۔ چلو مان لیا کہ اس کو سمندر میں جب اتارا گیا تو عربی کی آیتیں پڑھی جارہی تھیں ٹھیک ہے اگر اسامہ کا چہرہ نہیں دکھاسکتے تو کم سے کم اس بیگ کو ہی دکھا دو، جس میں رکھ کر اسامہ کو سمندر میں اتارا گیا، وہ منظر ہی دکھا دو ان لوگوں کو ہی دکھا دو جو آیتیں پڑھ رہے تھے۔ کچھ تو مسلمانوں کے جذبات کو تسلی نصیب ہوگی، لیکن یہاں ایک بات اور بھی دیکھنی ہے کہ مسلم ورلڈ اسامہ کو دہشت گرد تسلیم کرتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ یہاں یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ پوری دنیا کا مسلمان یہ مانتا ہے کہ اسامہ امریکہ کا بنایا ہوا، ڈھالا ہوا اور استعمال کیا ہوا وہ بت تھا، جس کو امریکہ نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور جب امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ اس کی موت فائدہ پہنچاسکتی ہے تو اس بت کو خود اپنے ہی ہاتھوں توڑ دیا، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کوئی جاہل قوم ہے، جو بغیر کسی بات کے بھڑک جاتی ہے، ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں وطن پرستی کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ قرآن مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز سے بھی محبت کرنا سکھاتا ہے۔ یہ قوم کوئی پاگل نہیں ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والے کی حمایت کرے گی، مسلمان بھی دہشت گردی کا مخالف ہے۔ خیر بحث یہ نہیں ہے، بحث یہ ہے کہ اسامہ کی موت سے جو سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟ آج صرف اسلامی ممالک ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر احتجاج ہورہا ہے۔ سابق جرمن چانسلر اور معروف اسٹیٹ مین ہیلمٹ شٹ کے بیان پر غور کریں تو انہوں نے تو اسامہ کے متعلق پوری کارروائی کو ہی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی مانا ہے، اسامہ کی موت سے متعلق بیانات پر جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، اگر جائیں تو ہالینڈ کے بین الاقوامی قوانین کے مشہور وکیل جان گرٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ بن لادن کو زندہ گرفتار کر کے امریکہ لے جانا چاہیے تھا۔ حقوق انسانی کے مشہور وکیل رابرٹ سن کا بھی یہی بیان ہے کہ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ کسی شخص کو پکڑ کر عدالت میں لایا جائے اور شہادتوں کی روشنی میں اس پر جرم ثابت ہو اور قانون کے مطابق سزا سنائی جائے، لیکن اس طرح کے بیانات کا شاید امریکہ کے پاس یہی جواب ہے کہ اتنے خونخوار مجرم کو مارنا ہی ضروری تھا تاکہ آئندہ عبرت ہو، لیکن ایک بات امریکہ کی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس طرح اسامہ کو انہوں نے ہیرو بنانے کا پورا سامان مہیا کرا دیا ہے۔ وہ لوگ جو واقعی اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ ایک بار تو یہ ضرور سوچیںگے کہ اس کی کم سے کم آخری رسوم ہی ادا کردی جائیں۔ کیا پتہ کہ اگر اس کی نماز جنازہ ہوجاتی اور لوگ اس کی میت کو دیکھ لیتے تو عبرت حاصل کرتے۔ اب آجاتے ہیں پاکستان سے متعلق کچھ سوالات پر۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے، جس کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوا اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا ٹھپہ اس پر کافی عرصے سے لگا ہوا ہے۔ پوری دنیا پاکستان اور پاکستانیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لیکن وہ پاکستان جو امریکہ سے امداد لے کر پنپ رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کو پتہ ہو کہ لادن وہاں ہے اور وہ امریکہ کو خبردار نہ کرے۔ اس میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کی کچھ ایسی ساز باز ہوئی ہو کہ پاکستان کو اس میں خاموش رہنے کو کہا گیا ہو اور یہ کہا گیا ہو کہ ہم تمہارے یہاں سب کچھ کرکے آجائیںگے تم انجان بنے رہنا تاکہ دنیا کو امریکہ یہ دکھا سکے کہ اس کے ملک میں 9/11 جیسا واقعہ کرنے والے کو امریکہ ایسی سزا دیتا ہے یا پھر واقعی پاکستان جانتا ہی نہیں تھا، کیوں کہ خود امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو بھنک تک نہیں لگنے دی۔ پاکستان یقینا معصوم نہیں ہے، مگر نہ جانے کیوں پاکستان کو پتہ نہ ہونا اور اگر ہو تو لاعلمی کا اظہار کرنا کچھ ناسمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ ایک ایک کر کے سبھی بڑے عرب لیڈران کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ کرنل قذافی کے بیٹے سیف اور پوتوں کی موت تو دنیا اسامہ کے چکر میں بھول ہی گئی، مگر ہم آپ کو یاد دلادیں کہ یہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا ہے، سب کچھ منظم ہے۔ افغانستان، عراق، مصر، لیبیا، ان سبھی کے حکمرانوں کو ختم کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ پوری عرب دنیا کو ذلیل و خوار کر کے اور ساتھ میں پاکستان کی بربادی کا تماشا دیکھ کر امریکہ شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، تو یہ اس کی بھول ہے۔ مگر ہم یہ نہیں کہنا چاہتے، ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہندوستانی مسلمان دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے وطن عزیز سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں، ہاں اسامہ کی بے دردانہ موت اور اس کی لاش کی بے حرمتی پر سخت احتجاج کرتے ہیں۔ ہمیں اس کے مارے جانے پر قطعی دکھ نہیں، ہمیں غیر اسلامی طریقے سے اس کی لاش کو سمندر میں پھینکے جانے پر اعتراض ہے اور وہ سوال جو ہم سے ہضم نہیں ہو رہے، ہم ان کے جواب چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔

Friday 13 May 2011

کولہاپور: پولس ٹریننگ اسکول یا جنسی استحصال کا اڈہ

وسیم راشد
ایک فلم آئی تھی انجام جس میں مادھوری دیکشت شاہ رخ خاں کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتی ہے۔ شاہ رخ خاں شادی شدہ مادھوری سے بے انتہا پیار کرتا ہے اور جب اظہار محبت میں ناکامی ہوجاتی ہے تو وہ مادھوری کے شوہر کا قتل کر کے اس کا الزام مادھوری پر ہی لگا دیتا ہے۔ مادھوری جب حوالات میں ہوتی ہے تبھی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ حاملہ ہے، اسی دوران خاتون پولس انسپکٹر حوالات میں بند دوسری لڑکیوں کو کچھ بڑے سیاست دانوں کے سامنے ان کی ہوس پوری کرنے کے لیے بلاتی ہے اور اسی میں مادھوری بھی شامل ہوتی ہے۔ مادھوری خود کو کس طرح بچاتی ہے اور دوسری لڑکیاں کس طرح اس دلدل میں پھنس جاتی ہیں، یہ پوری فلم کی کہانی ہے، مگر اس میں ایک بات اہم ہے اور وہ یہ کہ جیل کی چار دیواری، پولس اور خاکی وردی میں ملبوس ہمارے وطن کے رکھوالے سب عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ان سب کے بیچ میں رہ کر بھی عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں۔ کچھ دن قبل خبر آئی کہ کولہا پور کے ایک پولس ٹریننگ اسکول میں 11 کنواری ٹرینی کانسٹبل حاملہ پائی گئیں۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ ملک جہاں بالی ووڈ کی چھوٹی سے چھوٹی ادنیٰ سے ادنیٰ خبریں تو سارا دن چینل کی زینت بنی رہتی ہیں، وہاں اتنی بڑی خبر بس 2دن اخبار کی زینت بنی اور وہ بھی بہت ہی مختصر سی خبر کی طرح پہلے دن صفحۂ اول پر اور دوسرے دن کسی اندرونی صفحہ کے کسی کونے میں اور کسی کسی چینل نے اس کو اپنے یہاں سے ٹیلی کاسٹ کیا، اس خبر کا کیا اثر ہوا کتنے لوگوں کی گرفتاری ہوئی، کتنے افراد اس میں ملوث پائے گئے، اس کے بارے میں ابھی کوئی بھی مزید اطلاع نہیں مل پائی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ٹریننگ اسکول میں ایک نہیں پوری 11 لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا گیا ہو، اس کو لے کر ہنگامہ کیوں نہیں ہوا، مہیلا مکتی مورچہ، مہیلا مکتی سنگھ جیسی تنظیمیں کہاں سو رہی ہیں۔ معمولی معمولی بات پر ہنگامہ کھڑا کرنے والی دوسری تنظیمیں کہاں ہیں؟ جنسی استحصال کے الزام میں انسپکٹر یوراج کامبلے کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کامبلے کا کہنا ہے کہ انہیں بلی کا بکرا بنایا گیا ہے، جب کہ ایک پولس ٹرینی نے کامبلے پر ہی الزام لگایا ہے۔ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ مقامی ممبرپارلیمنٹ سدا شیو راؤ کہتے ہیں کہ 11 حاملہ ہیں جب کہ دیگر اطلاعات کے مطابق صرف 3 حاملہ ہیں۔ اب یہ تو آپ اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی حاملہ عورت کو چھپایا نہیں جاسکتا اگر شروعات بھی ہے تو بھی میڈیکل کرانے سے حقیقت سامنے آجاتی ہے، ایسے میں یہ بیان چہ معنی دارد؟
خواتین کا استحصال کوئی نئی بات نہیں ہے، جب سے اس مظلوم قوم نے گھر سے باہر قدم نکالا ہے، تب سے ہوسناکی کا شکار ہوئی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کو گھر سے باہر نکلنے کا حق ہی نہیں ہے اور کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت گھر سے باہر صرف اپنے شوق کے لیے نکلتی ہے۔ ستم یہ کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی ہر عورت بدکردار ہے۔ عورت کی پریشانی یہ ہے کہ وہ گھر میں بچوں کو روتا بلکتا نہیں دیکھ سکتی، شوہر کو پریشان نہیں دیکھ سکتی، باپ کے کندھوں کو اپنی شادی کے بوجھ سے جھکتا نہیں دیکھ سکتی اور ماں کے سر میں ہر دن چمکتے تاروں کا اضافہ نہیں سہ سکتی، تبھی وہ گھر سے باہر نکلتی ہے، مگر اس کو سمجھنے والا اس کے جذبے کو سراہنے والا کوئی نہیں ہوتا ہر شخص گھر سے باہر نکلنے اور نوکری کرنے والی عورت کو باپ کا مال سمجھتا ہے۔ معاف کیجیے گا الفاظ ذرا تلخ ہوگئے ہیں، مگر کیا شیرینی میں لپیٹ کر کہنے سے تلخ بات میٹھی ہوجائے گی، نہیں بلکہ اس کا اثر ختم ہوجائے گا اور تلخ بات یہی ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے اس کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔ گھر میں الگ طرح سے باہر الگ طرح سے، گھر میں اس کو بار بار یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ وہ کماتی ہے تو کوئی احسان نہیں کرتی یا کہ کام کرتی ہے تو کیا گھر میں بیٹھ کر کھائے گی، اگر بہو ہے تو ساس نندوں کے طعنے کہ خود تو تیار ہو کر نکل جاتی ہیں، ہم سارادن چولہا پھونکیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس غریب کے ٹوٹتے جسم اور تھکے دماغ کو آسودگی کہیں بھی نصیب نہیں ہوتی۔ آفس یا کسی ادارے میں کام کرتی ہے تو ساتھ کام کرنے والوں کی ہوسناک نگاہیں ہر مرد ایک بار ضرور آزماتا ہے۔
کولہا پور میں جس طرح کنواری لڑکیوں کے حاملہ ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس سے کئی باتیں صاف ہیں کہ اس اسکول میں یہ گورکھ دھندہ سالوں سے چل رہا ہوگا، اس کے علاوہ صد فی صد اس میں ایک نہیں کئی افراد ملوث ہوںگے اور وہ بھی بڑی مچھلیاں ہوںگی جن کو جال ڈال کر پکڑا جائے تو ہی قابو میں آئیں گی۔ ہوم منسٹر پاٹل جی نے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولس متھلی جھا کو اس پورے معاملہ کا انچارج بنایا ہے۔ کامبلے نے جن دوسینئر پولس آفیسر دیانیشور منڈے اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولس پر کالے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ان کا بھی کیا بھروسہ کہ ان کے ساتھ اور نہ جانے کتنے نام ہوںگے۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ مہاراشٹر حکومت کو فوری طور پر اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی آفیسرز کو اگر وہ اس میں ملوث پائے جائیں تو برخاست کردینا چاہیے۔
