Friday 29 April 2011

کیا انا کی مہم کرپشن ختم کر پائے گی؟

وسیم راشد
ہم چوتھی دنیا انٹرنیٹ ٹی وی پر ایک لائیو پروگرام ’’بلیک اینڈ وہائٹ‘‘ کرتے ہیں، جس کے کئی پروگرامز میں ہم نے بارہا عوام سے درخواست کی کہ مہنگائی ، کرپشن، استحصال، سماجی نابرابری اورخواتین کے ساتھ زیادتی وغیرہ کے خلاف عوام کو احتجاج بلند کرنا چاہئے، ان ہی کو آواز اٹھانی ہے۔ اندازہ تھا کہ ایک وقت ہوگا جب مصر، تیونیشیا اور لیبیا کی طرح ہندوستان میں بھی ایک ایسی عوامی تحریک اٹھے گی جو بدعنوانی، مہنگائی اور کرپشن کے خاتمہ کا مطالبہ کرے گی۔ اس بار انا ہزارے نے یہ بیڑا اٹھایا اور ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ کرلیا۔ انا ہزارے صحیح ہیں یا غلط، ان کا موقف کتنا سچا ہے، وہ خود کتنے ایماندار ہیں، ہم ابھی اس پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہاں اس پورے ہزاری میلے میں خوب تام جھام ہوا۔ ڈھول تاشے بجے، اسٹیج پر طرح طرح کی نوٹنکیاں دیکھنے کو ملیں۔ بابا رام دیو بھی اپنے مزاحیہ انداز میں ’’میرا رنگ دے بستی چولا‘‘ گاتے نظر آئے۔ ممبئی میں شبانہ اعظمی اور ارملا ماتونڈکر نے بھی انا ہزارے کا ساتھ دیا اور دیکھا جائے تو پورا ہندوستان کسی نہ کسی طرح اس تہوار کو منانے میں جٹ گیا۔ بیرون ممالک میں بسنے والے ہندوستانی بھی اس مہم میں انٹرنیٹ کے ذریعے جڑے رہے اور میڈیا تو جیسے بھوکی بیٹھی تھی۔ اس نے بھی اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے انا جی کو گاندھی جی کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ ایک بات تو اس میں مثبت نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ انا ہزارے کا ایشو اچھا تھا، مگر کیا دس آدمیوں کی کمیٹی بننے سے ملک میں پھیلنے والا کرپشن پکڑ میں آسکے گا، جن گھوٹالوں کی گنتی مشکل ہے، وہ گھوٹالے اس ملک کا مقدر بن چکے ہیں، ایسے میں معمولی چپراسی سے لے کر فوجی افسران، آئی اے ایس افسران، پولس، انتظامیہ، لیڈران سبھی رشوت کے پیسے کو حلال کی کمائی اور اپنا حق سمجھ کر بٹورلیتے ہیں، جو لوگ چھوٹی موٹی نوکریوں پر ہیں، وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے افسران تو اتنی موٹی رقمیں اپنی تنخواہ کی شکل میں بھی لے رہے ہیں اور اوپر کی آمدنی بھی ہے۔ ایسے میں ہمارا تو پورا حق ہے، اس اوپر کی کمائی پر اور پھر جب ٹاٹا اور امبانی جیسے لوگ گھوٹالوں میں ملوث ہوں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بدعنوان ہوں، تو پھر عام آدمی کے لیے تو رشوت ہی اصل کمائی ہوجاتی ہے۔ بدعنوانی کے خلاف یہ پہلا احتجاج نہیں ہے۔ میرے اپنے ہوش میں دو یا تین بار اس طرح کا احتجاج ہوا ہے۔
جے پرکاش نارائن جی کی قیادت میں پہلی بار اس وقت ہو اتھا جب مسز گاندھی ہندوستان کی وزیراعظم تھیں۔ جے پرکاش نارائن جی کا جنون اندرا گاندھی کو لے ڈوبا اور جے پرکاش جی کے ایشو کا دائرہ بڑا تھا، وہ ملکی نظام میں تبدیلی کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔ پہلی بار اس وقت ہندوستان کی گلیوں میں یہ نعرہ گونجا تھا کہ ’’گلی گلی میں شور ہے اندرا گاندھی چور ہے۔‘‘
