Monday 27 June 2011

سارا پیسہ لیڈروں کی جیب میں۔۔تو عوام کا کیا ہوگا؟

وسیم راشد
عوامی جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک کے عوام حکومت وقت سے خوش ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے انھیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ کانگریس کا یوں تو نعرہ ہے ’کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ‘، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہری سے آپ جاکر پوچھ لیں کہ کیا وہ موجودہ حکومت سے خوش ہے، تو آپ کو شاید ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا، ’نہیں‘۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو ہر گلی کوچے میں ہر شخص یہ کہتا ہوا بھی نظر آ جائے گا کہ ’کانگریس کی حکومت جب جب آئی، کمر توڑ مہنگائی لائی‘۔ تعجب ہے کہ جس پارٹی کے اندر منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی اور مونٹیک سنگھ آہلو والیہ جیسے ماہر اقتصادیات ہوں وہ پارٹی مہنگائی پر قابو نہ کرسکے۔ بی جے پی کو لوگ بنیوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن کانگریس کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے۔ بدعنوانی کی بات کریں تو، کانگریس کی قیادت والی موجودہ یو پی اے حکومت نے ملک کے اندر گھوٹالوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حکومت کا ایک سابق وزیر اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے اور کتنے لیڈر ایسے ہیں جو جیل جانے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ انا ہزارے نے ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کی جب مہم چلائی اور بابا رام دیو نے جب ملک کے عوام کو ہندوستان کے قلب، دہلی میں لاکر جمع کردیا اور حکومت کو کھلی چنوتی دی، تو اقتدار کی چولیں ہل گئیں، ہر وزیر بغلیں جھانکنے لگا۔ آخر کانگریس بدعنوانی مخالف اس عوامی مہم سے اس قدر خائف کیوں ہے۔ اس کا خوف ہی اس کے گناہ کو ثابت کر رہا ہے۔ معاملہ چاہے دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران پیسوں میں کی گئی ہیرا پھیری کا ہو یا پھر سوئس بینک میں جمع کالے دھن کا، اگر کسی روز اس میں ملوث تمام افراد کے نام سامنے آئیں گے، تو اس میں گانگریس کے لیڈروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی کیوں کہ اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کانگریس نے ہی کی ہے۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز، اے او ہیوم نے ڈالی تھی، اور ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے تھے، لیکن انھوں نے یہاں کی بے پناہ دولت کو لوٹنے کے لیے ایوان اقتدار کو اپنے قابو میں کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہندوستان کی دولت انگریزوں کے ذریعہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی جانے لگی۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کانگریس کا یہی حال ہے۔ چہرے بدل چکے ہیں، لیکن نیت وہی ہے۔ دولت کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ لیڈر بن جائیں، اس کے بعد کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آپ کو جائز و ناجائز کسی بھی کام سے روک سکے۔ کانگریس کے اندر ایسے لیڈر ایک ڈھونڈنے سے ہزار ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے موڈ کو بھانپ کر یہ لوگ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر عوام کے اندر بیداری پیدا ہوگئی تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔کسی گاؤں دیہات کے چھوٹے موٹے لیڈر کے پاس اگر آپ یہ تجویز لے کر جائیں کہ فلاں جگہ اسکول کالج نہیں ہیں، بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے ان کے والدین کو پیسوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے، آپ برائے کرم یہاں پر کوئی اسکول یا کالج بنوادیں، تو آپ کو جواب فوراً نفی میں ملے گا۔ ہاں، البتہ وہ لیڈر آپ سے یہ ضرور کہے گا کہ بھلا پڑھ لکھ کر آپ کے بچے کیا کریں گے،ان کے کھیلنے کودنے کے لیے اسپورٹس کمپلیکس بنوا دیتا ہوں، کارخانے لگوا دیتا ہوں جہاں پر ان بچوں کو نوکریاں مل جائیں گی اور ان کی گزر بسر کا انتظام ہو جائے۔ کبھی آپ نے ایسے جواب کے پیچھے چھپے اسباب کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ لیڈر نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں، کیوں کہ تعلیم سے بیداری پیدا ہوتی ہے، اپنے حقوق کو لوگ پہچاننے لگتے ہیں، بڑے ہوکر یہی بچے جب ان لیڈروں سے ان کے گناہوں کا جواب طلب کریں گے تو ان کی مشکلیں بڑھ جائیں گی، اسی لیے وہ ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ملک کے اندر بنیادی تعلیم کا قانون پاس ہو چکا ہے، لیکن جب اسکول ہی نہیں رہیں گے تو پھر تعلیم کا کیا مطلب ہے۔ جو اسکول اور کالج موجود ہیں، ان میں اساتذہ کا ہی تقرر نہیں کیا جائے گا، تو پھر حق تعلیم کا قانون تو بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان کے لیے ارباب اقتدار میں نشستیں محفوظ کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پنچایتی نظام میں تو عورتوں کو پچاس فیصد ریزرویشن دیا بھی جا چکا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ خواتین پر ظلم و ستم کے سلسلے اب بھی جاری ہیں۔ یوپی میں مایاوتی کی سرکار ہے، لیکن وہاں آج بھی عورتوں کی عزت سر عام لوٹی جا رہی ہے اور بیچاری بہن جی کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی یوپی کے لکھیم پور کھیری ضلع کے نگھاسن تھانہ میں 14 سالہ نابالغ لڑکی کی پولس کے ذریعہ عصمت دری کرنے اور پھر اسے مار کر ایک درخت سے لٹکانے کا سنسنی خیز واقعہ سامنے آیا ہے، جو مایاوتی حکومت کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں، یہاں بھی آئے دن عورتوں کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور جب شیلا جی سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت میں عورتیں محفوظ نہیں ہیں، تو وہ لڑکیوں کو دیر رات گھر سے نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ایک طرف تو آپ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں اونچے مقام پر بٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور پھر دوسری طرف آپ ہی انہیں دیر رات گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں، یہ بھلا ممکن کیسے ہے۔ کال سنٹر میں لڑکیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے اور انہیں رات کے وقت ہی اپنے آفس جانا یا پھر آفس سے گھر آنا پڑتا ہے، یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انہیں پوری سیکورٹی فراہم کریں۔