اس وقت جب کہ پورا ملک بدعنوانی کا شکار ہے۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے اور آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہر شخص دوسرے کو پچھاڑ دینا چاہتا ہے، ایسے میں خواتین ہر جگہ غیرمحفوظ ہیں۔ دلی میں جنوبی دہلی کے ڈیفنس کالونی علاقہ میں ایک 15 سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ سامنے آیا۔ میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ ایسا نہیں ہے کہ بڑے شہروں میں ہی لڑکیاں غیرمحفوظ ہیں، چونکہ ان شہروں میں میڈیا تک رسائی اور میڈیا کی عام انسان تک رسائی آسان ہے، اسی لیے یہ واقعات سامنے آجاتے ہیں، جب کہ گاؤں، قصبوں اور دیہاتوں کی حالت تو اور بھی خراب ہے، وہاں کھیتوں میں کام کرنے والی کسان عورتیں اپنے ہی گھر کے لوگوں کے ذریعے جنسی استحصال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان معصوموں کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا، نہ ہی ان کا ساتھ دینے والا کوئی ہوتا ہے۔ عصمت دری کا شکار ہوئی لڑکیاں یوں تو بدنامی کے ڈر سے سامنے ہی نہیں آتیں اور اگر آ بھی جاتی ہیں تو پھر ایک ہولناک مستقبل ان کے سامنے ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی کیس ایسے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں، مگر ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہار کی ایک خاتون پرنسپل روپم پاٹھک کی ان کے ہی علاقے کے ایم ایل اے کے ذریعہ سالوں عصمت دری ہوتی رہی اور بار بار پرنسپل اس کی شکایت کرتی رہی، مگر وہی ہوا جو ان تمام کیسوں میں ہوتا ہے، روپم پاٹھک پر ہی سوال اٹھائے جانے لگے اور ایک دن تنگ آکر اس نے سرعام ممبراسمبلی کا خون کردیا، گویا اس طرح اس نے اپنے حساب سے انصاف کرلیا، مگر اس کا انصاف کون کرے گا۔ آج بھی وہ بے یار و مددگار جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کے برے دن کاٹ رہی ہے۔ آئی جی راٹھور کا نام کسے یاد نہیں بڑی بڑی مونچھوں والا یہ سخت چہرے والا شخص جس پر روچیکا جیسی معصوم نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا، اس نے بھی ایک دن نہ جانے کیسے خود کو بے قصور ثابت کر الیا اور اب بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے اور وہ معصوم اپنی جان سے چلی گئی۔ یہ سب تووہ کیس ہیں جو سامنے آگئے ہیں اور بھی نہ جانے کتنے ایسے کیس اگر ہم ڈھونڈنے بیٹھ جائیں تو انٹرنیٹ پر مل جائیںگے، مگر ہم یہاں اپنی قابلیت کا رعب جمانے کے لیے یہ مضمون قلمبند نہیں کر رہے ، بلکہ حقیقتاً اس درد کو آپ سے بانٹ رہے ہیں جو درد ایک عورت ہوتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں۔ رات دن عورتوں سے جسمانی استحصال اور ان کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، ابھی کئی دن کے اخبارات میں لگاتار شوہر کے ذریعہ بیوی کو زد کوب کرنے اور جلا کر مارڈالنے کی کئی خبریں نظر سے گزری ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ جو عورت ماں، بہن، بیوی کا روپ ہے اس عورت کو باہر اکیلا پاکر کون سا حیوان بیدار ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار پورے نظام کو بدلا جائے، خواتین کے تحفظ کے لیے خواتین ہی آگے آئیں اور ان پر جو بھی مظالم ہو رہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھائیں، دیکھیے ان کی حفاظت کرنے یا ان کا دفاع کرنے آسمان سے تو خدا کسی کو نہیں بھیجے گا خود ان ہی کو اس کا بیڑا اٹھانا ہے، تبھی کچھ حالات بدل سکتے ہیں۔ یہ سب سنی سنائی یا غیر عملی باتیں نہیں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اگر عورت مضبوط ہو تو ا س کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرے۔

Friday 6 May 2011