دوسرا سب سے بڑا احتجاج وی پی سنگھ کی قیادت میں ہوا اور راجیوگاندھی کی حکومت کو 1989 میں اقتدار کھونا پڑگیا۔ یہاں ان سب باتوں کو بیان کرنے کا ایک مقصد اور بھی ہے، وہ یہ کہ بار بار سیاسی اقتدار کی چابیاں بدلتی رہیں، مگر عوام کو سکون میسر نہیں ہو ا اور پھر ہندوستان کی تاریخ کا وہ لمحہ بھی یاد ہے، جب بابری مسجد شہید کردی گئی، وہ لمحہ بھی ہندوستان کے سینے پر رستا ہوا ناسور ہے، جب گجرات میں مسلم کش فساد ہوا اور جس نے ہندوستان کی تاریخ میں وہ لمحہ ہمیشہ کے لیے کالے حروف سے لکھ دیا۔ مگر اس وقت کوئی انا ہزارے سامنے نہیں آیا۔ گجرات میں اقلیتی فرقے کے تقریباً 4 ہزار لوگ مارے گئے، انا جی ابھی بھی مودی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے انا جی کو یہ نظر نہیں آیا کہ مودی کتنے کرپٹ ہیں اور ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اس طرح اڑیسہ میں گرجا گھروں میں آگ لگا دی گئی۔ عیسائیوں کا قتل عام ہوا، اس وقت بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ آسام میں 1983 کے قتل عام میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلمان بے قصور مارے گئے۔ 1984 میں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ آخر کتنے فسادات کے نام گنائے جائیں۔
اس وقت بھی ایسا ہی کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا، جس سے کہ مسلمانوں کی روح پر لگے زخموں پر مرہم لگایا جاسکتا۔ بے شک بدعنوانی ملک کے لیے ناسور ہے، لیکن فرقہ واریت بدعنوانی سے بڑا ناسور ہے، جس پر انا ہزارے جیسے سماجی کارکن کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ عامر خان وزیراعظم کو خط لکھ رہے ہیں، مگر اقلیتوں کے مسائل پر تو آج تک کسی بھی فلم اسٹار نے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو خط نہیں لکھا۔ آج ہم انا ہزارے کو چھوٹا گاندھی کہہ رہے ہیں، مگر گاندھی جیسا سیکولر ذہن و دل دماغ اگر انا جی کا ہوتا تو وہ مودی کی تعریف نہ کرتے۔ مگر پھر بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ اس کے سارے مسائل ہمارے ہیں۔ ہم بھی اپنے ملک کے نیشنل ایشوز سے خود کو جوڑنا چاہتے ہیں اور اگر شروعات انا جی سے ہی ہوتی ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں، کیوں کہ کوئی تو یہ بیڑا اٹھائے گا۔ اس وقت ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لیے ساز گار ہے۔ تقریباً 8-9 سال سے یعنی 2004 سے 2011 تک کسی بھی بڑے فساد کی خبر نہیں ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی زبان بھی کچھ حد تک خاموش ہے، کیوں کہ سامنے اسیمانند اور پرگیہ ٹھاکر ہیں۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات بے شک نافذ نہیں ہوئیں، مگر مسلمانوں کے لیے کام تو ہوا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنی آنکھیں اور کان کھلی رکھیں۔ کرپشن کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں۔ ایک بار نہیں دو بار نہیں تیسری بار ہلکی سی آواز کوئی سنے گا اور پھر جب یہی آواز چیخ کی شکل میں کانوں سے ٹکرائے گی تو یقینا انقلاب لے آئے گی۔ ا س کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کسی بھی تحریک کے سیاسی پہلوؤں پر ضرور غور کریں اور جذباتیت سے پرہیز کرتے ہوئے دیکھیں کہ آخر اس وقت جب کہ 5 ریاستوں آسام، کیرالہ، تمل ناڈو، مغربی بنگال اور پانڈیچری میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے، ایسے میں نہ جانے کیوں بار بار یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ ایسا موضوع جس کو بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں سرفہرست رکھا ہو اس پر ملک گیر تحریک چلانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ اسی طرح آر ایس ایس نے بھی پوری طرح انا کی تحریک کی حمایت کی ہے۔ اس سے بھی کہیں نہ کہیں ہمارے تحت الشعور میں کچھ کھٹک رہا ہے۔ پھر بھگوالیڈروں نے انا کے ساتھ مل کر مرکزی سرکار کو جس طرح اس ایشو پر گھیرا، پھر انا کا مودی کی ستائش کرنا، نہ جانے کیوں کچھ تو لگ رہا ہے، جس کی پردہ داری ہے۔ لوک پال بل تو کافی عرصہ سے گرد و غبار والی فائلوں میں دبا ہوا تھا۔ خیر چلئے زیادہ شک و شبہ اچھی بات نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ بل بے حد طاقتور ہوگا۔ بل کو نافذالعمل بنانے کے لیے جو ادارہ قائم ہوگا اس کو بیک وقت فیصلہ سازی، انتظامی اور جوڈیشیل پاورس حاصل ہونگی۔ اس لیے اس پر پہلے بحث و مباحثہ ہو جانا چاہئے کہ کیا اتنے طاقتور ادارے کو بنانا چاہئے جیسے کہ کشمیر میں فوج کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں مگر ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔یعنی جس چیز کو زیادہ طاقتور بنا دیا جاتا ہے اس کا کہیں نہ کہیں غلط استعمال ہو سکتا ہے۔

Friday 22 April 2011

!ملاوٹ خوروں کو عبرتناک سزا ملے

وسیم راشد
ملاوٹ خوری ہمارے ملک کے لیے ایک ناسور بن چکی ہے۔دنیا جہاں ایڈس اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں سے نبرد آزما ہے وہیں ہم ان بیماریوں کے ساتھ ساتھ ملاوٹ خوری کے عفریت سے بھی لڑ رہے ہیں۔ آج ملک میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ ہم کسی بھی چیز کی اصلیت کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔دودھ، گھی ، تیل ، کھویااور آٹے وغیرہ میں تو ملاوٹ عام سی بات تھی لیکن آج انسان پھلوں اور سبزیوں میں بھی ملاوٹ کرنے سے نہیں چوک رہا ہے۔مختلف اقسام کے کیمیکل کے ذریعہ پھلوں و سبزیوں کو وقت سے پہلے کھانے لائق بنا دیا جاتا ہے۔پھلوں او رسبزیوں میں زہر کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں۔ چند منافع خور کیسے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اس کا اندازہ آپ اخبارات و ٹیلی ویزن میں روز مرہ کی خبروں سے لگا سکتے ہیں۔ آئے دن اخبارات اس طرح کی خبروں سے بھرے پڑے رہتے ہیں ،ٹی وی چینل ہر روز کئی ایسی خبریں نشر کرتے ہیں کہ ملاوٹ کا دودھ پی کر ، شراب پا کریا روٹی کھا کر اتنے لوگ ہلاک ہو گئے۔ایک چھوٹا دوکاندار بھی پھلوں اور سبزیوں کو دیر تک تازہ رکھنے کے لیے ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ان پر کیمیکل کا چھڑکائو کر تا ہے۔ ہم یہ سب دیکھتے ہیں اور انجان بنے رہتے ہیں۔ کوئی بھی سماج میں اصلاح کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ کسی سے بھی ہم خود ہی جھگڑا کیوں مول لیں؟ شاید ہماری حساسیت ختم ہو گئی ہے،ضمیر ہمارا سو گیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب ان زہر آلود سبزیوں، پھلوں یا دیگر اشیائے خورد نوش کے استعمال سے ہمارا کوئی اپنا یعنی قریبی ہلاک ہوتا ہے تو ہم خوب روتے ہیں، ملاوٹ خوروں کو گالیاں دیتے ہیں، انہیں سماج کا دشمن بتاتے ہیں، لیکن یہ سب زیادہ دن تک نہیں چلتا۔ پھر وہی معمول کی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ مجرم ہم خود ہیں،ہماری غیر حساسیتسماج اور ملک کو تاریک کنویں میں دھکیل رہی ہے اور ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