کانگریس کی حکومت میں پولس کا رویہ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے ملک کا پولس نظام انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پولس کا صرف ایک کام تھا، معصوم ہندوستانیوں پر ظلم ڈھانا۔ لیکن آج جب انگریز نہیں ہیں تو پھر پولس کے اس فرسودہ نظام کو درست کیوں نہیں کیا جاتا۔ ملک کے دانشور طبقہ کی یہ رائے ہے کہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے زیادہ تر واقعات میں پولس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی علاقے میں لوٹ مار کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو اس میں ملوث شر پسند عناصر پولس کو پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔ لیکن اگر عام شہری پولس کے پاس چوری کے کسی واقعہ کی رپورٹ لکھوانے جائے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہیں کسی با رسوخ آدمی کا فون پولس کے پاس آ جائے تو پولس چوری کے سامان کو چوبیس گھنٹے میں برآمد کر لیتی ہے، آخر کیسے؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ چوروں اور غنڈوں کی طرف سے پولس کو چوری کے مال سے کمیشن مل جاتاہے، اس لیے وہ اکثر ایسے واقعات کے بعد خاموش ہو جاتی ہے۔ پولس اگر چاہے تو ملک کے کسی بھی حصہ میں پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ لیکن پولس کام اس لیے نہیں کرتی کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اگر پولس کے لوگ ایماندار ہوگئے تو پھر لیڈروں تک وصولی کا پیسہ کیسے پہنچے گا۔ اسی لیے کسی جرم کو ہوتا ہوا دیکھ کر بھی پولس آنکھیں موند لیتی ہے۔
ملک کا عام آدمی سرکار کے اس اندھے بہرے قانون سے کافی پریشان ہے، ملک میں قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں پر اس قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، اگر وہی بے ایمان ہو جائیں تو پھر کون کیا کر سکتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا پڑے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد ان لیڈروں کو جھولی پھیلاکر عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے اور ووٹ کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، لیکن یہی گداگر جب بڑا عہدہ پاجاتے ہیں تو پھر عوام کو اپنی بوٹوں تلے روندنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر ملک کے اندر کسی عوامی انقلاب کی ایسی آندھی چلے کہ کوئی لیڈر بچے ہی نہیں۔ یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے لیڈر اپنا محاسبہ خود کریں اور عوام کی نبض کو پہچانیں، ملک کے وفادار بنیں اور ایسی کوشش کریں کہ اس ملک میں ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو، وہ ہر طرح سے مضبوط بنیں تاکہ ان کے اوپر کوئی ظالم حکمراں نہ مسلط ہو سکے۔
انّا ہزارے اور بابا رام دیو کی تحریک اور اسے ملنے والی عوامی حمایت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف پورے ملک میں ایک چنگاری سلگنے لگی ہے، یہ کب ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرلے ، کسی کو نہیں معلوم۔ حکومت کی طرف سے حالانکہ اسے کچلنے کی پوری تیاری چل رہی ہے، لیکن یہ تحریک اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے اسے انقلاب کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اگر وہ چاہے تو تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہے، مسائل کے حل کے ذریعہ ہی عوام کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے۔ سرکاری نظام میں جہاں جہاں اور جو جو خامیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے۔ سرکار اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہم اپنے ملک کو جنت نشاں بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیسوں کی کمی نہیں ہے، نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے، کمی اگر ہے تو صرف صدق دلی کی، قوت ارادی کی، ملک کے تئیں وفاداری کی۔ اگر سرکار آج سے ہی ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے اور عوام کی خدمت کے فریضہ کو انجام دینا شروع کردے تو پھر ہم ایک سنہرے ہندوستان کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جب تعلیم کا بول بالا ہوگا، صاف و شفاف سرکاری نظام ہوگا تو چوری، ڈکیتی، عصمت دری اور اس جیسے زیادہ تر جرائم خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ ہندوستان عالمی پیمانے پر اپنا قائدانہ رول ادا کرے، لہٰذا ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے اندر کی کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا پڑے گا۔ وقت کی یہی آواز ہے، ہمارے لیڈران اس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہے۔

Monday 20 June 2011

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔

وسیم راشد