مودی کی مسلم مخالف پالیسی ہندو ازم پر بھی داغ ہے

وسیم راشد
لیجئے پھر گجرات فسادات سے متعلق بیان سامنے آ گیا۔ اس بیان کی اہمیت اس لئے نہیں کہ9 سال بعد آیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اب مسلمانوں کے زخم کچھ بھرنے لگے تھے اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ بے گناہ لوگوں کو بچایا جا سکے گا۔یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بدعنوانی کے خلاف بھوک ہڑتال کر رہے ہمارے انا جی نے مودی کی تعریف اس طرح کی کہ مسلمان جو انا ہزارے کے ساتھ جنتر منتر پر موجود تھے اور ان کے لئے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اچھے اچھے اور بڑے بڑے شعراء کے اشعار لا رہے تھے او رمیڈیا کے سامنے جوش و خروش سے پڑھ رہے تھے ، ان کے جذبات بھی سرد پڑ گئے۔دراصل مودی کا ایشو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے وہ ناسور ہے جس کا علاج تو ممکن نہیں ہے مگر طرح طرح کی دوائیوں سے اس کی تڑپ اور درد کو ہلکا کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس فساد میں تقریباً1044لوگ مارے گئے تھے جس میں 790مسلمان اور 25ہندو تھے (افسوس ہے کہ مرنے والوں کی فہرست ہندو مسلمان کی فہرست سمجھ کر بنانی پڑ رہی ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اتنے ہندو یا مسلمان نہیں اتنے انسان مرے۔) 223سے 250تک لوگ اس فساد میں ایسے کھوئے کہ ابھی تک پتہ نہیں چل پایا۔  2548کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ ایک ہزار کے قریب عورتیں بیوا اور 606بچے یتیم ہو گئے تھے۔ایسا فساد جس سے پوری دنیا ششدر رہ گئی اور جس نے جلیاں والا حادثہ کو پھر سے تازہ کر دیا اور مودی کی شبیہ ایسی داغدار ہوئی کہ بیرون ممالک میں جانے کے لئے ویزا تک نہیں ملا ۔
ہاں یہ سلوک مودی کے ساتھ غیروں نے کیا۔ ہمارے اپنوں نے تو ان کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار پھر سے اسی ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔گویا اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ جو بھی مودی نے کیا وہ اس کا حق تھا ۔ بی جے پی یہ بھول گئی کہ مودی کی مسلم مخالفت دراصل ہندو ازم کی شبیہ خراب کرنا ہے۔کیونکہ پوری دنیا میں ہندو مذہب بھی اپنی روایت کی پاسداری ، حسن سلوک اور انسانی ہمدردی کے لیے جانا جاتا ہے۔مودی کے اس اینٹی مسلم کردار سے ایک طرح سے وہ اینٹی ہندو ازم کی مثال بن جاتے ہیں۔ مودی سے متعلق مختلف بیانات پھر سے سامنے آرہے ہیں اور اس بار گجرات کے ہی ایک سینئر پولس افسر سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے حلف نامہ میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے گودھرا کی ٹرین میں کار سیوکوں کو جلائے جانے کے واقعہ کے بعد اعلیٰ پولس افسروں سے کہا تھاکہ وہ ہندئوںکو اپنا غصہ نکالنے دیں۔
سنجیو بھٹ 2002میں فسادات کے وقت انٹیلی جنس کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ بھٹ کا یہ بیان بے حد اہم ہے کیونکہ بھٹ نے27فروری 2002کو گودھرا کے واقعہ کے بعد احمد آباد میں جب اعلیٰ پولس افسران کی میٹنگ بلائی تو مودی نے پولس سے کہا کہ ’’وہ فسادیوں کو نہ روکیں اور مسلمانوں کی طرف سے مدد کی التجائوں پر توجہ نہ دیں‘‘ یہ ہے مودی کی مسلم دشمنی کا جیتا جاگتا ثبوت۔ مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خود کو نیشنل ایشوز سے نہیں جوڑتے۔ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث رہتے ہیں۔ان کی داڑھی، ٹوپی پر بار بار نکتہ چینی کی جاتی ہے مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں نے تو جنگ آزادی سے لے کر آج تک بار بار اپنے وطن عزیز کے لئے قربانیاں دی ہیں۔مگر اسی ملک نے ایک مودی تک کی قربانی نہیں دی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے زخم ہمیشہ ہی ہرے رہے۔