Wednesday 27 July 2011

کابینہ میں نئی ردوبدل، بے وقت کی راگنی

وسیم راشد
وزیراعظم منموہن سنگھ نے حالیہ دنوں میں دوسری بار اپنی کابینہ میں ردو بدل کی ہے۔ اس ترمیم میں کچھ نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں تو کچھ پرانے وزراء کو فارغ کردیا گیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ترقی دے کر کابینی درجے کا وزیر بنا یا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 نئے چہروں کو قلمدان دیے گئے ہیں جبکہ 7کو  باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ در اصل منموہن سنگھ پر حزب اختلاف کے ساتھ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی جانب سے ایک عرصے سے یہ تنقید کی جارہی تھی کہ وہ گزشتہ حکومت کے مقابل اس بار سست روی کے شکار ہوگئے ہیں، ساتھ ہی ان پر یہ بھی الزام تھا کہ ان کے کئی وزراء اپنی ذمہ داریوں کوبہتر ڈھنگ سے نہیں انجام دے رہے ہیں۔ اس تنقید سے بچنے کے لیے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں ردو بدل کیا ہے ۔کابینہ میں ان کے اس رد وبدل کو الگ الگ نظریے سے دیکھا جارہا ہے۔کوئی اسے عوام میں کانگریس کی بگڑتی ساکھ کو بحال کرنے اور آنے والے سال میں اتر پردیش میں ہونے والے عام انتخاب کی تیاریوں کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے عوام کو بہلانے کے لیے ایک لالی پاپ سے تعبیر کررہا ہے۔حقیقت جو بھی ہو، لیکن منموہن سنگھ کے اس ردو بدل سے یہ اشارہ تو مل ہی رہا ہے کہ ان پر سست روی کا اوران کی پارٹی پر بد عنوانی اورمہنگائی پر قابو نہ پانے کا جو الزام لگتا رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے یہ ایک حتمی اور آخری کوشش کی گئی ہے،تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اس ردو بدل کے بعد اب ملک کے اندر پھر کبھی کوئی 2 جی اسپکٹرم  نہیں ہوگا،اور نہ ہی آدرش گھوٹالے جیسے واقعات ہوں گے اور نہ ہی کوئی وزیر دولت مشترکہ کھیلوں میں گھپلے کے الزام میں شک کے دائرے میں آئے گا ۔اگر انہوں نے واقعی ایسا ہی سوچا ہے تو ان کی یہ حکمت عملی کچھ کارگر نظر نہیں آرہی ہے،کیوں کہ چند وزراء کو تبدیل کردینے سے مسائل کا حل نہیںنکالا جاسکتا۔ بلکہ اس کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کلیدی وزارتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ وزارتیں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہی ہیں۔ اگروہ اس میں کامیاب نہیں ہورہی ہیں تو ان وزارتوں میں ہی اصلاح و ترمیم کی جائے۔ ایسا اس لیے کہ کسی بھی حکومت کی شبیہ کو عوام میں  بہتر بنانے کے لیے انفرادی طور پر وزراء کے فیصلے کا بہت بڑا رول نہیں ہوتا بلکہ اس میںمجلس وزراء کا بڑا رول ہوتا ہے اور چونکہ اب بھی پرانے لوگوں کا دبدبہ قائم ہے اور کلیدی وزارتوں میں پرانے چہرے ہی موجود ہیں لہٰذا اس معمولی تبدیلی سے کسی بڑے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔دوسری اہم بات یہ کہ وزیر اعظم کو قلمدانوں کی تقسیم کے وقت ملک کی 29 ریاستوں کی نمائندگی اور آبادی کے تناسب کا خاص خیال رکھنا چاہیے،جو اس ردو بدل میں نظر نہیں آرہا ہے۔بلحاظ آبادی مسلمانوں کو نمائندگی دینے سے موجودہ حکومت قاصر رہی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رد وبدل کا یہ عمل اب بھی ہر خطے اور ہر طبقے کو مطمئن کرانے میں پوری طرح ناکام ہے۔ایسی صورت میں جن طبقوں یا جن ریاستوں کو مناسب نمائندگی نہیں مل سکی ہے اس کے لیے منموہن سنگھ کا رویہ کیا رہتا ہے اور ان ریاستوں اور طبقوں کو وہ کس طرح خوش رکھ پاتے ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ محض چند چہروں کی تبدیلی سے حکمرانی کے نظام میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔
ممکن ہے فی الوقت وزیر اعظم کی نگاہ اتر پردیش میں ہونے والے انتخاب پر ہو، اور اسی کو مدّنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس نئے رد و بدل کو انجام دیا ہو۔اگر ایسا ہے تو اس میں بھی انہیں کوئی خاص کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے،کیوںکہ ایک طرف ان کے اس عمل سے یوپی کے کانگریسی کارکنان خاص طور پر راجپوت برادری کے لوگ نالاں نظر آرہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یوپی میں راجپوت ووٹروں کی بڑی اہمیت ہے،اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مایا وتی نے پچھلے انتخاب میں 10 راجپوتوں کو ٹکٹ دیا تھا،جن میں 4 راجپوت اس وقت ممبر پارلیمنٹ ہیں،لیکن منموہن سنگھ نے حالیہ ردو بدل میں راجپوتوں کو کوئی نمائندگی نہیں دی،جس کا منفی اثر آنے والے الیکشن پر پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف نئے چہروں میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے مسلم کارکنان بھی مایوسی کے شکار ہیں،ایسے میں آنے والا الیکشن کانگریس کے لیے کوئی خوشخبری لے کر آئے گا، یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ساتھ ہی سلمان خورشید جو وزارتِ اقلیتی امور کی دیکھ بھال کررہے تھے، انہیں وزارتِ قانون دے دی گئی ہے اور اقلیتی امور کی ذمہ داریاں بطور اضافی ان کے پاس رہنے دی گئی ہیں۔