یہ ہمارا ملک ہندوستان ہے جہاں ہمارے آئین نے ہمیں ہر طرح کی آزادی دی ہے۔ جب ہم سنتے ہیں We the People of India تو ہم وطن عزیز کی محبت میں سر شار ہو کر خود کو ہر طرح سے محفوظ اور آزاد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کی آزادی ، مذہبی آزادی، بولنے کی آزادی یہ ہمارے وہ بنیادی حقوق ہیں جن پر ہمیں ناز ہے مگر جس طرح ایم ایف حسین کو جلاوطنی کی موت دیار غیر میں نصیب ہوئی اس سے لمحہ بھر کے لیے یہ احساس ہوا کہ کہیں یہ سب صرف آئین کے صفحات تک ہی تو محدود نہیں ہے۔ ایم ایف حسین دنیا ئے آرٹ و پینٹنگ کا شہنشاہ جس نے تقریباً 60سال تک دنیائے آرٹ کو ایسے ایسے نادر نمونے دیے کہ دنیا نے اس کو بے تاج بادشاہ تسلیم کر لیا۔دیار غیر میں اپنے وطن عزیز آنے کی خواہش میں سینہ میں ہزاروں طوفان چھپائے ، سینہ کے درد کی شکایت سے دنیا کو خیرباد کہہ گیا ۔ اس کا قصور کیا تھا ، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے فن میں ڈوب کر کچھ ایسی تصویریں بنا ڈالیں جس سے ایک طبقہ کے لوگ ان کی جان کے دشمن ہو گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ پینٹنگ حسین نے 1970میں بنائی تھی، اس پر ہنگامہ 31سال بعد ہوا اور ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی ملنے لگیں اور اس طرح کبھی قطر کبھی دبئی، کبھی ادھر کبھی ادھر اور پھر آخری منزل لندن ۔ وہ جب تک زندہ رہا اپنے فن کے ذریعہ دنیا بھر کے نادر نمونے اپنی تصویروں میں پیش کرتا رہا اور مرتے مرتے ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ زندہ دلی کیا ہوتی ہے۔ وہ جب ملک کے اندر رہا تب بھی اس نے اپنے قول و عمل سے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کا دل کسی اور ملک کے لیے دھڑکتا ہے، اور جب اس نے دیارِ غیر میں جاکر پناہ لی تب بھی اس نے اپنی حب الوطنی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کے لیے آہیں بھرتا تھا، ہندوستان واپس آنے کی آس لیے آخرکار وہ اس جہانی فانی کو ہی الوداع کہہ گیا۔ ایم ایف حسین نے اپنے اس لاجواب فن پر کبھی گھمنڈ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے فن کو زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی۔ اگر ایک سچے عاشق کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے کائنات کے ہر ذرے میں محبوب کا ہی عکس نظر آتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال مقبول فدا حسین کا تھا، جنہیں دنیا کی ہر چیز میں خوبصورتی دکھائی دیتی تھی۔ اپنے فن کا اظہار کرنے کے لیے وہ برش اور کینوس کے محتاج نہیں تھے بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ پتھر یا کوئلے سے بھی تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اپنے فن سے مصوری کو جاودانی بخش دی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ کسی بھی واقعہ پر مصوری کے ذریعہ اپنے رد عمل کا فوری اظہار کر دیتے تھے، اس کی پروا کیے بغیر کہ دیکھنے والے پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ عظیم شاعر وہی بن سکتا ہے جسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو کہ شعر سننے والے پر اس کا کیا اثر ہوگا، اگر اس نے لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال کرنا شروع کردیا تو کبھی اچھا شاعر نہیں بن سکتا، شاعری تو صرف اپنے جذبات و خیالات کو الفاظ میں پرونے کا نام ہے۔ مقبول فدا حسین نے یہ کرکے دکھا دیا۔ حسین نے کبھی اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ سب سے بڑے مصور ہیں، جیسا کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے اپنے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’ٹنوں من مٹی کے نیچے لیٹا ہوا بیدی اب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سب سے بڑا خالق وہ ہے یا خدا!‘۔ مقبول فدا حسین کو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑی کیوں کہ بقول اقبال ’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘۔ حسین صاحب کی پینٹنگ میں ان کاپورا احساس موجزن ہوا کرتا تھا، اسی لیے لوگ ان کی پینٹنگ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ دماغ میں کسی قسم کا غرور نہ پیدا ہو جائے، شاید اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایم ایف حسین نے کبھی اپنے پیر میں جوتے چپل نہیں پہنے۔ جہاں بھی جاتے ننگے پیر جاتے۔ یہی تھا ان کابڑپن، جس کی لوگ اب بھی داد دیتے ہیں۔
لیکن اپنی مصوری کے سفر میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تنازعہ کا شکار ہوگئے، ان کے برش نے کچھ لوگوں کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا، کسی کے مذہبی جذبے کو ٹھیس لگی اور پھر ایک طبقہ دیوانہ وار ان کے پیچھے پڑ گیا، ان کے ذریعہ بنائی گئی تصویروں کو نذر آتش کیا جانے لگا، انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ حالانکہ اسی مذہب کے ماننے والوں میں سے ایک طبقہ ہمیشہ ان کا دفاع بھی کرتا رہا اور یہ دلیل دیتا رہا کہ حسین صاحب نے اس قسم کی پینٹنگ بناکر کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے بلکہ ایسا تو صدیوں سے ہوتا آیا ہے، اس کی زندہ مثالیں آج بھی ہمیں مختلف مذہبی مقامات پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں، پھر اگر کسی پینٹر نے اسے اپنے طریقے سے کاغذ پر اتار دیا تو اس نے غلط کیا کیا۔ لیکن دیوانے مانے نہیں، پتھر پھینکتے رہے، آگ لگاتے رہے، حالانکہ ان کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، ان کی توڑ پھوڑ حسین صاحب کو خوفزدہ نہیں کر سکی، وہ اور بھی طاقت و توانائی کے ساتھ نمودار ہوئے اور مردہ تصویروں کو بولنے پر مجبور کرتے رہے۔ ان کی اس ہمت کو دیکھ کر ان کے دشمن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر یہ انسان کس مٹی کا بنا ہے۔ انھیں گردے کا کینسر تھا، لیکن انھوں نے اپنی رفتار و گفتار سے اس مرض کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اسپتال کے بستر پر پڑے ہوئے بھی وہ اپنے دوست سے یہ تقاضہ کرتے رہے کہ ’بھئی چائنیز ریسٹورنٹ‘ میں کب لے کر جا رہے ہو۔ اسے کہتے ہیں کہ زندہ دلی۔ انھوں نے خدا کی دی ہوئی انمول نعمت ’زندگی‘ کو پوری طرح جیا، اس کے ہر گوشہ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر میں مروں تو میرے ہاتھ میں برش ہو اور میں کوئی تصویر بنا رہا ہوں، ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کسی فوجی کی موت سرحد پر دشمنوں سے لڑتے لڑتے ہوجائے۔ یہ تھا جذبہ، جس نے ان کی تصویروں کو بولنے پر مجبور کردیا۔
