Thursday 24 March 2011

مناتے رہئے یوم خواتین اور کرتے رہئے انہیں کا دامن داغدار


waseem rashid 
وہ ہفتہ تھا یوم خواتین کا یعنی اس ہفتے میںایک دن پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن مانا جاتا ہے اور منایا جاتا ہے یعنی 9 مارچ اور 9 مارچ کو ہی کئی خبریں ایک ساتھ سامنے آئیں۔ وہ خبریں اس طرح ہیں۔

راجدھانی میں طالبہ اور ضعیفہ کا قتل یعنی یوم خواتین کے ہی دن دہلی یونیورسٹی کی طالبہ کو گولی مار کر قتل کردیا گیا اور ساتھ ہی ایک 83 سالہ بزرگ خاتون کا بھی قتل ہوگیا۔ ایک طرف ایک نوجوان لڑکی صرف اور صرف 22 سال کی، اندازہ لگانے والے بھی ظاہر ہے نوجوان لڑکی کے حساب سے ہی اندازہ لگارہے تھے، جس میں سب سے پہلا اور مضبوط اندازہ یقینا یہی تھا کہ معاملہ محبت کا ہی رہا ہوگا، لڑکی کا انکار لڑکے کی ہار۔ لڑکی کی بے وفائی لڑکے کی بدلے کی آگ وغیرہ۔ مگر دوسری طرف بھلا 85 سالہ ضعیفہ سے کسی کی کیا دشمنی ہوسکتی تھی؟ یہاں تو نہ معاملہ محبت کا ہوسکتا ہے نہ ہی بے وفائی کا۔ ہاں جائیداد، خاندانی جھگڑے ہوسکتے ہیں، مگر ایک 85 سالہ ضعیفہ کو مارنا کوئی بہادری نہیں ہے۔ اس ہفتے کی دوسری خبروں پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ ساگر پور میں ایک پانچ سالہ معصوم بچی کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے اور پھر اینٹ مار مار کر اسے مردہ سمجھ کرچھوڑ کر مجرم چل دیتے ہیں۔ دہلی کے جگت پوری میں ایک انجینئرنگ کالج کی پروفیسر اور طالبہ کے ساتھ چھیڑ خانی کا واقعہ، جس میں غازی آباد کے ایک انجینئرنگ کالج کی ایک پروفیسر کو انہی کے کرائے دار نے راستے میں روک لیا اور چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کی۔ 17 سالہ طالبہ کو بھی ایک لڑکے نے راستے میں چھیڑا اور جب اس لڑکی نے شور مچایا تو اس پر تیزاب ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی۔
یہاں ان سبھی خبروں کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ منارہے ہیں یوم خواتین۔ پورے ہفتہ خواتین کے اعزاز میں لاکھوں روپیہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اپنی انہی تنظیموں، اداروں، این جی اوز اور مختلف انجمنوں کو جو یوم خواتین منانے کے لیے لاکھوں روپیہ مل رہا ہے، اس کا 10 فیصد خرچ کر کے ایسی ایسی خواتین کو تلاش کیا جارہا ہے جو سماجی اور سیاسی حیثیت سے اس ایوارڈ کی حق دار ہوں اور ان پر کوئی حرف نہ آسکے کہ بھئی پیسے کا صحیح استعمال نہیں ہوا، مگر کیا 2 گھنٹے کا پروگرام کرنے، ایک دن منانے یا ایک ہفتہ منانے سے خواتین کی حالت میں کوئی سدھار پیدا ہوا؟ کیا اس کا کوئی مطلب نکلا؟ سیدھی بات ہے جب تک ہم اپنے بچوں اور نئی نسل کو عورت کا احترام کرنا نہیں سکھائیںگے، جب تک اس کے تقدس کی حفاظت ہماری نوجوان نسل کرنا نہیں سیکھے گی، تب تک آپ کتنے ہی دن منا لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم فیل ہوگئے ہیں اپنی نوجوان نسل کو عورتوں کا احترام کرانے میں۔ ہم فیل ہوگئے ہیں اپنے بچوں کو عورت کا تقدس برقرار رکھنے کی کوشش میں۔ ہم فیل ہوگئے ہیں عورت کو بازار کی چیز نہ سمجھ کر، جسم نہ سمجھ کر، ماں بہن، بیوی، بیٹی بنانے میں اور ہماری یہ ناکامی صرف اور صرف ہماری وجہ سے ہے۔ ہم نے اس نوجوان نسل کو پوری آزادی دی۔ اچھے سے اچھے اسکولوں میں پڑھایا، ان کو انگریزی کی تعلیم دلائی، ان کو ناچ رنگ کی محفلوں میں جانے کی اجازت دی، مگر ہم نے ان کو پہلا درس یہ نہیں دیا کہ تم کو جنم دینے والی عورت بے شک صرف تمہاری ماں ہے، مگر وہ ہر گھر میں ہر سماج میں مختلف ناموں سے جانی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو عورت کا احترام کرنا نہیں سکھایا۔ ہمارا معاشرہ عورت کو اب بھی وہ مقام نہیں دیتا اور صرف ہندوستان میں ہی کیا پوری دنیا میں عورتوں کی حالت خراب ہے، مگر ہم کو پہلے اپنے گھر کو دیکھنا ہے۔ اپنے ملک کو اور اپنے شہر کو دیکھنا ہے اور ہمارے شہر میں حالت یہ ہے کہ پورے ملک میں ہورہی عصمت دری میں سے ہر چوتھا معاملہ دہلی کا ہے۔ 2009 میں تقریباً 460 کے قریب عصمت دری، خواتین کے اغوا وغیرہ کے معاملات سامنے آئے اور 2010 میں 500 کے قریب زنابالجبر کے واقعات ہوئے ہیں۔ 2010 کے اعداد وشمار لیں تو تقریباً 3544 خواتین اغوا ہوئیں، جن میں دہلی کی ہی تقریباً 1389 خواتین ہیں۔ اب آجائیے دہلی پولس کے تازہ اعداد و شمار پر جس کے مطابق ہر 8 گھنٹے میں خواتین کے ساتھ زنابالجبر اور ہر 4 گھنٹے میں چھیڑ چھاڑ کا واقعہ ہوتا ہے۔ دہلی کا اتنا برا حال کیوں ہے؟ دہلی کی خواتین کیا زیادہ خوبصورت ہیں؟ دہلی کی لڑکیاں کیا زیادہ سیکسی لباس پہنتی ہیں؟ دہلی کی لڑکیاں کیا دوسرے شہروں کے مقابلے زیادہ دیر رات تک گھر لوٹتی ہیں؟ ان سب کا جواب یہ ہے کہ دہلی سے زیادہ فیشن ممبئی میں ہے، مگر وہاں کے اعداد و شمار دیکھیں تو دہلی کے مقابلے کم ہیں۔ اس وقت میری خواہش یہی تھی کہ پورے اعداد و شمار دیے جاتے، مگر اعداد و شمار دے کر اپنی قابلیت یا اپنی معلومات کا اظہار کرنے سے بہتر یہی ہے کہ وجوہات کا اندازہ لگایا جائے کہ آخر دہلی ہی سب سے زیادہ اس کی زد میں کیوں ہے؟ جب کہ یہاں کی وزیراعلیٰ خود ایک خاتون ہیں۔ مگر اس بار وہ بھی خاص فکر مند نظر آرہی ہیں اور انہوں نے دہلی کے پولس کمشنر کو اس الزام پر کہ دہلی والوں کا جنس پر الگ رویہ ہے کافی سرزنش بھی کی ہے، مگر شیلا جی سے ہم ہاتھ جوڑ کر التماس کرتے ہیں کہ آپ دہلی میں ہر علاقے ہر محلہ میں موبائل وین لگائیے تاکہ پولس ہوشیار رہے۔ ہفتے اور اتوار کی رات کو رئیس گھر کی بگڑی ہوئی لڑکیاں زیادہ نکلتی ہیں۔ ایسے میں زیادہ پولس فورس اور موبائل وین کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو تو آپ کچھ کہہ نہیں سکتے، مگر یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بچیوں کو قابل اعتراض لباس زیب تن کرنے سے روکیں۔ وہ لباس جس سے کہ جذبات برانگیختہ ہوں ایسے لباس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ والدین پر اور خاص کر بھائیوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ کم سے کم اپنی بہنوں کو خود لانے لے جانے کا انتظام کریں۔ جو لڑکیاں رات کو نوکری کر کے واپس آتی ہیں، ان کی حفاظت کا جب تک بھر پور انتظام نہ ہو، ان کو ایسی جگہ نوکری نہ کرنے دیں۔ اگر بحالت مجبوری لڑکیوں کو نوکری کرنی پڑ بھی جائے تو پھر گھر والوں کو اعتماد میں لے کر۔ اگر آفس میں دیر ہوجائے تو وہیں رک جائیں۔ حالانکہ شیلادیکشت کہنے کو تو بہت ہی فکر مند دکھائی دے رہی ہیں، مگر ان کا یہ بیان کہ اگر اس شہر کی لڑکیوں اور خواتین کو محفوظ رہنا ہے تو اول تو گھر سے ہی نہ نکلیں اور اگر نکلیں تو شام ہونے سے پہلے گھر لوٹ جائیں۔ بڑا ہی مضحکہ خیز بیان ہے۔ شیلا جی سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ کی تو وہی مثال ہوگئی کہ شہر کی بتیاں گل کرو راجہ جی کی آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ بھئی پولس کی ناکامی کی وجہ سے پورے شہر پر منحوسیت طاری کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر لڑکی عیاشی یا اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے کے لیے نہیں نکلتی۔ بہت سے گھر ایسے بھی ہوںگے جہاں کوئی لڑکا نہیں ہوگا۔ بہت سے گھر ایسے ہوںگے جہاں مجبوراً لڑکی کو نوکری کرنی پڑرہی ہوگی۔ ایسے میں صرف اپنے سسٹم کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں صدر خاتون ہیں، ہندوستان کی راجدھانی کی وزیراعلیٰ خاتون ہیں،لوک سبھا اسپیکر خاتون ہیں، سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی چیف منسٹر خاتون ہیں، ریلوے کی وزیر خاتون ہیں۔ یوپی اے کی چیئرپرسن خاتون ہیں۔ اتنی خواتین کے ہوتے ہوئے ہندوستان اور خاص کر دہلی میں عورتوں کے جرائم کا گراف اوپر جانا شرم کی بات ہے۔
ہم لمبی چوڑی باتیں کرنا نہیں جانتے۔ سنی سنائی باتیں کرنا نہیں جانتے۔ ہم عملی کام کرنا اور عملی اقدامات پر عمل کرنا جانتے ہیں اور عملی قدم یہی ہے کہ پولس، انتظامیہ، حکومت، ریاستی حکومت سب کو مل کر سوچنا ہوگا۔ اگر پولس کو ہی قابل اعتماد بنا دیا جائے تو یہ بڑی جیت ہوگی، کیوں کہ سب سے زیادہ لااعتبار پولس ہی ہے۔ عوام سب پر بھروسہ کرلیتے ہیں، مگر پولس پر نہیں۔ ہمارے لیے یہی لمحۂ فکریہ ہے کہ کیسے خواتین کو محفوظ رکھا جائے۔