اس سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ حکومت کو اقلیتی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے،اگر دلچسپی ہوتی تو اقلیتی امور کی وزارت کسی نئے وزیر کو باضابطہ طور پردی جاتی۔ اگرچہ خود وزیر اعظم کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے مگر ممکن ہے یہ فیصلہ انہیں کانگریس ہائی کمان کے دبائو میں آکر کرنا پڑا ہو۔
اگر وزیر اعظم وزارتوں میں ردو بدل کرکے واقعی ملک میںخوشحالی لانے اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے ان وزراء کو باہر کا راستہ دکھانا چاہیے تھا جن پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح بد عنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، کیوں کہ جب تک یہ وزراء کیبنٹ میں شامل رہیں گے اس وقت تک عوام کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کئی ایسے وزراء جن کو عام آدمی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کو بھی اہم قلمدان تفویض کردیے ۔ان کے اس فیصلے کو سیاسی مبصرین بے یقینی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، انہیں نہیں لگتا کہ اس رد و بدل سے حکومت مہنگائی یا بد عنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، البتہ کانگریس کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اس فیصلے کو ایک عمل لاحاصل سے تعبیر کرکررہا ہے۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سید شاہ نواز حسین کہتے ہیں کہ پو پی اے حکومت داغدار، اور لاسمتی کی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کابینہ سے وزیر داخلہ پی چدمبرم، وزیر مواصلات کپل سبل اور ولاس راؤ دیش مکھ کو نہیں ہٹایا،جبکہ مسٹر چدمبرم بھی 2 جی اسپکٹرم کے گھوٹالے میں اتنے ہی خطاکار ہیں جتنے کے وزیر مواصلات اے راجا۔ اسی طرح کپل سبل نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے جرمانہ کی رقم میں زبردست کمی کرکے اسے راحت دی اور ولاس رائو دیش مکھ کا نام آدرش ہائوسنگ سوسائٹی کے گھوٹالہ کے سلسلے میں آیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام کو اس بات کی امید تھی کہ وزیر اعظم داغدار وزیروں کو باہر کا رستہ دکھائیں گے مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
اگر غور کیا جائے تو سیاسی مبصرین کے یہ نظریات حقیقت کے بہت قریب ہیں، کیوں کہ منموہن سنگھ نے جو نئی کابینہ تشکیل دی ہے یہ محض دکھاوے کا ایک عمل لگتا ہے، جس میں وزارتیں تو منتقل کی گئی ہیں،نئے چہرے توشامل کیے گئے ہیں لیکن ان سے کوئی نئی امید نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ اگر یہ تشکیل عوامی فائدے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی تو وزارتوں میں جو ردو بدل ہوا ہے اور کچھ وزراء کے قلمدان منتقل کیے گئے ہیں ،ان میں عوامی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں عوامی ضرورتوں سے زیادہ پارٹی کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے اور وزارت کی اٹکل پچو تقسیم کردی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جے رام رمیش جن کے پاس ماحولیات کی وزارت تھی، اور جنہوں نے متعلقہ وزارت میں کئی اہم فیصلے اور اقدامات کیے،لیکن ان سے ماحولیات کی وزارت چھین کر دیہی ترقیات کی وزارت سونپ دی گئی، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ماحولیاتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کو منظوری دینے میں مزاحمت کی تھی،جس کی وجہ سے حکومت کو بے چینی محسوس ہورہی تھی لہٰذا ان سے یہ وزارت لے کر مزاحمت کے دروازے بند کردیے گئے ۔وزیر قانون ویرپا موئیلی کے قلمدان کی تبدیلی میں بھی سیاست کا ہی اثر دکھائی دیتا ہے،کیوںکہ لوک پال بل کے معاملے سمیت کئی امور پر دیگر وزارتوں کے ساتھ ان کی نہیں بن رہی تھی۔حکومت یہ چاہتی تھی کہ سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہو اور لوک پال بل میں وہی نکات شامل ہوں جو کانگریس کے لیے بارآور ہوں،ظاہر ہے موئیلی کے اختلاف کی وجہ سے کانگریس کے لیے پریشانیاں پیدا ہورہی تھیں لہٰذا ان سے وزارت قانون لے کر ان پریشانیوں کا سد باب کردیا گیا۔ گویا کابینہ کی نئی رد و بدل میں عوامی فائدے کم اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے عزائم زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ نیا ردو بدل کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے ہوا ہے یا عوامی و قومی فائدوں کے لیے۔

No comments:

Post a Comment