آج ان کی موت پر صدر جمہوریہ ہند بھی افسردہ ہیں، محترم وزیر اعظم بھی اور وہ سبھی بڑے بڑے لوگ، بڑے سیاسی رہنما جنھوں نے ان کی جلاوطنی کے درد کو جیتے جی محسوس نہیں کیا۔ آج مرنے کے بعد نائب صدر حامد انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ان کی موت سے نہ صرف قوم بلکہ آرٹسٹ برادری کا زبردست نقصان ہوا ہے۔وہ ہندوستان کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ جی ہاں ہندوستان کی محبت تو ان کی رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے تھی، پر ہندوستان ان کو وہ محبت کیوں نہ دے سکا جس کے وہ مستحق تھے۔صرف اس لیے کہ ہندی دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنانے والا ایک مسلمان تھا۔کھجوراہو، اجنتا ایلورا میں جو ہندو دیوی دیوتائوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ، وہ تو ہوئیں آرٹ کا نمونہ، ان کو دیکھنے کے لیے آپ پوری دنیا سے ٹورزم کا پیسہ سمیٹتے ہیں،  وہ آرٹ کا نادر نمونہ کہلاتی ہیں مگر حسین کے ذریعہ بنائی گئیں تصویریں آرٹ کے نام پر کلنک ہو گئیں یہ کیسا دوہرا معیار ہے۔ہمارے ملک میں پہلے جب یہ سنا اورکہا جاتا تھا کہ ہندوستان مردہ پرستوں کا ملک ہے۔یہاں مرنے کے بعد ہی تعظیم و تکریم ، انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے تو اتنی شدت سے کبھی اس بات کو نہ سوچا، نہ محسوس کیا مگر جب آج انہیں بھارت رتن دینے کی بات کہی جا رہی ہے تو یہ احساس دو چند ہو گیا ہے۔ ایم ایف حسین نے متعدد بار معافی مانگی، وہ مقدمات سے تنگ آ چکے تھے ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے ایم ایف حسین کی درخواست پر اور راج کوٹ بھوپال ، پندھار پور یعنی سبھی جگہ کے مقدمات کو دہلی منتقل کرنے کا آرڈر دیا تھا مگر پھر بھی مرتے مرتے فدا حسین ان مقدمات سے پیچھا نہ چھڑا سکے اور نہ ہی اپنی آخری خواہش کے مطابق ممبئی کا فالودہ کھاسکے۔جی ہاں، جب مرنے سے دو تین دن قبل شوبھا ڈے نے ان سے لندن کے اسپتال میں ملاقات کی تو انھوں نے اسپتال کا کھانا کھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا ۔ میں ممبئی کا فالودہ کھانا چاہتا ہوں۔ آج حسین کی موت پر ہم سب ہندوستانی نہ جانے کیوں اندر ہی اندر احساس جرم سے ہمکنار ہیں کہ ہم اپنے ملک کے بیش قیمت کوہِ نور کو واپس نہ لا سکے اور ایک کوہِ نور برطانیہ کی ملکہ کے تاج میں جڑ گیا۔ دوسرا وہیں کی مٹی میں دب کر خاک ہو گیا۔

Wednesday 15 June 2011

اردو کو لے کر کانفرنسیس تو ہوتی ہیں پر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا

وسیم راشد
کبھی کبھی سیاست پر لکھتے لکھتے طبیعت گھبرانے لگتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی اور مسئلہ پر لکھا جائے، بلکہ مسئلہ پر ہی کیوں۔کیوں نہ کسی ادبی محفل کی بات کی جائے۔ تو چلیے اس بار بات کرتے ہیں دہلی میں یکم جون کو ہوئی آل انڈیا اردوایڈیٹرس کانفرنس کی ۔ دہلی کے انجمن ترقی اردو ہند کے دفتر میں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں دہلی کے تقریباً سبھی نامور صحافیوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا قیام بقول ڈاکٹر خلیق انجم 1927 میں عمل میں آیا اور آزادی کے بعد یہی پہلی تنظیم تھی، جس نے اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔اس وقت اس تنظیم کو مشہور صحافی، سابق ممبر پارلیمنٹ اور سابق سفیر جناب م۔ افضل صاحب چلا رہے ہیں اور جس زمانہ میں وہ انگولا کے سفیر تھے اس زمانہ میں بھی ان کے رفیق کار مودود صدیقی صاحب اس تنظیم کوفعال بنانے میں لگے رہے۔حالانکہ اس کا نام آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس ہے مگر اس کانفرنس میں دہلی کے ہی تمام صحافی اور شرکاء تھے ۔ ان معنوں میں قابل تحسین ہیں جناب م۔ افضل صاحب کہ انھوں نے پھر سے ان سوکھے دھانوں میں پانی ڈال کر اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کی ۔اس کانفرنس میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا کہ اردو صحافت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اس پر تجاویز سامنے آنی چاہئیں۔ پہلے اس کانفرنس کے مثبت پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں کیونکہ عام طور پر اردوصحافیوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ہر بات میں منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ مگر شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک اچھے صحافی کو پہلے منفی پہلو کو ہی سوچنا چاہیے ۔پھر مثبت پہلو کی طرف آنا چاہیے۔ توخیر مثبت پہلو اس کاانعقاد تھا۔ ظاہر ہے دوبارہ سے کسی تنظیم کو متحرک بنانا مشکل کام ہے اور پھر سبھی اہم صحافیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ایک یہ بات ہم اردو پڑھنے لکھنے والوں میں بری ہے کہ جیسے ہی اسٹیج پر آتے ہیں اور مائک ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا اپنا کیا مقام ہے۔بس بنا مطلب کی تعریف و توصیف کرنے میں لگ جاتے ہیں جس سے کہ بس آرگنائزرز کو خوش کیا جا سکے ۔ یہی حال اس کانفرنس میں بھی تھا۔ مگر خود م۔ افضل صاحب نے جس طرح اردو اخبارات کو اشتہارات نہ ملنے کے مسئلہ کو خوبصورتی سے اٹھایا اور پھر معصوم مرادآبادی، جو خود بھی ایک نامور سینئر صحافی ہیں، نے اس کو تفصیل سے بتایا وہ بہت اہم بات تھی۔ م۔ افضل کا یہ کہنا کہ انگریزی اور ہندی میں تو اشتہار دیے جاتے ہیں اور خوداردو کے تعلق سے جو اشتہارات ہوتے ہیں وہ بھی انگریزی اور ہندی میں نظر آتے ہیں۔یہ اپنی جگہ بہت اہم بات تھی۔ انھوں نے ایک بات اور بڑی اہم کہی کہ اردو زبان کو جس طرح مسلمانوں کے ساتھ جو ڑ کر اس کا دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے وہ بھی سراسر نا انصافی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر خلیق انجم کا یہ کہنا کہ تمام اخبارات اور رسائل کے ذمہ داران متحد ہو کر اردو کی نشو و نما کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں اور لگاتار اپنے مطالبات دوہرائیں تو بات بنے۔یہاں ہم بہت ہی ادب سے خلیق انجم صاحب سے کہنا چاہیں گے کہ گزشتہ دو سالوں سے اردو ایڈیٹرس کی لگاتار کانفرنسز ہو رہی ہیں اور بھلے ہی گروہ بندی چل رہی ہو یعنی جناب ایک یہی آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس نہیں بلکہ ایک دوسرا گروپ بھی ہے جس کی جماعت میں بڑے بڑے نامور صحافی موجود ہیں۔