Monday 21 March 2011

لیبیا میں مداخلت کی فراق میں امریکہ

وسیم راشد
امریکہ نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ لیبیائی باغی کرنل محمد قذافی کی فوج سے کسی بھی شکل میں جیت نہیں پائیں گے، چاہے انہیں امریکی حمایت اور اسلحہ بھی فراہم کر دیا جائے۔ امریکہ انتظار میں ہے کہ باغیوں کی طرف سے ذرا سا مدد کا اشارہ مل جائے تو انہیں امریکی کارگو ہیلی کاپٹروں اور طیارہ بردار جہازوں کے ذریعہ لیبیائی افواج کی سرکوبی کے لیے اسلحہ اور گولا بارود فراہم کر دیا جائے اور دوسری جانب لیبیائی ساحلوں کے پاس موجود امریکی تباہ کن بحری جہازوں پر سوار امریکی میرینز کو بھی لیبیا میں داخل کر دیا جائے، لیکن الشروق اور الیوم السابع سمیت کئی اخبارات و جرائد کا ماننا ہے کہ لیبیائی باغیوں نے امریکہ کی طرف سے اسلحہ اور لاجسٹک حمایت کی پیش کش کو ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ خود اس قابل ہیں کہ وہ خود لیبیا کو قذافی کے پنجے سے آزاد کرا لیں گے او ر اس میں انہیں امریکہ یا کسی بیرونی طاقت کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی تجزیاتی رپورٹ میں ’’اینٹی وار‘‘ کے مدیر اعلیٰ جیس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس بات پر شک ہے کہ لیبیائی باغی باوجود کئی شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے کے اس لائق نہیںکہ سرکاری مسلح فوج کا مقابلہ کر سکیں۔باغی رہنما عبدالحفیظ غوغا کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھیوں اور تحریک میں اتنا حوصلہ ہے کہ ان کو قذافی جیسے حاکم کو معزول کرنے کے لیے کسی بیرونی طاقت کی ضرورت نہیں ہے۔لیبیا سے آنے والے مظاہرین کی تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ مظاہرین بڑی عمارتوں اور شاہراہوں پر بینرز لگا رہے ہیں، جن پر لکھا ہوا ہے کہ ہمیں غیر ملکی مدد، مداخلت یا اسلحہ کی ضرورت نہیں ہے۔ہم اپنا نظام سنبھالنا اور چلانا جانتے ہیں۔ عرب جریدے دارالحیاۃ کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان ابھی تک کوئی بڑا معرکہ نہیںہوا ہے، لیکن عرب اور غیر جانبدار ماہرین کا ماننا ہے کہ جب بھی باغیوں اور فوج کے درمیان مقابلہ ہوگا تو باغی فوج کے سامنے ٹک نہیں پائیں گے،کیونکہ تربیت یافتہ فوج کے آگے غیر تربیت یافتہ باغی زیادہ دیر ٹھہر نہیں پائیں گے اس بات سے امریکہ اچھی طرح واقف ہے۔امریکہ کی ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ دبائو کے باوجود مغربی ممالک نے کھل کر عالمی فوج کی مداخلت کو مسترد کر دیا ہے۔جبکہ چین، روس، فرانس اور ترکی نے صاف کر دیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کی جانب سے لیبیائی سرحدوں کے اندر گھس کر ناکہ بندی اور فوجی مداخلت ناقابل عمل ہے اور اگر پھر بھی یہ مداخلت کی گئی تو نتیجہ قذافی کے حق میں امریکہ کے خلاف نکلے گا اور اس طرح پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ اس کے بعد امریکی حکومت کی جانب سے لیبیا پر پابندی اور غیر اعلانیہ سمندری ناکہ بندی کا سہارا لیا گیا ہے،تاکہ لیبیائی فوج پر نفسیاتی دبائو بنایا جا سکے۔ عرب اخبارات اور ایرانی میڈیا کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالیہ عدم استحکام کا بنیادی سبب امریکی مداخلت اور اس کی پالیساں ہیں۔
تازہ صورتحال کے مطابق لیبیا میںعالمی فوجی مداخلت کے لیے دوست ممالک کو راضی کرنے میں ناکامی کے بعدکنیڈین اور امریکی بحری جہازوں نے لیبیائی سمندری حدود میں آکر غیر اعلانیہ ناکہ بندی کرلی ہے،لیکن اس ناکہ بندی کے باوجود سرکاری فوج باغیوں کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔مشرقی شہریوں میں جہاں باغیوں کا زور زیادہ ہے لیبیائی فوج اور الخمیس بریگیڈ کے خلاف عوامی طور پربھرتیاں شروع ہو گئی ہیں۔تین روزہ تربیتی سیشن میںباغی عناصر لیبیائی فوج سے باغی افسران کی مدد سے اسلحہ و گولابارود چلانا اور جنگی قوانین کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔عرب تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ کے پاس قذافی کی حکومت پلٹنے کا بہت کم وقت باقی ہے۔اس لیے امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سرکاری فوج کو نو فلائی زون کی مدد سے معطل کر دیا جائے یا باغیوں کو اسلحہ فراہم کرکے اپنے ایجنٹس لیبیائی باغیوں میں شامل کردئے جائیں لیکن امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ لیبیائی باغیوں کے اہم لیڈروں نے امریکی مدد کی پیشکش کو مسترد کردیاہے جس سے امریکہ کو دھکا لگاہے۔
عرب اخبار الشروق اور خلیج ٹائمز کا مانناہے کہ بن غازی ،البیضاء، سرسا،البریفا اور کئی شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے کاروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے دن ہندوستانی وقت کے 3.30بجے شام کو لیبیائی فوج نے سرسا البریفاکاکنٹرول حاصل کرلیاہے۔ باغی رہنمامحمدیوسف کا کہنا ہے کہ وہ تصدیق کرسکتے ہیں کہ لیبیائی فوجوں نے گھمسان کی جنگ کی لیکن مختصر سی جنگ کے بعد سرسا کا کنٹرول حاصل کرلیااور باغیوں کو مارکر بھگا دیا اب باغی سرسا سے 75کلومیٹر دور موجود دوسرے باغیوں کے گڑھ شہر اجدابیہ کی جانب رخ کررہے ہیں جہاں شکست خوردہ باغی بھاگ بھاگ کر آر ہے ہیں۔ ا جدابیہ میں موجود شکست خوردہ باغیوں کا کہنا ہے کہ زمینی دستوں کے ساتھ گنشپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیاروں کی مدد سے بہت سرعت سے آپریشن کیاگیا۔ سرکاری فوج اور الخمیس بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے ایلیٹ کمانڈوز کا کہناہے کہ جلد ہی دوسرے شہروں میں بھی باغیوں کی سرکوبی کی جائے گی۔ سرکاری افواج کی طرف سے عوام کو وارننگ دی جارہی ہے کہ وہ قذافی کی حمایت میں نکل آئیں اور باغیوںکے نام بتادیں تاکہ اس کے بد لے ان کی جان بخشی کردی جائے۔ رائٹرز کے نامہ نگار اورتجزیہ نگار ماریہ گولووینا کا کہناہے کہ اب تک یہی کہاجارہا تھا کہ لیبیائی فوج کی طرف سے کوئی کامیاب کاروائی نہیں کی جارہی ہے لیکن اب سرساشہر کا کنٹرول حاصل کرنے سے ثابت ہورہاہے کہ قذافی کی فوجیں کامیابیوں سے ہمکنار ہورہی ہیں۔ دوسری طرف غیرملکی نامہ نگاروں نے جو باغیوں کے اہم شہراجدابیہ میں موجود ہیں کہا ہے کہ اب سرکاری فوجوں کی طرف سے اجدابیہ کا نمبرلگنے والاہے جہاں باغیوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ غیرملکی نامہ نگاروں کامانناہے کہ باغیوں کی تعداد بھی بہت کافی ہے اور اسلحہ اور گولا بارود بھی ہے لیکن تربیت اور حوصلے کی کمی کی وجہ سے یہ ناکام ہورہے ہیں اور یہ باغی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے چاہے انہیں کتنی ہی ٹریننگ حاصل ہوجائے۔ امریکہ اور مغربی میڈیا کی طرف سے مبالغہ آرائی کی جارہی تھی کہ اسلحہ سے لیس باغیوں کی فوج طرابلس کی طرف پیش قدمی کررہی ہے اور سرکاری فوج سے آخری معرکہ طرابلس میں ہی ہوگا۔ اس وقت لیبیا سے ملنے والی الجزیرہ، خلیج ٹائمس، العربیہ اور دوسرے اہم اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا کہناہے کہ باغیوں کی طرف سے طرابلس میں مارچ نہیں بلکہ سرکاری افواج کے ذریعے مشرقی شہروں کا محاصرہ کیاجارہاہے جہاں باغی سرکاری اسلحہ لوٹنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ CIAسے تعلق رکھنے والے ایک سابق افسر رابرٹ ایڈرسن کاکہناہے کہ مشرق وسطیٰ میںموجودہ صورت حال امریکہ کی پیدا کردہ ہے جو اس خطے میں عوامی احتجاج کی لہر کی آڑ میں تیل کے اتنے بڑے ذخائر پر ڈائریکٹ طورپر خود قابض ہونا چاہتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی کارروائیوں اور لیبیا میں ممکنہ فوجی مداخلت کی امریکی خواہش کے حوالے سے ترک جریدے ’قلت‘ کا مانناہے کہ بحرہ روم میں اس وقت تین امریکی جہاز موجود ہیں جو لیبیا کا گھیرائو کئے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں تباہ کن بیڑے یوایس ایس انٹرپرائز، یوایس ایس کیرسرج اور یو ایس ایس پونس ہیں اور ان تینوں بحری بیڑوں پر ڈھائی ہزار امریکی کمانڈوز اورمیرنیز موجود ہیں اور وہ بحری بیڑوں کے پاس کسی بھی ملک میں مارکرنے کے لئے intercontinantal ایٹمی اور روایتی وار ہیڈز سے لیس میزائیلوں کی کثیر تعداد بھی نصب ہے۔ امریکی ماہرین کا مانناہے کہ نہرسوئیز کے راستے بحر روم میں داخل ہوئے دوتباہ کن طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس کیرسرج اور یو ایس ایس پونس کی خاصیت یہ ہے کہ سمندر میں تیرتے تیرے اچانک خشکی پر بھی آسکتے ہیں اور اسی طرح خشکی پر بھی کارروائی کرسکتے ہیں جیسے کہ سمندر میں کرتے ہیں۔
دوسری جانب کرنل قذافی اوران کے صاحبزادے نے امریکہ کے اقدامات اور لیبیاکے تعلق سے امریکی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاہے اورامریکہ کے رویے کو غیرذمہ دارانہ قرار دیاہے۔ اسکائی نیوزسیٹلائٹ چینل کو دئے گئے ایک انٹرویو میں سیف الاسلام قذافی کا کہناہے تھا کہ امریکہ کو لیبیا کے معاشرے اور روایات اور تہذیب کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔
لیبیائی اخبارالخبر الجدید نے قذافی کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ ایک درجن سے زیادہ مستعفی ہونے والے اہم افسروں اور وزیروں کی جگہ نئی تقرری کررہے ہیں۔ لیبیائی اخبار الخبرالجدید کے مطابق مستعفی وزیرقانون عبدالجلیل مصطفی کی جگہ محمدالقموحسنی اور وزیرداخلہ عبدالفتاح یونس کی جگہ عبدالحفیظ مسعود کو مقررکیا گیاہے جب کہ سابق اٹارنی جنرل محمدالعریبی کی جگہ عبدالرحمن العباد کو لایاگیاہے۔

