Monday 27 June 2011

سارا پیسہ لیڈروں کی جیب میں۔۔تو عوام کا کیا ہوگا؟

وسیم راشد
عوامی جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک کے عوام حکومت وقت سے خوش ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے انھیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ کانگریس کا یوں تو نعرہ ہے ’کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ‘، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہری سے آپ جاکر پوچھ لیں کہ کیا وہ موجودہ حکومت سے خوش ہے، تو آپ کو شاید ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا، ’نہیں‘۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو ہر گلی کوچے میں ہر شخص یہ کہتا ہوا بھی نظر آ جائے گا کہ ’کانگریس کی حکومت جب جب آئی، کمر توڑ مہنگائی لائی‘۔ تعجب ہے کہ جس پارٹی کے اندر منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی اور مونٹیک سنگھ آہلو والیہ جیسے ماہر اقتصادیات ہوں وہ پارٹی مہنگائی پر قابو نہ کرسکے۔ بی جے پی کو لوگ بنیوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن کانگریس کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے۔ بدعنوانی کی بات کریں تو، کانگریس کی قیادت والی موجودہ یو پی اے حکومت نے ملک کے اندر گھوٹالوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حکومت کا ایک سابق وزیر اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے اور کتنے لیڈر ایسے ہیں جو جیل جانے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ انا ہزارے نے ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کی جب مہم چلائی اور بابا رام دیو نے جب ملک کے عوام کو ہندوستان کے قلب، دہلی میں لاکر جمع کردیا اور حکومت کو کھلی چنوتی دی، تو اقتدار کی چولیں ہل گئیں، ہر وزیر بغلیں جھانکنے لگا۔ آخر کانگریس بدعنوانی مخالف اس عوامی مہم سے اس قدر خائف کیوں ہے۔ اس کا خوف ہی اس کے گناہ کو ثابت کر رہا ہے۔ معاملہ چاہے دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران پیسوں میں کی گئی ہیرا پھیری کا ہو یا پھر سوئس بینک میں جمع کالے دھن کا، اگر کسی روز اس میں ملوث تمام افراد کے نام سامنے آئیں گے، تو اس میں گانگریس کے لیڈروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی کیوں کہ اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کانگریس نے ہی کی ہے۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز، اے او ہیوم نے ڈالی تھی، اور ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے تھے، لیکن انھوں نے یہاں کی بے پناہ دولت کو لوٹنے کے لیے ایوان اقتدار کو اپنے قابو میں کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہندوستان کی دولت انگریزوں کے ذریعہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی جانے لگی۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کانگریس کا یہی حال ہے۔ چہرے بدل چکے ہیں، لیکن نیت وہی ہے۔ دولت کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ لیڈر بن جائیں، اس کے بعد کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آپ کو جائز و ناجائز کسی بھی کام سے روک سکے۔ کانگریس کے اندر ایسے لیڈر ایک ڈھونڈنے سے ہزار ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے موڈ کو بھانپ کر یہ لوگ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر عوام کے اندر بیداری پیدا ہوگئی تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔کسی گاؤں دیہات کے چھوٹے موٹے لیڈر کے پاس اگر آپ یہ تجویز لے کر جائیں کہ فلاں جگہ اسکول کالج نہیں ہیں، بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے ان کے والدین کو پیسوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے، آپ برائے کرم یہاں پر کوئی اسکول یا کالج بنوادیں، تو آپ کو جواب فوراً نفی میں ملے گا۔ ہاں، البتہ وہ لیڈر آپ سے یہ ضرور کہے گا کہ بھلا پڑھ لکھ کر آپ کے بچے کیا کریں گے،ان کے کھیلنے کودنے کے لیے اسپورٹس کمپلیکس بنوا دیتا ہوں، کارخانے لگوا دیتا ہوں جہاں پر ان بچوں کو نوکریاں مل جائیں گی اور ان کی گزر بسر کا انتظام ہو جائے۔ کبھی آپ نے ایسے جواب کے پیچھے چھپے اسباب کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ لیڈر نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں، کیوں کہ تعلیم سے بیداری پیدا ہوتی ہے، اپنے حقوق کو لوگ پہچاننے لگتے ہیں، بڑے ہوکر یہی بچے جب ان لیڈروں سے ان کے گناہوں کا جواب طلب کریں گے تو ان کی مشکلیں بڑھ جائیں گی، اسی لیے وہ ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ملک کے اندر بنیادی تعلیم کا قانون پاس ہو چکا ہے، لیکن جب اسکول ہی نہیں رہیں گے تو پھر تعلیم کا کیا مطلب ہے۔ جو اسکول اور کالج موجود ہیں، ان میں اساتذہ کا ہی تقرر نہیں کیا جائے گا، تو پھر حق تعلیم کا قانون تو بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان کے لیے ارباب اقتدار میں نشستیں محفوظ کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پنچایتی نظام میں تو عورتوں کو پچاس فیصد ریزرویشن دیا بھی جا چکا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ خواتین پر ظلم و ستم کے سلسلے اب بھی جاری ہیں۔ یوپی میں مایاوتی کی سرکار ہے، لیکن وہاں آج بھی عورتوں کی عزت سر عام لوٹی جا رہی ہے اور بیچاری بہن جی کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی یوپی کے لکھیم پور کھیری ضلع کے نگھاسن تھانہ میں 14 سالہ نابالغ لڑکی کی پولس کے ذریعہ عصمت دری کرنے اور پھر اسے مار کر ایک درخت سے لٹکانے کا سنسنی خیز واقعہ سامنے آیا ہے، جو مایاوتی حکومت کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں، یہاں بھی آئے دن عورتوں کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور جب شیلا جی سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت میں عورتیں محفوظ نہیں ہیں، تو وہ لڑکیوں کو دیر رات گھر سے نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ایک طرف تو آپ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں اونچے مقام پر بٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور پھر دوسری طرف آپ ہی انہیں دیر رات گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیتی ہیں، یہ بھلا ممکن کیسے ہے۔ کال سنٹر میں لڑکیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے اور انہیں رات کے وقت ہی اپنے آفس جانا یا پھر آفس سے گھر آنا پڑتا ہے، یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انہیں پوری سیکورٹی فراہم کریں۔
کانگریس کی حکومت میں پولس کا رویہ سب کو معلوم ہے۔ ہمارے ملک کا پولس نظام انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پولس کا صرف ایک کام تھا، معصوم ہندوستانیوں پر ظلم ڈھانا۔ لیکن آج جب انگریز نہیں ہیں تو پھر پولس کے اس فرسودہ نظام کو درست کیوں نہیں کیا جاتا۔ ملک کے دانشور طبقہ کی یہ رائے ہے کہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے زیادہ تر واقعات میں پولس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی علاقے میں لوٹ مار کی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے تو اس میں ملوث شر پسند عناصر پولس کو پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔ لیکن اگر عام شہری پولس کے پاس چوری کے کسی واقعہ کی رپورٹ لکھوانے جائے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہیں کسی با رسوخ آدمی کا فون پولس کے پاس آ جائے تو پولس چوری کے سامان کو چوبیس گھنٹے میں برآمد کر لیتی ہے، آخر کیسے؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ چوروں اور غنڈوں کی طرف سے پولس کو چوری کے مال سے کمیشن مل جاتاہے، اس لیے وہ اکثر ایسے واقعات کے بعد خاموش ہو جاتی ہے۔ پولس اگر چاہے تو ملک کے کسی بھی حصہ میں پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ لیکن پولس کام اس لیے نہیں کرتی کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اگر پولس کے لوگ ایماندار ہوگئے تو پھر لیڈروں تک وصولی کا پیسہ کیسے پہنچے گا۔ اسی لیے کسی جرم کو ہوتا ہوا دیکھ کر بھی پولس آنکھیں موند لیتی ہے۔
ملک کا عام آدمی سرکار کے اس اندھے بہرے قانون سے کافی پریشان ہے، ملک میں قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں پر اس قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، اگر وہی بے ایمان ہو جائیں تو پھر کون کیا کر سکتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا پڑے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد ان لیڈروں کو جھولی پھیلاکر عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے اور ووٹ کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، لیکن یہی گداگر جب بڑا عہدہ پاجاتے ہیں تو پھر عوام کو اپنی بوٹوں تلے روندنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر ملک کے اندر کسی عوامی انقلاب کی ایسی آندھی چلے کہ کوئی لیڈر بچے ہی نہیں۔ یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے لیڈر اپنا محاسبہ خود کریں اور عوام کی نبض کو پہچانیں، ملک کے وفادار بنیں اور ایسی کوشش کریں کہ اس ملک میں ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو، وہ ہر طرح سے مضبوط بنیں تاکہ ان کے اوپر کوئی ظالم حکمراں نہ مسلط ہو سکے۔
انّا ہزارے اور بابا رام دیو کی تحریک اور اسے ملنے والی عوامی حمایت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف پورے ملک میں ایک چنگاری سلگنے لگی ہے، یہ کب ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرلے ، کسی کو نہیں معلوم۔ حکومت کی طرف سے حالانکہ اسے کچلنے کی پوری تیاری چل رہی ہے، لیکن یہ تحریک اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے اسے انقلاب کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اگر وہ چاہے تو تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہے، مسائل کے حل کے ذریعہ ہی عوام کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے۔ سرکاری نظام میں جہاں جہاں اور جو جو خامیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے۔ سرکار اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہم اپنے ملک کو جنت نشاں بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیسوں کی کمی نہیں ہے، نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے، کمی اگر ہے تو صرف صدق دلی کی، قوت ارادی کی، ملک کے تئیں وفاداری کی۔ اگر سرکار آج سے ہی ایمانداری سے اپنا کام شروع کردے اور عوام کی خدمت کے فریضہ کو انجام دینا شروع کردے تو پھر ہم ایک سنہرے ہندوستان کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جب تعلیم کا بول بالا ہوگا، صاف و شفاف سرکاری نظام ہوگا تو چوری، ڈکیتی، عصمت دری اور اس جیسے زیادہ تر جرائم خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ ہندوستان عالمی پیمانے پر اپنا قائدانہ رول ادا کرے، لہٰذا ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے اندر کی کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا پڑے گا۔ وقت کی یہی آواز ہے، ہمارے لیڈران اس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہے۔

No comments:

Post a Comment