تو خیر اس طرح کی کانفرنس کاانعقاد بھی ہوتا ہے ، تجاویز بھی رکھی جاتی ہیں، مگر نتیجہ ابھی تک کچھ نہیں نکلا۔ ایک بہت بڑی کانفرنس محترمہ شیلا جی، کپل سبل، ہارون  یوسف وغیرہ کے ساتھ بھی ایڈیٹرس نے کی تھی اور بار بار یہی کہا گیا تھا کہ اشتہارات اردو اخبارات کو نہیں ملتے، صحافیوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، مگر سب کچھ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ اس کانفرنس میں بھی بار بار یہ تجاویز رکھی گئیں کہ اردو صحافتی کورس کی سخت ضرورت ہے۔ ہاں اس ضمن میں اگر کسی نے قابل تعریف بات کی تو وہ انقلاب کے نارتھ انڈیا ایڈیٹر جناب شکیل شمسی نے کہی۔ جن کا کہنا یہ تھا کہ ترجمہ کا فن سکھانے کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے نوجوان صحافیوں کو زیادہ تر ہندی اور انگریزی سے ترجمہ کرنا پڑتا ہے جس میں وہ صحیح زبان اور صحیح الفاظ کا استعمال نہیںکر پاتے ۔ بے شک جہاں اردو کی بڑی بڑی تنظیمیں ، بڑے بڑے ادارے مشاعرے کے نام پر ایک ایک شاعر کو 10سے 12ہزار اور اس سے زیادہ دیتے ہیں، وہ ادارے صحافیوں کو ٹریننگ دینے کا انتظام کیوں نہیں کرتے۔ ہر سیمنار میں قورمہ، بریانی، پلائو، متنجن کھا کر اور ایک لمبی ڈکار لے کر ہم اردو والے ایسے اردو والے، ویسے اردو والے کرتے ہوئے ہم سبھی گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم ان اداروں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ غالب، میر ، مومن کے نام پر بہت کھا لیا ، کما لیا۔ اب کم سے کم اس زبان کی بقاء پر بھی توجہ دے دی جائے اور اس کے نوجوانوں کو بھی زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔دراصل نوجوان صحافیوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی میں ایسے الجھ جاتے ہیں۔ بس زبان سیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ صحافت بھی سیکھ لی۔ اگر ایسے نوجوان صحافیوں کو باقاعدہ تربیت کے ساتھ ساتھ کچھ پیسے بھی دیے جائیں تو پھر ان کے لیے آسانی ہو جائے۔ جہاں تک اردو صحافیوں کی تربیت کا تعلق ہے ، ترجمہ، رپورٹنگ، صفحہ بنانا، نیٹ سے خبروں کا نکالنا، مختلف اہم سائٹ تلاش کرنا، انٹرویو لینا وغیرہ یہ سبھی نئے آنے والے اردو صحافیوں کے لیے سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے بڑے بڑے اداروں کوہی آگے آنا ہوگا۔ اس کانفرنس میں ہفت روزہ نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی صاحب نے کئی مسائل اور تجاویز رکھیں، پر ان کی ایک بات بہت اہم تھی کہ اردو اخبارات کی ایک پروفیشنل تنظیم قائم کی جائے جو اخبارات اور صحافیوں کے حقوق کے لیے لڑ سکے۔ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ آخر اردو اخبارات ہی اس طرح کی کی کسم پرسی کا شکار کیوں ہیں۔سکھ ہم سے کم اقلیت میں ہیں ، پارسی بھی ہم سے کم اقلیت مانے جاتے ہیں ، مگر کبھی ان لوگوں کی طرف سے کوئی واویلا سننے میں نہیں آتا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے وہ یہ کہ ان سبھی مذاہب کے ادارے نیک جذبے کے تحت اپنے کام انجام دے رہے ہیں اور اس جذبہ سے ان کے بڑے بڑے لنگر بھی قائم ہیں۔ہمارے یہاں دیکھئے درگاہوں پر چلے جایئے تو بھکاری آپ کو درگاہ کے دروازے تک قدم نہیں رکھنے دیتے۔ اور لنگر بٹنے کا وقت ہو تو وہ دھکم دھکا اور کھینچا تانی ہوتی ہے کہ توبہ بھلی۔مگر کسی گرودوارہ یا مندر یا گرجا گھر کے باہر آپ نے نہ تو سکھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہوگا، نہ ہی لنگر کے وقت کوئی مارپیٹ دھکم دھکا ہوتے ۔ خیر ہم بھی نہ جانے کیسے اصل موضوع سے بھٹک گئے۔ تو ہم سبھی اردو والے ہر وقت روتے رہتے ہیں، نہ جانے کیوں ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہنا، گروہ بندی کرنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ ایسے میں جذبے کیا کام کریں گے۔اسی کانفرنس میں بے حد سینئر صحافی احمد مصطفی راہی، خالد مصطفی صدیقی،مودودصدیقی، محمد احمد کاظمی، چندر بھان خیال، کفیل احمد، عبد الرحمن، شاہد ماہلی،شکیل انجم ، شکیل حسن شمسی، سہیل انجم،احمد جاوید،معصوم مرادآبادی وغیرہ کافی تعداد صحافیوں کی تھی۔جس میں یقینا کچھ اہم تجاویز نکل کر سامنے آئی ہیں۔ اس کانفرنس میں م۔ افضل صاحب کو کانفرنس کا صدر بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔جو اس لحاظ سے بہت اہم تھی کہ ظاہر ہے تنظیم تبھی کامیاب ہوگی جب اس کا سربراہ چنا جائے اور یقینا م۔ افضل سے بڑھ کر اس کا کوئی حقدار نہیں۔ وہ جب بھی اس تنظیم کو لے کر چلے تو انھوں نے بہت حد تک مثبت کام کیے۔مگر ہمارا بس یہ کہنا تھا کہ بے شک م۔ افضل صاحب کو ہی صدر بنایئے مگر جمہوری ملک میں اگر آپ کسی کو نامزد ہی کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے مگر جب آپ الیکشن کر کے اسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہی طریقہ ٔ کار اپنایا جائے۔ شریف الحسن نقوی نے بڑی اہم بات کہی کہ ہمارے اخبار کے تراشے اگر حکومت اور انتظامی شعبوں تک پہنچ جائیں تو ہمارے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔چند تجاویز اس ضمن میں ہم نے بھی رکھی ہیں اور وہ یہ کہ پرانی دہلی کے لڑکے لڑکیوں کا تلفظ بے حد خراب ہوتا ہے۔پر وہ بھی پرانی دہلی کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر میڈیا کی راہ اپنا رہے ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا میں جا تو رہے ہیں مگر ان کا تلفظ بے حد خراب ہے، اس کے لیے بھی اگر کوئی تربیتی مرکز اندرون فصیل قائم کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ترجمہ کا کورس ضرور کرایا جائے اور علاقائی سطح پر جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی جگہ عام رائج الفاظ کا استعمال سکھایا جائے۔ایک جون اور دو جون دونوں ہی تاریخیں اہم ہیں۔ ایک جون کو یہ کانفرنس ہوئی اور دوجون کو پٹنہ میں ای ٹی وی اردو کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک بڑا سیمنار منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد کافی تھی اور بہت ہی اہم مسائل مسلمانوں کے تعلق سے سامنے آئے۔ اس لحاظ سے ای ٹی وی اردو کی کاوشوں کی ستائش بھی ہونی چاہیے اور ہم اردو والے اور مسلمان احسان فراموش یقینا نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو ہم اس کا احسان بھی مانتے ہیں،اور اس کے لیے اپنی پلکیں تک بچھا دیتے ہیں۔