Friday 11 March 2011

آپ کیوں بار بار پھنس جاتے ہیں سیاسی چالوں میں

وسیم راشد
میرا آج کا عنوان نہ کوئی بہت چونکا دینے والا ہے، نہ حیران کرنے والا اور نہ ہی کسی سیاسی داؤ پیچ میں الجھ کر لکھا گیا ہے۔ بس دل چاہا کہ ایک بار ضرور اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے سوال کروں کہ آخر کیوں بار بار آپ اس سیاسی شعبدے بازی کا شکار ہوجاتے ہیں، کبھی بابری مسجد کے جھگڑے میں، کبھی ہندو یا سنگھ دہشت گردی کے ہیر پھیر میں، کبھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کسی تنازعہ میں، کبھی فتوے، کبھی جمعیۃ علماء ہند کی آپسی رنجش کے گواہ بننے میں، کیوں آپ ان سب لغویات میں پڑ کر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ ملک میں کمر توڑ مہنگائی نے امیر، غریب سبھی کو توڑ دیا ہے۔ بدعنوانی نے ایسا کالا سایہ کیا ہے کہ اب تو کتنے گھوٹالے ہوئے؟ کب ہوئے؟ کتنے کے ہوئے؟ ان کا شمار بھی کرتے کرتے دل گھبرانے لگتا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو بار بار کسی نہ کسی جھگڑے میں الجھا دیا جاتا ہے۔ مسجد النور کا قصہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی کا قصہ شروع ہوگیا اور اس قضیے نے ایسی آگ پکڑی کہ پھر سے امت انہیں خرافات میں الجھ کر رہ گئی۔ مولانا غلام محمد وستانوی گجرات میں سورت کے ایک گاؤں وستان میں پیدا ہوئے، ان کی تعلیم و تربیت بھی وہیں پر ہوئی۔ مولانا وستانوی کوئی معمولی مدرسہ سے فارغ شخص نہیں ہیں، بلکہ ایم بی اے ہیں۔ وہ بے حد کھلے دل و دماغ کے شخص ہیں، جیسا کہ ان کے بارے میں سننے میں آیا ہے۔ یہاں ہمارا مقصد نہ ان کی طرف داری کرنا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف جاری مہم پر اپنی رائے دینی ہے۔ ہم بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند ایشیا کی سب سے بڑی دینی درس گاہ مانی جاتی ہے۔ مولانا وستانوی نے جو بھی بیان دیا ہو اور میڈیا نے اس کو کتنا ہی توڑ مروڑ کر ہی پیش کیا ہو تب بھی مولانا طیب اور مولانا مرغوب الرحمن کی مسند پر براجمان ہونے والے شخص کو ہر طرح ذمہ دار ہونا چاہیے تھا اور کسی بھی طرح کی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے تھا۔ کیا ہوا کیا نہیں، یہ سب اخباروں میں کئی دن سے لگاتار شائع ہو رہا ہے۔ اب بس یہ دیکھنا ہے کہ کس طرح سے اس مسئلے کو لیا جائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تنازعہ کو لے کر دو گروپ ہوگئے ہیں، ایک وہ ہے جو اس بات کی شدید مخالفت کر رہا ہے کہ مولانا وستانوی کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو ان سے برابر استعفیٰ کی مانگ کر رہا ہے۔ ایک طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں یہ ابوالقاسم بنارسی کو عبوری طور پر کارگزار مہتمم مقرر کرنے کے بعد ایک بڑے گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور تقریباً 36 سال سے قابض گروہ کو اپنا جاہ و جلال خطرے میں نظر آنے لگا، اسی لیے اس طرح کے حالات پیدا کردیے گئے۔ یہ بھی سننے اور پڑھنے میں آرہا ہے کہ قاسمی، غیرقاسمی، شیوخ، غیرشیوخ، گجراتی وغیرہ کی بھی جنگ چھڑ گئی ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ سب پڑھ کر اور سن کر۔ یہ اس نبی کی امت کے لوگ ہیں جن کو بار بار یہ کہا گیا کہ اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے۔ اس امت کے لوگ صرف اپنے فائدے کے لیے ایک بے حد مشہور و معروف اور دینی درسگاہ کے وقار کو داؤ پر لانے سے بھی نہیں چوکے۔ ایک اور شطرنج کی چال بھی لوگوں کی سمجھ میں آرہی ہے اور اس پر بھی کافی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ 10 جنوری 2011 کو دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں مجلس شوریٰ کا اجلاس شروع ہوا تو جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپ اپنے اپنے لوگوں کو اس بازی میں جتوانے میں لگے رہے۔ محمود مدنی اور ارشد مدنی کی آپسی مخالفت سے سارا ہندوستان واقف ہے، مگر اس مخالفت کو لوگ اس طرح کیش کریںگے، اس کا اندازہ خود ان دونوں کو بھی شاید نہ ہو، ہاں یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ مولانا محمود مدنی یہ چاہتے تھے کہ مولانا ارشد مدنی اس کے مہتمم بن جائیں تاکہ محمود صاحب کے لیے جمعیۃ کا راستہ صاف ہوجائے۔ جہاں تک ہماری ناقص عقل کام کرتی ہے، ہمیں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مولانا وستانوی کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی کھیل تو کھیلا جارہا ہے۔ مولانا سے بس اتنی چوک ہوئی کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیا، لیکن تیرکمان سے نکل چکا تھا۔ اب مولانا وستانوی کتنا ہی کہتے رہیں کہ وہ مودی کے حق میں بیان نہیں دے رہے تھے اور انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ گجرات کے مسلمانوں کو اب آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مولانا وستانوی کا اصل بیان تو اب شاید سننے کو نہ ملے، کیوں کہ اس قدر اس بیان کے پرخچے اڑائے گئے ہیں، جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے اخبار اتنے بیانات، لیکن ایک بات ہم ضرور کہتے ہیں کہ گجرات کا فساد ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور جس طرح مودی اس نسل کش فساد کا مجرم ہے، اسے بھی کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ مودی اگر پارس کا بھی بن کر آجائے تو مسلمان اس پر یقین نہیں کریںگے، جس طرح اس نے گجرات کے مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا اور خود سفید کھدر پوش بنا مسلمانوں جیسی داڑھی اور خط بنا کر بیٹھا ہے، اس سے اس کے دل کی سیاہی نہیں دھل سکتی۔ یہ مسلمانوں کے لیے حساس ایشو ہے، اس ایشو کو چھیڑتے وقت سبھی کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ 23 فروری کو ہونے والی مجلس شوریٰ کی میٹنگ میں کیا فیصلہ آئے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر مولانا وستانوی کو بھی یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ترقی پسندی اور تعلیم الگ چیز ہے اور مذہبی جذبات کا احترام الگ چیز۔ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم ہونا الگ بات ہے اور گجرات کے مختلف اداروں کی سربراہی کرنا الگ۔ آپ جس ذمہ دار پوسٹ پر ہیں، اس کے کچھ اصول و ضوابط کو ماننا آپ کا فرض ہے۔ اس ضمن میں نگرپالیکا کے چیئرمین حسیب احمد صدیقی کا بیان بھی قابل ذکر ہے کہ دارالعلوم کو ایک فل ٹائم مہتمم کی ضرورت ہے۔ ہمیں مولانا وستانوی کی قابلیت اور تعلیم پر کوئی شک نہیں ہے، مگر دیوبند کے مہتمم کو صرف اور صرف مذہبی امور پر ہی اپنا دھیان رکھنا چاہیے۔ اس بیان سے تھوڑا سا اختلاف کرتے ہوئے یہ بات کہنی ضروری ہے کہ بے شک مہتمم کا سارا دھیان مذہبی معاملات پر ہونا چاہیے، مگر اس کو آج کے بدلتے ہوئے منظر نامہ میں ٹیکنیکل و سائنٹفک نظریات بھی رکھنے چاہئیں اور مولانا وستانوی اس لحاظ سے دارالعلوم کے مہتمم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ بے حد پڑھے لکھے قابل اور سائنٹفک نظریات کے حامی ہیں۔ بس نہ جانے کیسے چوک ہوگئی، جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، مہتمم منتخب ہونے کے بعد مولانا وستانوی نے سونیا گاندھی کے خاص مشیر احمد پٹیل سے بھی ملاقات کی تھی۔  اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ملاقات نے بھی کوئی سیاسی رنگ لے لیا ہو اور کچھ لوگوں کو اس پر خطرہ لاحق ہوا ہو۔ میڈیا نے جو کام کرنا تھا کر دکھایا اور آگ میں تیل ڈالنے کا کام خود مولانا وستانوی نے ہی کیاہے۔ یہاں دارالعلوم دیوبند کے طلباء سے بس اتنا کہنا ہے کہ کیا ہوتا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ کس کی سیاست ہے؟ کیسی سیاست ہے؟ انہیں اس میں نہیں پڑنا چاہیے۔ انہیں بس اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کیوں کہ ان کا جو کام ہے، وہ اہل سیاست جانیں۔ طلبا کیوں اس لڑائی میں کود گئے۔ انہیں تو ابھی اتنی سمجھ بھی نہیں کہ وہ اس بات کا پتہ لگا سکیں کہ کیا کھیل رچا جارہا ہے۔ ہم مسلمان بھی بے حد جذباتیت سے کام لیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کسی نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں اور ہماری اس جذباتیت کا فائدہ موقع پرست لوگ اٹھا لے جاتے ہیں۔ ایک بات اور ہے۔ اسلام معافی کو پسند کرتا ہے۔ مولانا وستانوی نے اگر معافی مانگ لی ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کے انٹرویو کو غلط کوٹ کیا گیا ہے تو اس معافی کو کھلے دل سے قبول کرکے ایک کھلے دل و دماغ اور تعلیم یافتہ شخص کو ایک موقع اور دینا چاہیے اور گجرات کے فساد کا ماتم نہ کر کے اب واقعی آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی کو معاف نہ کیجیے بالکل معاف نہ کیجیے بلکہ اس کے لیے دل میں نفرت ہی رکھ کر آگے بڑھیے اور اس نفرت کو اپنی تعلیم و تربیت سے اس طرح نکھاریے کہ آپ کسی ایسی جگہ، کسی ایسی پوسٹ یا کسی ایسے ادارے میں پہنچ جائیں کہ آپ اس گجرات فساد کے شکار لوگوں کی مدد بھی کرسکیں اور ان کی بازآبادکاری کا کام بھی۔