18صفحات پر مشتمل اپنے حلف نامہ میں سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ کو یہ تفصیلات فراہم کیں کہ اس میٹنگ میں آٹھ افسران شامل تھے اور ان سے مسٹر مودی نے کہا کہ’’ ایک طویل عرصہ سے گجرات پولس اب مذہبی فسادات میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہمیشہ balanced رہی ہے لیکن اس بار ایسی صورتحال ہے کہ مسلمانوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ کبھی ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہونے پائے۔‘‘مسٹر سنجیو بھٹ نے اپنے حلف نامہ میں یقینا سچائی سے کام لیا ہوگا۔اب یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر 9سال بعد سنجیو بھٹ کا ضمیر جاگا ہے، کیونکہ جس وقت رپورٹرس نے ان سے سوال کیا کہ آخر ان کا یہ سب اس وقت کرنے کا کیا مقصد ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میرا کوئی مقصد نہیں ہے میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔اس جواب سے ایک عام مسلمان تو مطمئن ہو سکتا ہے مگر ایک صحافی کے دل میں ضرور شک و شبہات پیدا ہو ں گے کہ آخر اس فرض کو پہلے ادا کیوں نہیں کیا گیا؟ رپورٹر نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ ان کو کبھی دھمکی بھی ملی ہے تو بھی بھٹ نے جواب دیا کہ انہیں جو بھی کہنا ہے وہ سپریم کورٹ میں کہیں گے۔ ہاں یہ ضرور انھوں نے کہا کہ دسمبر 2002سے 2009تک نہ کورٹ نہ کمیشن نے نہ کسی ایجنسی نے ان کو بلا کر کچھ پوچھا ۔ سنجیو بھٹ نے ایس آئی ٹی کو بھی یہ باتیں بتائی تھیں لیکن اس نے ان کے بیان پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ایسا ہی آر بی سری کمار کے ساتھ بھی ہوا تھا کہ انھوں نے نریندر مودی کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ایک حلف نامہ گجرات فساد پر جمع کرایا تھا لیکن تب بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔آر بی سری کمار بھی انٹیلی جنس بیورو میں تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھٹ کے ذریعہ داخل کیا گیا حلف نامہ ان کے حلف نامہ کو اور بھی پختہ کرتا ہے۔دیکھئے کیا رول ہے ہماری انٹیلی جنس بیورو کا کہ بار بار ایک شخص کے خلاف حلف نامے داخل ہو رہے ہیں،مگر اس شخص کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
بھٹ 1988کے بیچ کے آئی پی ایس آفیسر ہے اور اس وقت جونا گڑھ اسٹیٹ ریزرو پولس ٹریننگ سینٹر میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہیں۔ بھٹ کو یہ بھی حیرانی ہے کہ 27اپریل کو دوسرے اور معاملات کے ساتھ اس حلف نامہ کو سامنے آنا تھا یہ میڈیا میں پہلے سے کیسے لیک ہو گیا۔ یہ ہندوستان ہے جناب یہاں پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی یہ تک پہلے سے پتہ لگا کرپتہ لگا کر اگر لڑکی ہے تو اسے پیٹ میں ہی مار دیا جاتا ہے جو بہت بڑا قانونی جرم ہے تو پھر میڈیا میں یہ رپورٹ آ جانا کون سی بڑی بات ہے۔ہاں ایک مثبت بات ضرور ہوئی کہ بھٹ کے اس حلف نامہ کے مواد پر گجرات کانگریس صدر ارجن مودھ واڑیا نے بی جے پی اور اس کے اعلیٰ افسران سے جواب طلب کیا ہے اور ان کی یہ بات حق بجانب ہے کہ بی جے پی وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پر اتنے بڑے ایشوپر بی جے پی خود قوم کو کیا جواب دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بی جے پی نے بھی ایک صحیح اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہوتا تو آج کانگریس حکومت کی سبھی بدعنوانیاں سامنے آتی جاتیں اور حکومت اپوزیشن کو جواب دہ ہوتی۔مگر اٹل بہاری واجپئی کے بعد بی جے پی میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ، اڈوانی جی نتن گڈکر ی کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔سشما سوراج صرف گرجنے کے لئے ہیں۔ بڑی ہنسی آتی ہے سینئر بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی کے اس بیان پر جو انھوں نے بھٹ کے بیان کے بعد دیا ہے کہ جوڈیشیل میکانزم اس پورے معاملہ کو دیکھے گا۔ اس لئے اس کو اس پر چھوڑ دینا چاہئے۔آفریں ہیںتیستا سیتلواڑ پر جو گجرات فسادات کے بعد برابر مسلمانوں کے حقوق کے لئے ان کو انصاف دلانے کے لئے لڑ رہی ہیں ۔ انھوں نے خود بھی اس بات کو مانا ہے کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ براہ راست کسی ایسے شخص کی طرف سے جو وہاں خود موجود ہو سچائی سامنے آئی ہے اور وہی بات انھوں نے کہی ہے جو مسلمانوں کے دل ودماغ میں ہے اور جس کو وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتے ہیں اور جس کی کوئی سنوائی نہیں کہ ایسے چیف منسٹر کو دو بار منتخب کیا گیا جس کو گجرات فساد کے بعد ہرگز دوبارہ نہیں بنانا چاہئے تھا ۔ جو خود گجرات کا مالک ہے ، وہاں کا حکمراں ہے ، وہ کیسے تفتیش کو غیر جانبدار رہنے دے گا۔ تیستا کے اس بیان سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ گجرات فساد کی آج بھی صحیح تفتیش نہیں ہو پائی ہے۔ ابھی تو اور نہ جانے ایسے کتنے عقدے کھلیں گے ۔ سابق آئی پی ایس افسر جی ایس راج گڑھ جو کہ گجرات میںتعینات تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ فروری 2002میں جب میٹنگ رکھی گئی وہ چھٹی پر تھے۔ اس لئے انہیں پتہ نہیں کیا ہوا۔یہ بھی ایک سوال ہے؟کہ آخر وہ چھٹی پر کیوں تھے، ایسے میںجبکہ پورا ملک ، پوری ریاست جل رہی ہو اور اتنے اہم ایشو پر میٹنگ بلائی جا رہی ہو۔ ایک سینئر پولس آفیسر کا چھٹی پر جانا چہ معنی دار ؟ادھر ذکیہ جعفری کے ذریعہ بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ مودی سمیت سینئر پولس آفیسر اور سینئر بیوروکریٹس سبھی اس فساد میں شامل تھے۔یہ ضرور ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بار بار مختلف اداروں، تنظیموں، این جی اوز ، صلاح کار کمیٹیوں اور فلاحی تنظیموں کے ذریعہ گجرات فساد کے انصاف پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں لیکن اس بار یہ ضرور ہے کہ اس حلف نامہ نے بی جے پی کو مجبور کر دیا ہے کہ پھر سے مودی کے بارے میں سوچا جائے اور قوم بھی اڈوانی سے کچھ امید رکھتی ہے۔ہاں کچھ سوال ضرور اس تعلق سے ایک ادنیٰ صحافی کے دماغ میں کلبلا رہے ہیں، جن کا جواب آپ کو بھی چاہئے۔
٭    پہلا سوال یہ ہے 9سال بعد ہی سنجیو بھٹ کو یہ خیال کیوں آیا ؟
٭    جو ثبوت وہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے والے ہیں، وہ ان کے پاس پہلے سے موجود رہے ہوں گے، ان میں کتنی سچائی ہے؟
٭    27فروری 2002کی میٹنگ میں بھٹ کی موجودگی سے مودی حکومت کیوں انکار کر رہی ہے؟
٭    27فروری کی میٹنگ میںاور آفیسر بھی موجود رہے ہوں گے ، انھوں نے کیوں خاموشی اختیار کی، کیا سبھی کا ضمیر مردہ ہے؟
٭    ناناوتی کمیشن جو گجرات فسادات کی جانچ کر رہا ہے ، اس نے بھٹ سے کیوں پوچھ تاچھ نہیں کی؟
٭    ایک آخر ی لیکن ذرا چبھتا ہوا سوال، وہ یہ کہ سنجیو بھٹ کب ریٹائر ہو رہے ہیں، کہیں یہ مستقبل کی کوئی پلاننگ تو نہیں ہے؟
اپنے آخری سوال پر ہم خود شرمندہ ہیں، کیونکہ ابھی تک تو سنجیو بھٹ نے بڑی ہمت اور جواں مردی سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں کسی پینل یا عدالت کے سامنے طلب کیا گیا تو وہ سارے ثبوت پیش کر دیں گے۔ خدا کرے سنجیو بھٹ کی شکل میں مسلمانوں کا کوئی سچا ہمدرد سامنے آئے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک سنجیو بھٹ کیا ایسے نہ جانے کتنے ہی سنجیو بھٹ سامنے آ جائیں اور مودی کی مسلم مخالفت کھل کر سامنے آجائے اور سرکردہ اور تعلیم یافتہ ہندوبھائیوں کو بھی اس کا بات کا احساس ہوجائے کہ کہیں نہ کہیں مودی سے ان کے ہندوازم پر بھی داغ لگ رہاہے۔