Friday 10 June 2011

قائد اعظم آئو ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان۔۔۔

وسیم راشد
ابھی کچھ دنوں قبل ہمارے محترم وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’دوست بدلے جاسکتے ہیں، مگر پڑوسی نہیں۔‘‘ ظاہر ہے یہ بات انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کی تھی۔ کہنے کا مطلب کچھ بھی رہا ہو،پاکستان اس وقت ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جب دوست، پڑوسی سبھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ پاکستان جو دنیا کا دوسرا بڑا مسلم اکثریت والا ملک ہے، اس وقت تن تنہا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہر دن نئی مصیبت، نئی پریشانی اور نئی بدنامی کی وجہ سے ایکLost State بن چکا ہے۔ حکومت کیا کر رہی ہے، کیسے چل رہی ہے، کیا بیان دینا ہے، کیا ایکشن لینا ہے، کس کو صفائی دینی ہے، کس کو بچانا ہے، کس کو مارنا ہے، کچھ نہیں پتہ۔ خفیہ ایجنسی کیا کر رہی ہے، افسران کیا کر رہے ہیں، کسی میں کوئی آپسی تال میل نہیں ہے۔ ابھی چند دنوں قبل ملا عمر کے مرنے کی خبر آئی، پھر تصدیق ہوئی کہ وہ مرا نہیں۔ ایسے میں ہمیں ایک شعر یاد آرہا ہے کہ:
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے شک پاکستان کا اندرونی انتشار، اسامہ کی موت، آئی ایس آئی کا کردار، پاکستان کے بحری اڈے پر دہشت گردوں کا حملہ اور 16 گھنٹے کی کارروائی کے دوران ہوئی تباہی، یہ سب وہ پے در پے حادثات ہیں، جنہوں نے پاکستان کے حکمرانوں کو یقینا دیوانہ سا بنا دیا ہے۔ یہاں ہم پاکستان سے ہمدردی نہیں جتا رہے ہیں، مگر آپ خود سوچئے کہ کسی کے گھر میں پے در پے حادثات ہوتے رہیں تو صاحب خانہ غریب دیوانہ تو ہو ہی جائے گا، وہی حال پاکستان کا ہے۔
سبھی حکمراں اپنی کرسی اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں سے پاکستان ڈرون حملے کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ملٹری کمزور، حکمراں بے بس، عوام مہنگائی سے بدحال، نوجوان مستقبل کی فکر سے بوکھلائے ہوئے، یہ ہے اس وقت کا پاکستان۔ پاکستان کی ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں گلنار آفریں۔ انہوں نے کافی عرصے قبل ایک نظم کہی تھی۔
قائد اعظم آؤ ذراتم دیکھو اپنا پاکستان
جس کی بنیادوں کی خاطر
لاکھوں نے دی اپنی جان
جس کی خاطر کھیت جلے کھلیان جلے گھر بار لٹے
ماؤں کے کلیجے چاک ہوئے
جب کڑیل بیٹے خاک ہوئے
پھولوں کا سنگھاسن ڈول گیا
پرواز پرندے بھول گئے
احساس کے جھرنے سوکھ گئے
دریا کی روانی رک سی گئی
یوں خون کی ہولی کھیلی گئی
دشوار بہت تھی راہ طلب
ہر گام مگر ہم ساتھ رہے
ہم بن کے تمہاری شان رہے
ہاتھوں پہ لیے قرآن رہے
جو تم نے کہا وہ ہم نے کہا
لے کے رہیںگے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
قائد اعظم آؤ ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان
میرا خیال ہے، جس وقت کی یہ نظم ہے، اس وقت میں اور اب میں تو پاکستان کی صورت حال بالکل الگ ہے، اب تو پاکستان اسی خطرناک لائن پر آگیا ہے، جس سے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے نہ آگے جاسکتا ہے۔ یقینا محمد علی جنّاح نے جو خواب اسلامی مملکت کا دیکھا تھا، وہ چکناچور ہوچکا ہے۔ آج آئی ایس آئی کے کردار پر بے شمار سوالات لگائے جارہے ہیں۔ یہ بھی الزام ہے کہ اسامہ کو آئی ایس آئی نے ہی پناہ دی ہوئی تھی، اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایبٹ آباد میں پاکستانی فوجی اکیڈمی ہے، پھر اسامہ وہاں 6 سال تک کیسے چھپ سکتا ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی اسامہ ایبٹ آباد میں فوجی اکیڈمی کے پاس رہ رہا تھا تو پاکستانی ملٹری کو میڈل دینا چاہیے کہ وہ کسی طرح نہ اپنے بارڈر کی حفاظت کرسکے اور نہ ہی اتنے بڑے دہشت گرد کا پتہ لگا سکے۔ پاکستان سے شائع مختلف اخبارات پر ہماری لگاتار نظر ہے اور اب جب کہ انٹرنیٹ نے یہ سہولت ہماری میز تک پہنچا دی ہے تو ہم بھی اس کا فراخدلی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کے ایک مشہور اخبار’’دی نیوز‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ کے کچھ مضامین پر ہماری نظر پڑی تو ایک مشہور صحافی ایاز بابر کا ایک مضمون تھا جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان ایک ناکام مملکت ہے۔ اب جب ہیڈلی کے اعترافات کے بعد 26/11 میں ممبئی حملوں میں کس طرح اس نے باقاعدہ نہ صرف لشکر طیبہ بلکہ آئی ایس آئی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہیڈلی نے جس میجر اقبال کو ممبئی حملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے، کہیں یہی شخص تو آئی ایس آئی کا سربراہ نہیں ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان کی انٹر سروسس انٹیلی جنس ہے، جس کا قیام 1948 میں ہوا تھا۔ اس کی Juristiction میں صاف لکھا ہے کہ حکومت پاکستان اس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے۔ پاکستان کی 3 خفیہ ایجنسیاں ہیں، جن میں آئی بی یعنی انٹیلی جنس بیورو اور ایم آئی یعنی ملٹری انٹیلی جنس ہیں۔ جن میں آئی ایس آئی سب سے پہلی ایجنسی ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ ہند-پاک 1947 کی لڑائی کے بعد پاکستان کی تینوں بحری، بری اور ہوائی افواج میں ملٹری انٹیلی جنس کو مضبوط کرنا۔ مگر آئی ایس آئی نے تو اپنے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگادیاا ور دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے والی ایجنسی بن گئی۔ یہ بھی بتایا ہے کہ میجر اقبال نے ہندوستان میں حملے کے لیے مقامات کی نشاندہی کرنے اور پوری طرح ان مقامات کی ویڈیو بنانے اور تصاویر کھینچنے کا کام اس کو سونپا تھا۔ نیشنل ڈیفنس کالج ممبئی دہلی، ممبئی ایئر پورٹ، ممبئی پولس ہیڈکوارٹر، بحری اڈہ اور یہودی کمیونٹی سینٹر سب ہیڈلی کے دہشت گردانہ حملے کی فہرست میں شامل تھے۔ ایک بات یہاں میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ سبھی مقامات بے حد سیکورٹی والے ہیں۔ دہلی کے ڈیفنس کالج میں بھی سخت ترین سیکورٹی ہے پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ کالج کی فلم بھی بنالی گئی۔ پہلی بات تو ایک غیرملکی کو وہاں داخلہ کیسے ملا ہیڈلی کی پوری شباہت اسے بیرونی ملک کا دکھاتی ہے، کیسے اس نے سبھی مقامات کو تصویروں میں قید کرلیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ممبئی حملہ کے لیے خود ہندوستان کی سیکورٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے، لیکن حکومت پاکستان نے کیا آئی ایس آئی کے وجود کو اسی طرح تسلیم کرلیا ہے کہ آئی ایس آئی حکومت پاکستان سے بلند ہوگئی ہے۔ اوبامہ سے ابھی ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ کیا کوئی ہائی ویلیو ٹارگیٹ پاکستان جیسا ملے گا تو آپ تب بھی اسی طرح کریںگے تو اوبامہ نے ایک دم بغیر سوچے سمجھے کہا ہاں۔ لیکن میری اپنی رائے تو امریکہ کے لیے بھی یہی ہے اور دوسرے سپرپاور کے لیے بھی کہ خود ان پر کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ اپنی دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اس کے علاوہ بھی جس پر چاہیں مسلط ہوجاتے ہیں۔ صدام حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے، حسنی مبارک کا زوال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جس میں براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ ضرور امریکہ شامل ہے۔ قذافی کا حال بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور اسامہ کا حشر بھی ہم نے دیکھا ہے۔ دراصل مغربی ممالک دہشت گردی سے متعلق بھی اور ترقی پذیر ممالک سے بھی دوہرا معیار رکھتے ہیں۔ اوبامہ کی جرأت کی داد دیں کہ انہوں نے پاکستان میں گھس کر اپنے دشمن کو ختم کردیا، مگر کیا یہی پالیسی وہ ہندوستان یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ اپنائیںگے؟ اگر یہ ممالک دہشت گردی کی زد میں آتے ہیں تو کیا ممبئی حملہ کے دہشت گردوں کا بھی اوبامہ اسی طرح کسی آپریشن میں صفایا کریںگے؟
چلئے پاکستان کے مستقبل کی بات کرتے چلیں۔ پاکستان کا مستقبل تو یقینا خطرے میں ہے، مگر کیا کوئی وہاں کے غریب عوام کے بارے میں بھی سوچتا ہے؟یہ لوگ جو اچھی تعلیم، اچھی نوکریوں اور پرامن ملک کے متلاشی ہیں، کیا ہے ان نوجوانوں کا مستقبل؟ ایک اور اہم بات کسی زمانے میں پاکستان ہندوستان کا ہی ایک حصہ تھا۔ دونوں ممالک یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب بھی لاکھوں کروڑوں خاندان ایسے ہیں، جن کے ماں باپ انڈیا میں ہیں تو دادا دادی پاکستان میں۔ چچا، تایا، خالہ، ماموں، پھوپھا، پھوپھی، بہن بھائی نہ جانے کتنے ہی رشتے ہیں، جن کی آنکھیں اپنوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں۔ کیا ہوگا ان کا؟ اگر دونوں ممالک کے حالات بہتر نہیں ہوئے تو ان سبھی کو جدائی کی آگ میں جھلسنا پڑے گااور اب بھی کون سے ویزا کے اصول نرم ہیں، پاکستان میں تو ابھی ہندوستانی سفارت خانہ نے ایسا فارم نکالا ہے، جس کو بھرنے میں ہی اور انڈیا سے verify ہو کر جانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ بہت مشکل ہے ویزا ملنا۔ ہندوستان میں پاکستانی ویزا فیس صرف 15 روپے ہیں، مگر دوسرے شہر سے دہلی بار بار آکر ویزا کی جد و جہد میں 15 ہزار لگ جاتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اپنے رشتے داروں کی ڈبڈبائی آنکھیں یاد ہیں، جو رخصت ہوتے وقت ایک ہی سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ کیا اس زندگی میں دوبارہ مل پائیںگے؟ شاید نہیں شاید ہاں، اس کا جواب نہ ہمارے پاس ہے نہ آپ کے پاس، صرف دونوں حکومتوں کے پاس ہے۔

Friday 3 June 2011

حسنی مبارک کی حالت زار : دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت ہو

 وسیم راشد
۔جب انسان اپنی بے پناہ کامیابی کے بعد اس کامیابی کو تنکا تنکا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تب کتنا بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہوگا۔ حسنی مبارک اور ان کا خاندان اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ حسنی مبارک 11فروری 2011 تک دنیا کے چند بڑے حکمرانوں میں شمار ہوتے تھے۔ دنیا میں اس وقت 36 حکمراں ہیں۔ ان حکمرانوں کی دولت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثاثوں سے زیادہ ہے۔ حسنی مبارک اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھے۔ ان کے پاس 70 بلین ڈالر تھے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے ترقی پذیر ملکوں کے بجٹ 70 بلین سے کم ہوتے ہیں۔
حسنی مبارک نے یہ رقم مصر سے کمائی ہے۔ جوانی میں وہ مصری فضائیہ میں ایک عام افسر تھے۔ 14 اکتوبر 1981 میں مصر کے حکمراں بننے پر انہوں نے  اپنے قبلہ کا رخ امریکہ کی طرف کرلیا۔ اس اطاعت و فرمانبرداری کے نتیجے میں انہیں مصر کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا موقع ملا۔ یوروپ اور امریکہ سے ملنے والی امداد پر بھی ہاتھ صاف کرتے رہے۔ یوروپ اور امریکہ کو بھی معلوم تھا کہ ہر پھر کے یہ دولت سوئس بینکوں میں جانی ہے اور سوئس بینکوں میں جمع دولت آج تک کس کو ملی ہے، جو حسنی مبارک کو مل جائے گی؟ حسنی مبارک عالمی بینکوں کے قرضے میں سے بھی بڑا حصہ کھاتے رہے۔ بے شمار ہتھیاروں کے سودوں میں سے بھی بڑی رقم ڈکار گئے۔ بے شمار جعلی کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے دئے۔ مصر میں نئے شہر آباد کئے اس سے بھی بے شمار دولت اکھٹا کی۔ بے نام زمینوں پر قبضے کرتے رہے، بعد میں یہی زمینیں اربوں روپے میں فروخت کیں۔ مصر میں قحبہ خانے، کلب اور دوسرے فحاشی اور عیاشی کے اڈے قائم کیے۔ا س کا ایک مخصوص حصہ بھی ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا تھا۔ حسنی مبارک اپنی پارٹی کے نام پر امیروں سے بڑے بڑے چندے بھی لیتے تھے۔ یہ سرکاری عہدے بھی فروخت کرتے تھے۔ اپنی امریکہ سے وفاداری بھی فروخت کرتے تھے اور اس وفاداری کا معاوضہ بھی قبول کرتے تھے۔ یہ سارے کام وہ اکیلے نہیں کرتے تھے۔ ان کا خاندان بھی ان کی اس تجارت میں شامل تھا۔
حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک فلاحی تنظیموں کے نام پر امراء سے بڑے بڑے چندے وصول کرتی تھیں۔ مہینے میں دو چار پارٹیوں میں امیروں کو مدعو کرکے فلاحی کاموں کے لیے کروڑوں کے چندے وصول کرتی تھیں۔ ان کے اس دھندوں میں دونوں بیٹے جمال مبارک اور علاء مبارک بیوی سوزان مبارک اور ان کی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور ا سکے جنرل سکریٹری صفوت الشریف شامل تھے۔ یہ سب حضرات کسی بھی سرکاری افسر کو برخاست کرسکتے تھے اور اس کی جگہ اپنا منظورِ نظر کا تقرر کرسکتے تھے۔ حسنی مبارک کی دولت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ لندن، پیرس، دمشق اور دوسرے بڑے شہروں میں ان کی جائیدادیں تھیں۔ اکاؤنٹس سوئس بینکوں میں تھے۔ ان کی جائیدادوں کا کرایہ صرف 150 ملین ڈالر آتا تھا۔
30 سال کے اقتدار کے بعد حسنی مبارک نے شرم الشیخ میں پناہ لی۔ دونوں بیٹے اور بیوی بھی نظربندی کی حالت میں ہیں۔ حسنی مبارک پر کرپشن اختیارات سے تجاوز اور لوٹ کھسوٹ اور حریت پسندوں کے قتل عام کے الزامات ہیں اور فوج نے انہیں Prosecutor کے سامنے پیش کردیا۔ یہ Prosecutor ان کا اپنا مقرر کردہ ہے۔ لیکن آج حسنی مبارک اس کے سامنے ملزم کے طور پر پیش ہورہے تھے، جب حسنی مبارک کو ان کے جرائم کی فہرست پیش کی گئی تو ان کو دل کا دورہ پڑگیا۔ ڈاکٹروں نے طویل جد و جہد کے بعد ان کی جان بچالی۔ ان کے دونوں بیٹوں اور اہلیہ کو بھی شرم الشیخ پہنچا دیا گیا۔ حسنی مبارک کی پارٹی پر عدالت نے پابندی لگادی ہے۔ پارٹی کے سارے دفتر سیل ہوچکے ہیں۔ اکاؤنٹس سیز ہوچکے ہیں، پارٹی کے جنرل سکریٹری صفوت الشریف گرفتار ہوچکے ہیں، ان پر غیرقانونی دولت رکھنے، انقلابیوں کے قتل ، کرپشن اور طاقت کے بے جا استعمال کے الزامات ہیں۔ حسنی مبارک کی اہلیہ بھی زیر تفتیش ہیں، جب کہ ان سب کے سوئس اکاؤنٹس اور جائیدادیں سیز ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتا، فوج ان لوگوں کو عوامی غیض و غضب سے بچانے کی کوشش کررہی ہے اور حسنی مبارک اپنی کامیابیوں کا بیڑہ غرق ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،ا نہیں اس ذلت سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ حسنی مبارک جن حکمرانوں کی عبادت کرتے تھے، ان سب نے آنکھیں پھیرلی ہیں۔ جن کے اشاروں پر ہزاروں خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، وہ آج حسنی مبارک کو پہچانتے بھی نہیں۔ جن کی شہ پر مصر کو بے دردی سے لوٹا تھا، وہ آج حسنی مبارک کو جانتے بھی نہیں، ان کے لیے حسنی مبارک تاریخ کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔
حسنی مبارک کا حال ان حکمرانوں کے مستقبل کی طرف اشارہ کررہا ہے، جو طاقت کے نشے میں چور ملکوں کے قومی خزانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ سرکاری عہدے بیچ رہے ہیں۔ کرپٹ ترین لوگوں کو ظلم کے ساتھ مظلوم عوام پر مسلط کر تے ہیں۔ کاش آج کے کامیاب کہلانے والے لٹیرے حکمراں حسنی مبارک کا عسرت و یاس سے بھرا چہرہ دیکھیں۔ آج اس بیچارے کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔ کاش ان حکمرانوں کو معلوم ہوجائے کہ ظلم سے ملکوں کو لوٹنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ اقتدار وہ دولت وہ تکبر جو حسنی مبارک کے پاس تھا، اب کہاں ہے؟ کاش آج کے کرپٹ حکمراں سوچیں کہ یہ دولت شہرت کامیابی اقتدار کب تک رہے گا۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اقتدار دولت و عزت دے تو اسے چاہیے کہ انصاف کرے، اگر تم انصاف نہیں کروگے تو تمہارے ساتھ جلد ہی انصاف کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ انصاف نہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیتا ہے اور جو لوگ انصاف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ابدی عزت عطا فرماتا ہے۔ آج کے ظالم حکمرانوں کو نیلسن منڈیلا نظر نہیں آتے۔ نیلسن منڈیلا 27 سال جیل میں رہے، جس میں سے 12 سال قید بامشقت اور 15 سال قید کے بعد جب رہائی ملی تو 5 سال اقتدار میں رہنے کے بعد اب ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ ضرورت مند غریبوں، بیماروں کے مسیحا ہیں۔ دنیا کا ہر انسان ان کی عزت کرتا ہے ان سے محبت کرتا ہے، جب وہ اپنی رہائش گاہ سے باہر آتے ہیں تو لوگ بہت مؤدب الفاظ میں ان سے سلام و دعا کرتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے ڈالر نہیں کمائے، جائیدادیں نہیں بنائیں سوئس اکاؤنٹ نہیں کھلوائے۔
آج کے بے انصاف ظالم لٹیرے حکمرانوں کو تاریخ کے ان لوگوں پر نظر ڈالنی چاہیے جو آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور جن کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ خلفاء راشدین، عمربن عبدالعزیز، مہاتما گاندھی، محمدعلی جناح وغیرہ ایسے نام ہیں جن کو احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ ایسے ظالم جابر لٹیرے ناانصاف حکمرانوں کو ایک انگوٹھی پہنا دی جائے جس پر لکھا ہو ’’یہ وقت زیادہ دیر نہیں رہے گا‘‘ یہ دراصل ایک حکایت ہے کہتے ہیں پہلے زمانے میں ایک نیک بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے دانشور وزیرسے کہا کہ میرے انگوٹھی پر ایسی عبارت لکھواؤ جس کو پڑھ کر جب  میں پریشانی میں ہوں تو پریشانی کم ہوجائے اور جب زیادہ خوش ہوں تو خوشی زیادہ نہ رہے۔ اس کے دانشور وزیر نے اس کی انگوٹھی پر لکھوایا’’یہ وقت زیادہ دیر نہیں رہے گا‘‘ لیکن اقتدار کے نشے میں چور، ناانصاف، ظالم اور لٹیرے حکمرانوں کے لیے شاید یہ انگوٹھی بھی کارگر ثابت نہ ہو، کیوں کہ وہ لوگ تو اپنے آپ کو حکمراں سمجھنے لگتے ہیں۔
دراصل حکمرانی کا دعویٰ ہی خدائی دعویٰ ہے۔ فرعون نے بھی حکمرانی کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ نظام میں چلاتا ہوں، فرعون اور اس جیسے خدائی دعویٰ کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کائنات کا خالق میں ہوں۔ اس کا دعویٰ صرف حکمرانی کا دعویٰ تھا اور یہی دعویٰ خدائی دعویٰ ہے۔ یہی دعوے آج کے حکمراں کرتے ہیں۔