بہن جی! یہ کیا ہو رہا ہے؟

وسیم راشد
کہتے ہیں ایک خاتو ن کے احساسات و جذبات اور مسائل کو ایک خاتون ہی بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے، لیکن اترپردیش میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ یہاں ایک خاتون کا راج ہے اور اس کے راج میں صوبے کی خواتین ہی محفوظ نہیں ہیں۔آئے دن خواتین کی عصمت دری ہونا اس صوبے کا گویا معمول سا بن گیا ہے۔سونے پر سہاگا یہ کہ صوبے کی وزیر اعلیٰ یعنی مایاوتی بھی دلت طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور عصمت دری کی شکار بیشتر خواتین کا تعلق بھی دلت طبقے سے ہی ہے۔ یعنی مایاوتی اپنے راج میں اس طبقے کی بھی حفاظت نہیں کر پا رہی ہیں، جو طبقہ انہیں کسی مسیحا سے کم نہیں سمجھتا۔دلتوں نے مایاوتی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھانے میں کلیدی رو ل ادا کیا تھا۔یہ بات مایا وتی بھی اچھی طرح جانتی ہیں، لیکن مایاوتی اقتدار کے نشے میں اس قدر چور ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کی بھلائی کے لیے تو کیا اپنے طبقے کے لوگوں کے لیے بھی کچھ نہیں کر رہی ہیں۔وہ شاید اس بھول میں مبتلا ہیں کہ میں ترقیاتی کام کروں یا نہ کروں اتر پر دیش سے مجھے کوئی نہیں اکھاڑ سکتا۔ انہیں بہار کو نہیں بھولنا چاہئے، جہاں15برسوں تک لوگ لالو اور رابڑی پربھروسہ کرتے رہے اور لالو ان کے اس بھروسے کو محض نادانی سمجھتے رہے۔بالآخر وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔لالو اور رابڑی کو بہار کے عوام نے اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ صرف بے دخل ہی نہیں کیا بلکہ 2010کے اسمبلی انتخابات میں تو انہیں اپوزیشن میں بیٹھنے لائق بھی نہیں چھوڑا۔
مایاوتی کو بہار کی تبدیلی کو قطعی نہیں بھولنا چاہئے، اگر وہ یہ بھول کر بیٹھیں جیسا کہ کر رہی  ہیں تو ان کا بھی لالو اور پاسوان جیسا حشر ہونا یقینی ہے۔ مایاوتی پر یو پی کے عوام نے لالو سے بھی زیادہ بھروسہ کیا ، انہیں اتنی اکثریت سے اقتدار کی چابی سونپی کہ دوسری کوئی پارٹی ان کے آس پاس بھی نہیں ٹکی۔عوام نے ان پر اتنا بڑا بھروسہ اس لیے کیا تھا کہ دوسری کوئی پارٹی ان کے راستے کا کانٹا نہ بن سکے اور مایاوتی بے فکر ہو کر ترقیاتی کام انجام دے سکیں، تاہم مایاوتی نے عوام کی امیدوں کو چکناچور کر دیا اور انہیں ملائم سنگھ سے بھی زیادہ ٹھگتی چلی گئیں۔یو پی میں ترقیاتی کام تو بالکل نہیں ہوئے البتہ جرائم کا گراف ضرور تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ بالخصوص خواتین کی عصمت دری کا گراف خاصا بلند ہو گیا۔آج یو پی کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی بدحالی نے یو پی کے عوام کی آنکھوں سے نیند چھین لی ہے۔ لڑکیاں نہ دیہی علاقوں میں محفوظ ہیں اور نہ شہروں میں۔ رات کو گھروں سے باہر نکلنا ان کے لیے محال ہو گیا ہے۔غور طلب ہے کہ دیہی علاقوں میں آج بھی بیشتر لوگ حاجت سے فراغت کے لیے جنگلوں میں جاتے ہیں اور خواتین بھی جنگلوں میں ہی جاتی ہیں۔ اب انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں وہ کسی درندے کی ہوس کا شکار نہ بن جائیں ۔
صوبے میں عصمت دری کی وارداتیں ہر روز ہی ہو رہی ہیں۔ اخبارات ان وارداتوں سے بھرے پڑے رہتے ہیں، نیوز چینل چیخ چیخ کر مایاوتی کے ناقص قانونی نظام کا رونا روتے ہیں، لیکن مایاوتی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ ان میں سے بیشتر وارداتوں میں رسوخ والوں اور ان کے رشتے داروں کا تعلق ہوتاہے، جن کی انگلیوں پر پولس کٹھ پتلی کی طرح ناچتی ہے۔لکھنؤ کے فتح پورمیں رونما ہونے والے واقعہ کو یاد کرکے صوبے کی خواتین کانپ اٹھتی ہیں، بالخصوص طالبات کے لیے یہ واقعہ ایک نیا خوف بن کر آیا ہے۔واضح ہو کہ لکھنؤ کے فتح پور میں بیتی7فروری کو کچھ وحشی درندوں نے ایک دلت نابالغ لڑکی کی عصمت دری کی کوشش کی۔اپنی اس وحشی کوشش میں ناکامی کے بعد انھوں نے لڑکی کے ہاتھ، پیر اور ناک کان کاٹ ڈالے۔ ایسی بے شمار دلت خواتین یا لڑکیاں ہیں جووحشی درندوں کا شکار ہو رہی ہیں اور پولس و انتظامیہ کچھ نہیں کر پاتی۔ مایاوتی اترپردیش کے عوام کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ شاید وہ یہ نہیں جانتیں کہ جب عوام بدلہ لیتے ہیں تو بے حساب لیتے ہیں۔پھر ان کے آگے اچھے اچھے لیڈر کچھ نہیں کر پاتے بلکہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے نظر آتے ہیں۔کم از کم انہیں عرب ممالک سے تو سبق لینا ہی چاہئے۔ عرب میں بغات کی یہ آگ صرف اس لیے بھڑکی کیونکہ، عوام اپنے حکمرانوں سے تنگ آ چکے تھے۔ مہنگائی، فاقہ کشی، مفلسی،بدعنوانی اور ناقص لاء اینڈ آرڈر ان ممالک میں انتہا کو پہنچ گیا تھا۔اس لیے وہاں کے عوام نے اس نظام کو ہی بدلنے کی ٹھان لی جو ان سب مسائل کے لیے ذمہ دار تھا۔مایاوتی کی ریاست میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پولس جہاں لیڈروں کی انگلیوں پر ناچ رہی ہے وہیں بڑے افسران مایاوتی کے سینڈل چمکانے میں مصروف ہیں۔ لو گ بھوک سے تڑپ کر مر رہے ہیں، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔پرواہ ہوگی بھی کیوں؟انہیں تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمیشہ بہن جی ہی اقتدار میں رہیں گی اور جب بہن جی اقتدار میں رہیںگی تو ان کے چمچوں پر بھلا کیونکر کوئی آفت آسکتی ہے؟ یہی سوچ کر افسران بہن جی کے سینڈل چمکا رہے ہیں اورپارٹی کے ایم ایل اے خواتین کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ ایم ایل اے پرشوتم نریش دویدی کے فعل کو کون بھول سکتا ہے، جس نے ایک دلت لڑکی کی عصمت دری کرکے اس کی زندگی کی تمام خوشیاں چھین لیں، پل بھر میں اسے سماج کی نظروں کا کانٹا بنا دیا، لیکن داد دینی ہوگی اس لڑکی کی ہمت کی جس نے ایک ایم ایل اے کو سزا دلانے کی ٹھانی ہے۔ وہ دویدی کوسماج کے لیے ایک عبرت بنا دینا چاہتی ہے، لیکن عبرت تو وہ تب بنیں گے جب گواہوں کو نہیں خریدیں گے، ثبوتوں کو مٹانے کے لیے موٹی رقم نہیں دیں گے، پولس و افسران ان کے اشاروں پر نہیں ناچیں گے، انہیں سیاسی حمایت نہیں ملے گی،جوکہ ایک ناممکن سی بات لگ رہی ہے۔ سیاستداں تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ غریبوں کا خون چوسیں، ان کی لڑکیوں کی عصمت دری کریں، غریبوں کو ستائیں اور مظلوموں پر مزید ظلم کریں۔
غلطی ان لیڈروں کی بھی نہیں ہے۔ دراصل ہمارا پورا نظام ہی سڑ چکا ہے، اگر کوئی لیڈر اسمبلی الیکشن لڑتا ہے تو اس کے کئی لاکھ روپے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ یہا ں تک کہ چھوٹے سے گائوں کا ایک پردھانی کا امیدوار بھی لاکھوں روپے خرچ کر دیتا ہے۔ اتنی موٹی رقم جب ان لوگوں کی الیکشن لڑنے میں خرچ ہوجاتی ہے تو اس کی بھرپائی تو انہیںکہیں سے کرنی ہی پڑے گی۔ اس لیے یہ لوگ جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں اور جائز و ناجائز طریقے سے خوب دولت کماتے ہیں۔ اول تو ٹکٹ بھی ان لوگوں کو ہی دیا جاتا ہے جو جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں،جن کے پاس بے شمار دولت ہوتی ہے اور جو سماج میں اپنا دبدبہ رکھتے ہیں۔ دبدبہ اپنی صلاحیتوں، ایمانداری یاسماج کے لیے کیے گئے فلاحی کاموں کی وجہ سے نہیں بلکہ دادا گیری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار ،قتل و غارتگری اور ان جیسے کئی دوسرے پیشوں کی وجہ سے۔ دولت کمانے کے چکر میں پھر انہیں کوئی کام غیر قانونی یا ناجائز نہیں لگتا، انہیں صرف اور صرف دولت چاہئے اس کا ذریعہ کیسا بھی ہو؟دولت ایسی چیز ہے جو بیشتر لوگوں سے برداشت کا مادہ چھین لیتی ہے،دلوں سے رحم ختم کردیتی ہے اور جائز و ناجائز کی تمیز بھلا دیتی ہے۔مایا وتی کی ریاست میں ایسے لیڈروں و افسران کی بھر مار ہے ، جو جائز و ناجائز میں تمیز کرنا بھول گئے ہیں۔ وقت رہتے اگر مایاوتی نے اپنی غلطیاں قبول نہیں کیںاور ان میں اصلاح نہیں کی تو عوام ان کا حشر بھی لالو جیسا ہی کریں گے۔

ہندوپاک دوستی کے نام: بوئے گل ایک سی ہے بوئے وفا ایک سی ہے

وسیم راشد
گزشتہ ہفتے پوری کوشش کی کہ اخبار کے شائع ہونے سے پہلے پاکستان کے سفر اور وہاں کی صورت حال پر لکھ کر کچھ بھیج سکوں، مگر چونکہ سفر میں تھی، اس لیے ممکن نہ ہوسکا۔ کراچی سے واپسی کے بعد اس قدر ہنگامے اور پروگراموں نے گھیر لیا کہ کچھ نہ پوچھو۔ فیض صدی تقریبات منائی جارہی ہیں، جس کا ہرطرف شور ہے۔ پاکستان میں راحت سعید صاحب جو کہ پوری دنیا میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات کو کراچی سے ہی کوآرڈینیٹ کر رہے ہیں، سے نہایت ہی خوشگوار ملاقات رہی۔ راحت سعید بے حد زندہ دل اور پر مزاح شخص ہیں۔ اعلیٰ درجہ کا ان کا مزاح بے حد لطف دیتا ہے۔ مجھ سے ایسے ملے جیسے کہ کوئی برسوں کے بچھڑے اپنے دوست سے ملتا ہے۔ ایک بے لوث بے غرض شخص جو نہایت مصروفیت کے باوجود میری طرف پوری طرح متوجہ رہا اور وہاں کے مشہور شاعر سحر انصاری کو اپنے گھر بلا کر ایک انٹرویو بھی کر ا دیا۔ راحت سعید صاحب سے پاکستان کی سیاسی، سماجی، ادبی سرگرمیوں پر کافی بات چیت ہوئی۔ ان کی بیگم بھی نہایت ملنسار اور خوش شکل تھیں۔ پہلے تو مجھ سے رسمی گفتگو کرتی رہیں اور بس ایسے نبھاتی رہیں جیسے کہ کوئی شوہر کے دوستوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نبھاتا ہے، لیکن جیسے ہی ان کو پتہ چلا کہ میں پرانی دہلی سے تعلق رکھتی ہوں اور میری نسلیں پشتیں بھی دہلی کی ہی ہیں، تووہ ایک دم آبدیدہ ہوگئیں اور مجھ کو لپٹا کر بولیں پرانی دہلی میں کٹرہ بابر بیگ میرے نانا کے نام پر ہے اور مجھے وہ کٹرہ دیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ تم نے وہ کٹرہ دیکھا ہے؟ میں نے ان کی محبت کو اپنے سینے میں جذب کرتے ہوئے کہا کہ میں اسی جگہ کی ہوں۔ انہی گلی کوچوں میں میرابچپن بیتا ہے تو وہ بے حد خوش ہوئیں اور شاید اسی تعلق کی بنا پر انہوں نے مجھے کھانا بھی کھلایا اور چلتے وقت ایک خوبصورت سا تحفہ بھی دیا۔ راحت سعید صاحب نے مسکرا کر بیگم پر طنز کیا کہ بھئی تم نے تو ہماری دوست کو اپنا کرلیا۔ ان کی بیگم کو میں نے دہلی آنے کی دعوت دی اور ان سے وعدہ کیا کہ ان کو ان کے نانا کا کٹرہ ضرور دکھاؤںگی۔ کراچی میں یوں تو ان دنوں امن و امان تھا۔ میں اپنے پہلے اداریہ میں یہ لکھ چکی ہوں کہ وہاں یوں تو نظم و نسق کی حالت بہت بہتر نہیں ہے، مگر کچھ چیزوں میں مجھے بہتری نظر آئی اور وہ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے یقینا خوش آئند ہے کہ وہاں تعلیم کا رجحان پہلے سے زیادہ بڑھا ہے۔ جہاں ایک طرف نوجوان نسل بے یقینی کی کیفیت میں جی رہی ہے، وہیں وہ تعلیم کی طرف بھی قدم بڑھا رہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیاں بے تکلفی اور بے فکری سے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں صرف وہاں چند منٹوں کے لیے ہی گئی تھی، وہ بھی ہمارے ایک کرم فرما تھے جو میری شدید مصروفیت کے باوجود میری خواہش پر مجھے وہاں لے گئے۔ وہاں جا کر وہاں کا ماحول دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ خواہش تو تھی کہ وہاں کے مختلف شعبوں میں جا کر صدر شعبہ سے ملاقات کروں، مگر پھر لگا کہ جہاں جانا ہے، وہاں پہنچنے میں تاخیر نہ ہوجائے، اس لیے اس خواہش کو دل ہی میں رکھ کر چند منٹوں کے لیے گھومتی رہی۔ 5 سال قبل بھی میں اس یونیورسٹی میں آئی تھی، اب 5 سال بعد مجھے زبردست تبدیلی نظر آئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی دھن میں مست خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ اپنے شعبوں کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ دل سے بے اختیار یہی دعا نکلی کہ خدا کرے ان سبھی کو ان کی منزل مل جائے۔ ایک اور تبدیلی مجھے کراچی میں نظر آئی، وہ یہ کہ پہلے صرف پاش کالونیوں جیسے ڈیفنس، گلشن اقبال، گلشن معمار وغیرہ میں ہی خواتین کار چلاتی نظر آتی تھیں، مگر اس بار ناظم آباد، عزیز آباد، لیاقت آباد میں بھی گلی کوچوں میں نوجوان لڑکیاں بھی اسٹیرنگ سنبھالے نظر آئیںا ور عمر دراز خواتین بھی۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایئر پورٹ سے شہر کو جوڑتی ہوئی بے حد شاندار سڑک بھی پہلی بار اتنی کشادہ اور صاف ستھری لگی۔ باہر سے آنے والوں کے لیے جو انٹری ہوتی ہے، اس کا آفس بھی ایئرپورٹ سے تھوڑی دور بنا دیا گیا ہے، جس سے ایک فائدہ ان کو تو ضرور ہے جو فلائٹ سے جاتے ہیں، مگر ریل سے جانے والوں کے لیے وہ بہت دور پڑتا ہے۔ وہاں کے عملہ اور وہاں کے ایس پی آغاصاحب سے میں کافی متاثر ہوئی۔ میری انٹری جاتے ہوئے بھی اور واپسی میں بھی جھٹ پٹ ہوگئی۔ آغا صاحب نے مجھے بیٹھا دیکھا تو خود ہی بلا کر بات چیت شروع کردی اور بہت کچھ ہندوستان کے بارے میں پوچھتے رہے ۔ کراچی میں جس طرف چلے جائیے ’’شادی ہال‘‘ کی بھرمار ہے۔ ہر سڑک پر جگمگاتے خوبصورت شادی ہال اس قدر حسین لگتے ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔ مجھے ایسا لگا کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے میں ان شادی ہالوں کی جگمگاہٹ بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ پوری کراچی میں ہر سڑک پر گہما گہمی اور کھانے پینے کی دکانیں عجب بہار دکھاتی ہیں۔ کراچی میں ہر بچہ، بوڑھا، عورت مرد کراچی شہر کے میئر مصطفی کمال کے بارے میں بات کرتا نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، وہ ان ہی کی بدولت ہے۔ ان سبھی کا کہنا ہے کہ کراچی کو میگا سٹی بنانے میں مصطفی کمال نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مصطفی کمال متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سندھ کی تیسری بڑی پارٹی مانی جاتی ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی کراچی شہر کو میگا سٹی بنانے پر مصطفی کمال کو مبارک باد دی ہے۔ کراچی شہر میں اب بھی ترقیاتی کام چل رہے ہیں اور کافی کچھ بہتری آئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان پاکستان دونوں ہی ممالک میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دونوں ہی ممالک ایک جیسی پریشانیوں سے نبردآزما ہیں۔ بجلی، پانی، تعلیم، بے روزگاری، مہنگائی یہ سب دونوں ہی ملکوں کے عوام جھیل رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بڑے بڑے شہروں میں بجلی، پانی کی سہولتیں اب بھی اتنی بہتر نہیں ہیں، اسی طرح گاؤں کی حالت تو اور بھی خراب ہے۔ پاکستان میں بھی عوام مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں۔ گوشت 470 روپے کلو، چینی 120 روپے کلو، سبزیاں آلو پیاز بے حد مہنگی ہیں۔ دودھ، دہی غرضیکہ ضروریات زندگی کی سبھی اشیاء مہنگی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل ہندوستان میں مہنگائی کے خلاف سبھی پارٹیوں کے لوگ سڑکوں پر اتر آئے، حالانکہ ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، مگر شروعات تو ہوئی۔ کراچی میں دن میں دو بار لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، مگر وقت طے ہے اور اس طے شدہ وقت سے نہ 2 منٹ پہلے اور نہ ہی 2 منٹ بعد، مقررہ وقت پر بجلی جاتی ہے اور مقررہ وقت پر آجاتی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے دن میں کسی بھی وقت بجلی چلی جاتی تھی، مگر اب طے شدہ وقت پر ہی جاتی ہے۔ کراچی میں یوں تو جنگ سب سے بڑا اخبار مانا جاتا ہے، مگر اب اے آر وائی گروپ کے ذریعے نکالے جانے والے اخبار کا بھی لوگوں کو شدت سے انتظار ہے، کیوں کہ جنگ کے سابق چیف ایڈیٹر محمود شام صاحب اس اخبار سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ جنگ پاکستان کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے۔ اس کی روزانہ اشاعت تقریباً 8 لاکھ ہے۔ یہ اخبار میر خلیل الرحمن نے 1940 میں دہلی سے شروع کیا۔ اس وقت اس اخبار کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور مسلم لیگ کی ترجمانی کرنا تھا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد کراچی کو دارالحکومت بنایا گیا، جہاں ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ بندرگاہ کی بھی سہولت تھی۔ کراچی ایک ابھرتا ہوا صنعتی شہر تھا۔ دہلی کے تین مسلم اخباروں روزنامہ ڈان، جنگ اور انجام نے آزادی کے بعد اپنے دفاتر کراچی منتقل کیے۔ آج ڈان اور جنگ کراچی کے سب سے بڑے اخبار مانے جاتے ہیں۔ میر خلیل الرحمن کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے میر شکیل الرحمن اخبار کے مالک ہیں اور محمود شام ایڈیٹر تھے، مگر اب انہوں نے اے آر وائی جوائن کرلیا ہے، جو کہ حاجی عبدالرزاق یعقوب کا گروپ ہے اور پاکستان میں بے شمار کمپنیاں، چینل اور ادارے اس گروپ کے تحت آتے ہیں۔ محمود شام صاحب نے ایک لنچ میرے اعزاز میں رکھا تھا، جس میں انہوں نے کراچی سے نکلنے والے سبھی اخباروں کے مدیر اور سینئر رپورٹرز سے میری ملاقات کرائی۔ ہمابخاری جو وہاں کے میڈیا کی جانی مانی شخصیت ہیں اور نیوپورٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی، انہوں نے سندھی چادر جس کو اجرک کہا جاتا ہے، اڑھا کر میری عزت افزائی کی۔ سبھی بے حد محبت اور خلوص سے پیش آئے۔ پرلطف گفتگو کے درمیان کھانا کھایا گیا، جس میں سبھی نے مجھ سے ہندوستان کے بارے میں مختلف سوالات کیے۔ یوں سمجھئے کہ میرا پورا انٹرویو لے ڈالا۔ اس کے بعد ایک شعری نشست کا اہتمام ہوا، جس میں مجھ کو بھی شعر پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ کئی چینلز کے لیے انٹرویوز ہوئے، سبھی لوگ بے حد محبت اور احترام سے بات کر رہے تھے۔ سبھی کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ مجھ ناچیز کو ہندوستان کی اردو اخبار کی پہلی خاتون مدیرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مجھے خود ہی یہ پتہ نہیں تھا، مگر دہلی میں، دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین اخترالواسع نے ہمیشہ ادبی اور سیاسی محفلوں میں میرا تعارف یہی کہہ کر کرایا۔ محمود شام صاحب نے کراچی آرٹس کونسل میں بھی ایک پروگرام رکھا تھا، جس میں ان ہی کے ساتھ میں شرکت کے لیے گئی۔ چاروں طرف مخلص اور محبت بھرے چہرے تھے۔ سبھی اپنے تھے کچھ بھی تو پرایا نہ تھا۔ شکل و صورت، رنگ، قد، لباس، بولنے کا انداز سبھی کچھ ہندوستانیوں جیسا۔ وہی پرتپاک استقبال، وہی خوبصورت کلمات، اخبار کی تعریف، ہندوستانیوں کے لیے محبت کا بے پناہ اظہار۔ اس سب نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ بے شمار تحائف دئے گئے، جس میں کتابوں کے تحائف بہت تھے، مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ وزن کی وجہ سے بے حد اہم خوبصورت یہ کتابیں مجھے چھوڑ کر آنا پڑیں۔ محمود شام صاحب نے اپنی کتابوں کا پورا سیٹ مجھے دیا تھا، جو میں شدت سے لانا چاہ رہی تھی۔ اس میں سے 4 کتابیں ہی میں لا ئی۔فیض صدی تقریبات کے سلسلے کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا۔  آج یہ اداریہ قلم بند کرتے ہوئے مجھے وہ بے حد مخلص اور پیارے لوگ یاد آرہے ہیں، جنہوں نے مجھ کو بے پناہ عزت و پیار دیا۔ علی سردار جعفری کی نظم مشرق و مغرب کا ایک شعر مجھے یاد آرہا ہے :
بوئے گل ایک سی ہے بوئے وفا ایک سی ہے
تیری اور میری غزلوں کی ادا ایک سی ہے
حقیقت میں سب کچھ ایک جیسا ہے۔ بس یہ سرحد، یہ ایک سفید لکیر نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ سبھی اپنے عزیز و اقارب سے مل پاتے اور ادبی، سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے۔ ویزا کا مسئلہ نہ ہو یا ویزا میں نرمی ہو تو شاید یہ دکھ، یہ درد اور یہ کرب بھی ہندو پاک کے عوام میں نظر نہ آئے۔
میری دعا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ دونوں ملکوں کے حالات بہتر ہوں اور دونوں ہی ملک ترقی کی راہ پر ساتھ ساتھ گامزن رہیں۔ اب بھی فیض صدی کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان سے ایک پورا وفد ہندوستان آیا تھا، جس میں راحت سعید، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، فیض کی دونوں بیٹیاں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی، امداد آکاش، یوسف سندھی وغیرہ شامل تھے اور ایسا شخص جس نے فیضؔ کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں وقت گزارا تھاظفراللہ پوشنی ہمارے درمیان تھا۔ بہت اچھا لگ رہا تھا سب سے مل کر۔ خدا سے یہی دعا ہے کہ دونوں ممالک کی یہ آپسی یگانگت، محبت، رواداری اور خلوص قائم رہے۔ اپنے اپنوں سے ملتے رہیں، امن کی آشا برقرار رہے۔

Wednesday 9 March 2011

خواتین بھی انقلاب لا سکتی ہیں

واشنگٹن اپنے کام کے سیاستدانوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر اخوان المسلمین اقتدار میں آگئی تو امریکی مفادات کو خطرہ ہوجائے گا۔ یوروپ اور اسرائیل نہر سوئز کے تعلق سے پریشان ہیں۔ حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔
مصر کے حالات بدستور بگڑتے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی ایئرلائنسزنے تا حکم ثانی اپنی اڑانیں رد کردی ہیں۔ انٹرنیٹ مکمل طور پر منقطع نہیں ہوا، لیکن براؤزنگ، ڈاؤن لوڈنگ اور اپ لوڈنگ وغیرہ کی رفتار نہایت سست ہے، جس کی وجہ سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس تک مصری عوام اور اطلاعات کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے اور ساری دنیا کے میڈیا کو حسنی مبارک کے حامی فوج اور پولس مار مار کر بھگا رہی ہے اور ان کے کیمرے وغیرہ توڑے جارہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کے لوگوں کو جاسوس بتایا جارہا ہے۔ الجزیرہ چینل کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ وہاں کی خبروں کے لیے عرب میڈیا پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ حسنی مبارک نے پہلے حکومت تحلیل کی، پھر الیکشن نہ لڑنے کا وعدہ کیا، لیکن اس سب سے عوام کا غصہ کم نہیں ہوا، بلکہ اور زیادہ ہوگیا پھر اسرائیل کے اشارے پر طاقت کے بے رحمانہ استعمال کی ٹھانی، مگر فوج نے طاقت کے استعمال سے انکار کردیا۔ اب حسنی مبارک ایک آخری کوشش میں ہیں کہ کس طرح سے اپنے اقتدار کو باقی رکھا جائے، جس کے لیے پورے طور پر اسرائیلی مدد حاصل کر رہے ہیں۔ شروع میں عوام اور فوج کے بیچ جھڑپیں ہوئیں، لیکن اب فوج بھی عوام کا ساتھ دے رہی ہے۔ قاہرہ ، اسکندریہ وغیرہ جیسے شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں۔
سب کو سب کچھ معلوم ہے۔ مصر کے حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ہر دن خبر پرانی ہوجاتی ہے، مگر یہاں ہم انقلاب مصر کو ایک الگ نظریہ سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ملک جہاں خواتین حجاب اور برقع میں رہتی ہیں۔ وہاں ایک 26 سالہ خاتون اتنے بڑے انقلاب کی علمبردار بنی ہیں۔ یہ خاتون ہیں اسماء محفوظ جنہوں نے فیس بک پر تحریر کیا تھا کہ ’’لوگو! میں تحریر اسکوائر جارہی ہوں‘‘ ان کا یہ پیام جلد ہی صدر مصر حسنی مبارک کی اقتدار سے معزولی کے لیے ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ اسماء کی فیس بک کی اپیل سے متاثر ہو کر ہزاروں افراد تحریر اسکوائر پر اکٹھا ہوئے اور حسنی مبارک کے 36 سالہ اقتدار کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے لگے۔ مبارک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ستمبر میں اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوجائیںگے، مگر انہوں نے فوری طور پر استعفیٰ دینا منظور نہیں کیا۔ اسماء نے المہوا ٹی وی(مصر) سے بات چیت کے دوران بتایا کہ وہ بہت زیادہ غصہ تھیں اور ناراض تھیں۔ سب لوگ کہہ تو رہے تھے کہ اب حد ہوگئی، مگر کوئی آگے آنے کو تیار نہیں تھا، اس لیے میں نے فیس بک پر پیغام دیا کہ لوگو! میں آج تحریر اسکوائر جارہی ہوں‘‘ انہوں نے یہ پیغام 25 جنوری کو دیا تھا اور ایسا انہوں نے تیونس کے انقلاب سے متاثر ہو کر کیا کہ جب ایک عرب قوم انقلاب لاسکتی ہے تو باقی کیوں نہیں؟ انہوں نے فیس بک پر تحریر کیا تھا کہ جو بھی مصر کے بارے میں فکرمند ہے، اسے ان کے ساتھ قاہرہ کے تحریر اسکوائر تک مارچ کرنا ہوگا۔ وہ اس حد تک جنونی ہوگئی تھیں کہ انہوں نے لکھا کہ اگر کوئی مجھے بچانا چاہتا ہے تو اسے آگے آنا ہوگا، کیوں کہ پولس چاہتی ہے کہ میں جل کر مر جاؤں تو میں پوری طرح تیار ہوں اور صرف اسماء محفوظ ہی نہیں، ایک 28 سالہ اسکول کونسلر مریم سفیان ہیں، جنہوں نے ٹائمس میں ایک شعر لکھا، جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ میں سوشلسٹ نہیں ہوں، میں لبرل بھی نہیں ہوں، میں اسلامسٹ بھی نہیں ہوں، میں صرف ایک مصری خاتون ہوں۔ میں اپنے ملک میں پھیلی اس بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتی ہوں۔
ماروارخا یہ نام ہے ایک ایسی مصری خاتون کا جو سات ماہ حاملہ ہونے کے باوجود بہ نفس نفیس اس مارچ میں شامل رہیں اور جنہوں نے ہفنگٹن پوسٹ پر فون کر کے کہا کہ وہ سات ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود اس انقلاب میں شامل ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس بدعنوان ملک میں پیدا نہیں کرنا چاہتیں، وہ چاہتی ہیں کہ جب ان کا بچہ آنکھیں کھولے تو اس بدعنوانی ، استحصال اور غریبی کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ رخا قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں خواتین کا بہت زیادہ سیاست میں رول نہیں ہے۔ آخری الیکشن سے پہلے جیسا کہ الجزیرہ کے مطابق الیکشن ریفارم کے باوجود صرف 15 فیصد خواتین ہی مصری پارلیمنٹ میں ہیں اور گزشتہ سال اسمبلی نے ایک قانون بنایا تھا جس کے تحت 64 نئی سیٹوں میں اضافہ کیاگیا تھا جو کہ خواتین کے لیے مخصوص تھیں اور 2005 میں صرف اور صرف 4 خواتین منتخب ہوئی تھیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں جو خواتین کی ممبر شپ ہے، وہ پہلے سے 1500 فیصد بڑھ جائے گی اور نئی پارلیمنٹ کی کل سیٹوں کا 12 فیصد عورتوں کے حق میں جائے گا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مصر وہ ملک ہے، جہاں عورتیں اور مرد پبلک مقامات پر ہاتھ بھی نہیں پکڑ کر چل سکتے، لیکن اس انقلابی لہر میں مصری خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ہی نہیں، بلکہ مردوں سے آگے نکل کر اس تحریک کو جلا دی ہے۔ اے بی سی کی خبر کے مطابق پہلے جتنے بھی احتجاج ہوئے، ان کے مقابلے اس بار کوئی بھی جنسی چھیڑ چھاڑ کا معاملہ سامنے نہیں آیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بار عورت اور مرد صرف اور صرف انقلاب کا چہرہ تھے، وہ اپنی جنس اور اپنی بے جا خواہشات سے اوپر اٹھ چکے تھے، کیوں کہ مصری ٹی وی پر یہ پروپیگنڈہ کیا گیا تھا اور یہ افواہ بھی پھیلائی گئی تھی کہ لڑکیوں کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ کی گئی، مگر رخا نے سختی سے اس بات کی تردید کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں خود اس کی گواہ ہوں کہ مصری مرد بے حد تعاون کر رہے تھے اور خواتین میں اعتماد بحال کر رہے تھے اور اگر کوئی لڑکی یا عورت گرجاتی تھی تو وہ بڑے احترام سے اسے اٹھاتے تھے، اس کی مدد کرتے تھے اور کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوتی تھی۔ رخا کا کہنا ہے کہ وہ اس احتجاج میں اکیلے شامل ہونے گئی تھیں اور انہوں نے صرف اپنا موبائل لیا تھا اور رخا کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہب، ملت، جنس، عمر، سماجی حیثیت ان سب سے بالا تر ہو کر مصری خواتین نے اس احتجاج میں حصہ لیاہے۔  گزشتہ 30 سالوں کی گھٹن اور حبس سے خود کو نکالنے کے لیے سب ایک ہوگئے۔ ایک 22 سالہ امریکن ایم اے کی طالبہ اناڈے جو کہ فلسطین کے لیے فری لانسنگ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس احتجاج میں واحد گوری خاتون تھیں، لیکن وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ پردہ نشین عورتیں اس طرح احتجاج میں شامل ہوںگی، وہ خواتین کے جوش و جذبہ کو دیکھ کر حیران تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑی تعجب کی بات تھی کہ خواتین لیڈ کر رہی تھیں اور مرد ان کا ساتھ دے رہے تھے جو کہ مصر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔ دو فروری کو موزن حسن نے جو کہ قاہرہ میں ایگزکٹیو ڈائریکٹر ہیں اور فیمنسٹ اسٹیڈیز پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ عورتیں اور مرد ساتھ ساتھ اس مارچ کا حصہ تھے جو ساتھ مل کر مصر کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ عزا سلیمان جو کہ خواتین کی لیگل ایڈوائزر ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف مصری قوم کے لیے جمہوری مارچ تھا۔ یہ سبھی مثالیں یہ سبھی بیانات صرف اور صرف اس لیے دئے گئے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ خواتین کس طرح انقلاب لاسکتی ہیں اور اسلامی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا، جنگ احد اور جنگ بدر میں بھی خواتین زخمیوں کو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کا کام کیا کرتی تھیں، مگر مذہب سے بالا تر ہو کر جمہوری اقدار اور جمہوریت کی بحالی میں مصری خواتین کا یہ کارنامہ سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ کوئی بھی ملک اس بات کے لیے تیار رہے کہ جب بدعنوانی، غریبی، بھکمری، بے روزگاری، استحصال، جنسی بے راہ روی حد سے بڑھ جائے گی تو کوئی بھی ڈکٹیٹر نہیں بچے گا۔
حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ امریکہ حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ فوری طور پر چاہتا ہے اور اپنے نئے وفادار غلام عالمی تنظیم آئی اے ای اے کے سابق سربراہ محمد البرداعی کی حکومت بنوانا چاہتا ہے، جو کہ امریکہ کے آزمودہ مہرے ہیں اور بہت وفادار ثابت ہوئے ہیں۔ مختلف چیلنجز کا کہناہے کہ اخوان المسلمین کے اقتدار پر قابض ہونے کے خیال سے امریکہ کی نیندیں حرام ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے حسنی مبارک کے اقتدار سے زیادہ اہم نہر سوئیز ہے جو اپنی ساخت کے حساب سے ان دونوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ امریکہ کو خطرہ ہے کہ اگر اخوان المسلمین برسراقتدار آگئی(جیسا کہ اس سے پہلے غزہ میں حماس کے تعلق سے ہوچکا ہے) تو مصر امریکہ کا حلیف نہیں رہے گا اور مشرق وسطیٰ میں امریکی گریٹ گیم ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
قاہرہ میں سابق امریکی سفیر ڈین کروز کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ حسنی مبارک کسی بھی قیمت پر اقتدار نہیں چھوڑیںگے۔ ڈین کروز کا بیان جو ایک کینیڈین رسالے ڈیلی گلوب میں شائع ہوا ہے کا کہنا ہے کہ میں حسنی مبارک کو بہت اچھی طرح چاہتا ہوں۔ وہ دباؤ ڈالنا جانتے ہیں، ان پر کس کا دباؤ نہیں چلتا، ان کے خیال سے حسنی مبارک ملک چھوڑ کر کبھی نہیں بھاگئیںگے، لیکن اس سوال کا جواب گول کرگئے کہ ان کا بیٹا جمال مبارک لندن کیوں بھاگا؟
یاد رہے کہ وکی لیکس کی طرف سے افشاں خفیہ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ کے جمہوری اصلاحات کے مطالبہ پر حسنی مبارک ناراض ہوگئے تھے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ امریکہ کی یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت قائم کی جائے۔ حسنی مبارک کا کہنا ہے کہ جب امریکہ نے حماس اور اسلام پسندوں کو ختم کرنے کے لیے غزہ میں انتخابات کا ڈراما رچایا تو حماس برسراقتدار آگئی، جس سے جمہوری اصلاحات کی قلعی کھل گئی۔ ایسا ہی ایران میں ہوا کہ جمہوریت کے نام پر اسلام پرستوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ حسنی مبارک کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو جمہوریت کا راگ الاپنا بند کرنا چاہیے۔ حسنی مبارک کا کہنا ہے کہ مصر کے معاملات ہم بہت بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ یہاں پر عوام ڈکٹیٹر شپ کے عادی ہیں۔ جمہوریت انہیں راس نہیں آئے گی۔ اگر یہاں جمہوریت قائم کی گئی تو اس کے اثرات امریکہ اسرائیل اور مغرب پر بہت برے ہوںگے۔
ادھر امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حسنی مبارک نے طاقت کا استعمال کیا تو امریکی امداد بند کردی جائے گی یا بس کاکا یہ یوٹرن تو اسرائیلی ماہروں کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ شاید امریکہ کا سمجھنا ہے کہ اب حسنی مبارک امریکہ کی بات ٹالنے لگے ہیں، اس لیے ان کا اقتدار میں بنا رہنا خطرناک ہے۔ اسی لیے مصر پر امریکہ کا برابر دباؤ بنا ہوا ہے کہ طاقت کا استعمال نہ کریں اور ساری پارٹیاں ایک ساتھ بیٹھ کر ایک معاہدے پر پہنچیں۔ بیانات تو یہی ہیں لیکن امریکہ کا اصل مقصد اپنے آزمودہ مہرے البرداعی کو اقتدار میں لانا ہے اور آخر کار ہو کر بھی یہی رہے گا اور اخوان المسلمین کو بہت خوبصورتی سے درکنار کردیا جائے گا جو دراصل مصر کے عوام کی نمائندہ ہے۔ اخوان المسلمین مصری عوام کی نمائندہ تو ہے لیکن ڈپلومیسی اور سیاست کے نام پر مکاری دھوکہ فریب سے زیادہ واقف نہیںہے، کیوںکہ مکاری دھوکہ بازی، فریب اور جھوٹ وغیرہ کے امام امریکہ اور اسرائیل تو ہیں، لیکن انقلاب کی علمبردار خواتین ہیں اور مصری عوام ایسے کسی بھی تانا شاہ کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں یہ انہوں نے بخوبی دکھا دیا ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ جمہوریت کی بحالی اور بقا کے بغیر اب یہ آگ نہیں تھمے گی۔