حالیہ واقعہ کو کون بھول سکتا ہے۔ جب شمالی ہندوستان میں سنگھاڑے کا ملاوٹی آٹا(کٹو) کھانے سے سیکڑوں لوگ بیمار گئے۔ اس آٹے کے استعمال سے لوگوں کے ہاتھ پیر اینٹھنے لگے ، چکر آنے لگے اور پیٹ میں درد و الٹی کی شکایت ہونے لگی۔دیکھتے ہی دیکھتے کئی شہروں کے اسپتالوں میں متاثرین کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔شمالی ہند کے درجنوں شہروں میں افراتفری کا عالم مچ گیا۔اس واقعہ سے اس بات کا اندازہ تو ہو گیا کہ ملاوٹ خوروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے اندر انسیانیت ہوتی ہے۔ کیونکہ کٹو کا آٹا کھانے سے بیمار ہونے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے نوراتروں کا برت رکھا تھا اور برت چونکہ یہ لوک کٹو کے آٹے سے کھولتے ہیں اس لیے ان کا بیمار ہونا لازمی تھا۔یعنی مذہب یا عقیدت کی ملاوٹ خوروں کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں، انہیں تو صرف اور صرف پیسہ چاہئے اس کا ذریعہ کیسا بھی ہو؟
ملاوٹ خور منافع خوری کے چکر میں ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اشیائے خوردنوش میںزہر ملا کر وہ ملک کے بچپن کو موت کی نیند سلا دینا چاہتے ہیں۔ اسے اپاہج بنا دینا چاہتے ہیںاور اس کام میں حکومت و انتظامیہ بھی ان کی بھرپور مدد کر رہی ہے۔ پولس کا کردار ہمیشہ اس حوالے سے مشکوک رہا ہے، وہ چند روپیوں کی خاطر کروڑوں لوگوں کی زندگی میں زہر گھولنے سے نہیں چوکتی۔افسران و حکمران بھی اس ساز باز میں نہ صرف برابرکے شریک ہیں بلکہ ملاوٹ خوروں کو مکمل تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ملاوٹ روکنے کے ہمار ے نظام کی ناکامی سے عام آدمی میں یہ تصورپختہ ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا سسٹم اسے روکنے یا ختم کرنے میںیا تو ناکام ہے یا پھر دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔یوں تو اعلیٰ سطح پر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن سب کھوکھلے ،بڑی بڑی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں مگرزمینی سطح پرکوئی دوسرا ہی کھیل چلتا رہتا ہے۔کہنے کے لئے تو پولیس چھاپہ مارکارروائی بھی کرتی ہے لیکن نہ توکسی کو سزاملتی ہے اورنہ ہی کسی دکان کا لائسنس ضبط کیا جاتا ہے۔پولس و انتظامیہ کے رول سے ایسا لگتا ہے گویا پورے نظام نے ہی ملاوٹ خوروں کو بچانے اوران کو فروغ دینے کا کمٹ منٹ کر رکھا ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ملاوٹ خوروں کے خلاف مہم بھی شروع کرتی ہے اور مہم کی کامیابی کے قصیدے بھی پڑھے جاتے ہیں لیکن نتیجہ جوں کا توں رہتاہے۔ ملاوٹ خوروں کے حوصلے پست کبھی نہیں ہوتے، انہیں کبھی یہ خوف محسوس نہیں ہوا کہ ان کا یہ کام ان کی اور اہل خانہ کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ حکومت کی جانب سے کوئی مہم شروع کی جائے اوراس کی باضابطہ نگرانی بھی کی جائے اورملاوٹ خوروں کو سخت سزائیں دی جائیں اورپھر بھی ملاوٹ خوری جاری رہے ؟یہ ہرگزممکن نہیں ہے، دراصل حقیقت یہ ہے کہ ملاوٹ خور کوئی چھوٹے بنئے یا کسان نہیں بلکہ بڑے بڑے تاجر ہیں جنہیں بڑے بڑے سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے یا یوں کہیں کہ ان سیاستدانوں کا خرچہ پانی ہی ان تاجروں کے گھر سے چلتا ہے۔ملاوٹ خوری اتنا ڈھکا چھپا کام نہیں ہے، اس کام کے بارے میں سب کو معلوم ہوتا ہے۔ پولس جانتی ہے، انتظامیہ جانتی ہے، حکومت جانتی ہے اور یہاں تک کہ عام آدمی بھی جانتا ہے۔ پولس، حکومت و انتظامیہ تو پیسے کے لالچ میں کچھ نہیں کر پاتی لیکن عام آدمی واقعی مجرمانہ طور پر خاموش رہتا ہے اور اس کی خاموشی بجا بھی ہے کیونکہ سانپ کے بل میں ہاتھ وہ کیوں ڈالے؟ ملاوٹ خوروں کے پیچھے پولس ہے، انتظامیہ ہے، حکومت ہے اور سیاستداں ہیں۔ کوئی شخص اپنی جان مصیبت میں ڈال کرملاوٹ کی اطلاع دینے کے لئے آگے کیوںآئے؟یوں بھی مختلف سطحوں پربے ضابطگیوں کی اطلاع دینے والوں کی حفاظت کرنے میں حکومت اب تک ناکام ہی رہی ہے۔اکثرایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں کہ سماج کا کوئی فرداگرملاوٹ خوروں کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی ظاہرکرتاہے تواسے اپنی جان تک گنوانی پڑجاتی ہے۔تاہم یہ بات دیگر ہے کہ کسی نہ کسی  کو تو بدعنوانی اور ملاوٹ خوری کے خلاف آواز اٹھانی ہی ہوگی اور جان کی قربانی بھی دینی ہوگی۔ اگر گاندھی بھی یہی سوچ کر بیٹھ جاتے کہ میں کیوں آزادی کی تحریک چھیڑوں، ملک میں تو کروڑوں لوگ رہتے ہیں تو شاید ملک ابھی تک آزاد نہ ہوا ہوتا۔ سوناونے کے قتل کو کون بھول سکتا ہے۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایماندار تھے اور انھوں نے ملاوٹ خوروں کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی، جس کی سزا انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھوکر چکانی پڑی، ملاوٹ خوروں نے سوناو نے کو زندہ جلا کر ہلاک کردیا۔ایک پولس اہلکار کو زندہ جلاکر مار دیا جاتا ہے تو پھر عام آدمی کی کیا بساط ہے۔اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ملاوٹ خوروں کے حوصلے کتنے بلند ہیں؟ایسی بھیانک واردات وہ تبھی انجام دے سکتے ہیں جب اعلیٰ سطح پر انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہو۔
بہر حال ہمارا یہ کہنا ہے کہ ملاوٹ خوروں کے خلاف ملک گیر مہم چھیڑی جائے اورقصورواروں کو ایسی سخت سزا ملے کہ دوسرا کوئی آدمی ملاوٹ کے نام سے ہی کانپ اٹھے۔جیسے بدعنوانی کے خلاف انا ہزارے نے آواز بلند کی اور پورا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا ویسے ہی ملاوٹ خوری کے خلاف بھی کوئی انا ہزارے سامنے آئے اور پورا ملک اس کی حمایت کرے۔

Friday 15 April 2011

نئی نسل کا اردو ذوق و شوق پرانی نسل کے لئے سبق ہے

وسیم راشد /waseem rashid
سیاسی مضامین لکھتے لکھتے کبھی کبھی دل گھبرانے لگتا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی دہلی آمد۔ ہند-پاک کرکٹ میچ، شنگلو کمیٹی کی حکماء اور بھنوٹ کو سرزنش۔ پاکستان کی مذہبی جماعت جمعیۃ علماء اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر حملہ وغیرہ اور ان سب کے دوران یہ خبر کہ ہم ہندوستانی اب ایک ارب 21 کروڑ ہوگئے ہیں اور یہ خوش خبری بھی کہ آبادی میں اضافہ کی شرح میں کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری اردو کتاب میلہ۔ اب آپ سوچ رہے ہوںگے کہ ان سب سیاسی ہنگامہ خیز یوں میں یہ اردو کتاب میلہ کہاں سے آگیا تو ہوا یوں کہ ہم نے تو قلم اٹھایا تھا ہند-پاک کرکٹ میچ ڈپلومیسی پر لکھنے کے لیے لیکن ایک صاحب تشریف لائے جو کافی مشہور و معروف اردو والے ہیں اور اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں۔ خود کو اردو والے کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو بہت ہی حقارت سے یہ کہہ کر کہ ’’ہیں نا اردو والے‘‘ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ان کا اردو والوں سے یہ شکوہ تھا کہ یہ نہ اردو کی کتابیں خریدتے ہیں نہ اردو کے فروغ میں کچھ حصہ لیتے ہیں۔ اردو کے پروفیسرز، لیکچررز، ریڈرزسے تو وہ بہت ناراض تھے کہ یہ اتنی زیادہ تنخواہ تو لے لیتے ہیں مگر اردو کی کتابیں خریدنے میںان کے ہاتھ جیبوں تک جاتے ہی نہیں۔ خیر یہ تو ان کی رائے تھی ، لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اردو کتاب میلے پر ہی اس بار لکھا جائے، میلے کے دوران ہم بھی لگاتار وہاں حاضری لگا رہے تھے، کیوں کہ ’’چوتھی دنیا‘‘ کا ہمارا اپنا اسٹال لگا ہوا تھا، اس کے علاوہ ہر سال جہاں بھی یہ میلہ لگتا ہے، ایک عجیب سی کشش کے تحت ہم بھی کھنچے چلے جاتے ہوں۔ قومی اردو کونسل، مکتبہ جامعہ اور دہلی اردو اکادمی کے تعاون سے یہ میلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم کے باہر والے وسیع و عریض لان میں لگایا گیا تھا۔ قومی اردو کونسل جس طرح اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کام کر رہی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ تقریباً ایک سال سے کونسل کے پروگراموں میں لگاتار شرکت کر رہی ہوں اور اسکول و کالج کی سطح پر اردو زبان کے مسائل، اردو زبان کی تدریسی کتابوں کے مسائل، اردو میں کمپیوٹر کورس اور اب نوجوان صحافیوں کے لیے تربیتی کورس یہ سب وہ کام ہیں جو اردو کونسل نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کے بغیر مہم کی طرح انجام دے رہی ہے۔ بلاشبہ حمیداللہ بھٹ صاحب لائق ستائش ہیں جو بار بار اردو والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اردو کتاب میلہ بھی اس کی ایک کڑی تھی، جو کونسل کی جانب سے ہر سال کسی نہ کسی شہر میں لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح دہلی اردو اکادمی کو نہ جانے یہ ہلکے سے گندمی رنگ والا ہیرا اخترالواسع کی شکل میں کہاں سے مل گیا۔ ہیرے کا رنگ سفید ہوتا ہے یہ تو دیکھا ہی تھا اور سنا بھی پر یہ یاقوتی ہیرا تو بے مثال ہے۔ کس قدر کام ان کی تقرری کے بعد دہلی اردو اکادمی اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انجام دے رہی ہے۔ وہ ایک فعال وائس چیئرمین کی موجودگی کا ہر جگہ احساس کراتے ہیں اور پھر اس اکادمی کو نوجوان فعال سکریٹری انیس اعظمی کی شکل میں مل گیا گویا معاملہ دو آتشہ ہوگیا۔ اب یہ دونوں راغب صاحب، شمیم صاحب جو کہ اکادمی کے سرگرم ارکان میں ہیں اور دوسرے اراکین کی مدد سے لگاتار بس اردو کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور مکتبہ جامعہ تو وہ ادارہ ہے جس کو ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب اور ڈاکٹر عابد حسین جیسی شخصیات کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ گویا یوں کہہ لیجیے کہ اس اردو میلے کو بہتر سے بہتر بنانے میں ان سبھی اداروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر مگر مگر، اب آگے اس مگر کے درد کا بھی احساس کراتے چلتے ہیں۔ جامعہ کے وسیع و عریض لان میں لگے اس میلے میں غالب انسٹی ٹیوٹ، انجمن ترقی اردو ہند، دی سنڈے انڈین، عاکف بک ڈپو، انجم بک ڈپو، الکتاب پبلی کیشنز، البلاغ پبلی کیشنز، ملی پبلی کیشنز وغیرہ کم سے کم 50 اسٹال لگے ہوئے تھے بے حد خوبصورتی سے ہر اسٹال سجایا گیا تھا، مگر سبھی اسٹالوں پر اکا دکا ہی بھیڑ نظر آرہی تھی۔ سبھی کا یہ کہنا تھا کہ دیکھنے کو تو بہت لوگ آتے ہیں، مگر خریدنے والے کم ہیں۔ ہاں ایک خوش آئند بات بھی دیکھنے کو ملی کہ نوجوان نسل اس میلے میں اردو میں کچھ مشہور کتابوں کے تراجم تلاش کرتی ہوئی نظر آئی جیسے الحسنات سے شائع مائیکل ہارٹ کی کتاب کا اردو ترجمہ سو عظیم آدمی، جے کرشنا مورتی کی کتاب کا اردو ترجمہ زندگی کی اہمیت وغیرہ کتابوں کی زیادہ مانگ تھی۔ مگر سبھی اسٹال مالکان کا یہ کہنا تھا کہ اگر صرف دہلی کے ہی سارے اردو استاد اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے کتابیں خریدنے پر آجائیں تو ہزاروں کی سیل ہوسکتی ہیں۔ خود مجھے اس بات کا تجربہ ہوا کہ ’’چوتھی دنیا‘‘ کے اسٹال پر بھیڑ لگی رہی، سب نے اس کے کاغذ کی، طباعت کی، کلر اسکیم کی، مواد کی بے حد تعریف کی، مگر اس کی صرف اور صرف 250 روپے سالانہ ممبر شپ لینے میں نوجوان ہی آگے آگے رہے۔ وہی اس اخبار کو اٹھا کر دیکھتے تھے اور بے حد متاثر ہوکر داد دیتے تھے اور پھر اس کے ممبر بن جاتے تھے۔ یہ سب ہم صرف ایک تماشائی کی طرح دیکھ رہے تھے اور دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے تھے، مگر یہ سب بہت ہی خوش کن تھا۔ کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ اور مشہور اردو ہستیوں کو تو یہ زعم تھا کہ ہم کو تو اخبار مفت میں ملنا چاہیے اور تو آپ ہمیں بھیج ہی رہے ہیں ہم پڑھ بھی رہے ہیں، یہ بھی کیا کم احسان ہے اور پھر آپ کا ادبی صفحہ ہمارے دم سے ہی چھپ رہا ہے، مگر یقین جانییہمیں ان کے ممبر نہ بننے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا نوجوان نسل کے ممبر بننے کی خوشی۔
اس اردو میلے کو کامیاب بنانے میں قومی اردو کونسل، دہلی اردو اکادمی نے جیسے جان لگادی۔ روز ہی کوئی نہ کوئی ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا۔ ایسے ایسے ادباء اور شعراء کو بلایا گیا، جس کو دیکھنے اور سننے کے شوق میں اس میلے کی رونق بڑھ جائے۔ مشاعرہ، قوالی، شام غزل، ڈراما وغیرہ غرضیکہ ہر عمر اور ہر طرح کے شوق رکھنے والوں کے لیے دہلی اردو اکادمی نے جتنی بھی محفلیں سجائیں، وہ لائق ستائش تھیں اور اس بات کا ثبوت کہ اردو کی ترقی کے لیے اس کی آبیاری کے لیے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا، بس اس زبان کا پودا ہرا بھرارہے۔ اپنے اس اداریہ میں ہم نے بے جا کسی کی تعریف نہیں کی، کیوں کہ ہم نے جو دیکھا، محسوس کیا اور جو جذبہ نظر آیا، اس کو من و عن بیان کردیا، کیوں کہ یہی رونا رویا جاتا ہے کہ اردو کے لیے اردو والے کچھ نہیں کرتے، مگر ہم یہ کہیںگے کہ اردو والوں میں اردو اداروں کو مت جوڑیے۔ ادارے تو اپنا کام کر رہے ہیں، مگر اردو والوں میں ہم اور آپ آتے ہیں۔ اس زمرے میں ہمارا اور آپ کا ہی تعاون درکار ہے اور ہم اردو والے اس کی بدحالی کے خود ذمہ دار ہوںگے، کیوں کہ ہر سطح پر اردو کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہنا ہے کہ صرف مشاعرے اردو کی بقا کے لیے کافی نہیں ہیں۔ مشاعروں سے زبان کا زوال ہو رہا ہے۔ زبان کو اگر بچانا ہے اور اس کے لیے نسلیں تیار کرنی ہیں تو اسکول کی سطح پر جنگی پیمانے پر یہ کام کرنا ہوگا۔ اردو کتاب میلہ سال میں ایک بار نہیں ہر شہر میں کم سے کم تین چار بار لگنا چاہیے اور اس کے لیے سبھی اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور اردو کے سبھی اساتذہ کو بھی اپنے اپنے اسکول و کالج کے بچوں کو میلے میں لانا چاہیے تاکہ ان میں کتابیں خریدنے کا ذوق و شوق پیدا ہو۔ اس میلے میں سوائے جامعہ کے اور کسی اسکول کے بچے نظر نہیں آئے۔ دہلی میں اردو میڈیم اسکول کتنے ہیں اس کی تعداد کا تو ہمیں اندازہ نہیں، مگر دہلی کے ہر علاقے میں کم سے کم 4اردو میڈیم اسکول ہیں، اس کے علاوہ دہلی کے کچھ ایسے بھی انگلش میڈیم اسکول ہیں جن میں اردو پرائمری سے سینئر سکنڈری تک پڑھائی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں، ہمدرد، نیوہورائزن، کریسنٹ، شفیق میموریل، ڈی پی ایس متھرا روڈ، نوئیڈا ایم اے ایف اکیڈمی، اس کے علاوہ اوکھلا میں ہی کئی اسکول ہیں، غرضیکہ اگر ان اسکولوں کے اساتذہ اپنے اسکول کی پرائمری سے سینئر سکنڈری تک کی کلاسوں کو بھی اس میلے میں وزٹ کراتے تو کوئی وقت ایسا نہ ہوتا جب اس میں بھیڑ نہ ہوتی اور اردو کتابوں کی سیل بھی بے پناہ ہوتی۔ بچے چھوٹی چھوٹی شاعری کی کتابیں ہی خریدتے یا چھوٹی چھوٹی کہانیاں، اس سے ان میں ذوق و شوق بھی پیدا ہوتا اور زبان کی اصلاح بھی ہوتی۔
ہم کو تو دو ٹوک لکھنے اور کہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے، کیوں کہ ہمارے اخبار کی پالیسی میں ہے سچ کہنا، دو ٹوک کہنا اور سکھی رہنا۔

Monday 11 April 2011

اردو کی مٹھاس میں کڑوی سچائی کو مت چھپایئے

وسیم راشد /Waseem Rashid
پانچ ریاستوں میں الیکشن بگل بج چکا ہے اور جب سے الیکشن کا اعلان ہوا ہے ہر طرف کھلبلی مچ گئی ہے۔ کہاں کتنی سیٹیں کس پارٹی کو ملیںگی؟ کیا جوڑ توڑ ہوگا؟ مسلم ووٹ کتنے ہوںگے؟ کانگریس پارٹی کا کیا رول رہے گا؟ بی جے پی اپنا کون سا ترپ کا پتہ کھیلے گی وغیرہ۔ مگر ایسے وقت میں وکی لیکس کے انکشافات نے کانگریس کے کردار کو پھر سے مشکوک کردیا ہے۔ یوپی اے گورنمنٹ کے لیے یہ باری بہت مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ مسلسل گھوٹالوں کی سنگ باری سے بے حال ایک اور انکشاف نے تو جیسے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 2008 میں اعتماد کا ووٹ جیتنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ کو رشوت دے کر ووٹ حاصل کرنے کے الزام سے نبردآزما یوپی اے سرکار ان پانچ ریاستوں میں اور پھر اگلے پارلیمانی الیکشن میں کس حد تک عوام کا اعتماد حاصل کرے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر سچائی کو اردو اشعار کی مٹھاس میں جس طرح چھپایا جارہا ہے، وہ قابل افسوس ہے۔ ادھر سشما سوراج طنزیہ انداز میں یہ شعر پڑھتی ہیں کہ:
ادھر اُدھر کی تو نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
ہمیں رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
پہلی بات تو یہ کہ اتنا بڑا الزام اتنی بڑی بات کے لیے شعر کہہ کر اس کا وزن ہی ختم کردیا گیا۔ سیاست میں نعرہ بازی چلتی ہے، الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کا کام شعر و شاعری سے ماحول کو گرمانا نہیں، بلکہ حقیقت کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ اپوزیشن کا لیڈر شیر ہوتا ہے جو دن رات عام لوگوں کی تکالیف کو لے کر حکومت پر گرجتا رہتا ہے اور حکومت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے مفاد کو ان دیکھا نہ کرے۔ ان کے مسائل کو سلجھائے۔ یہاں تو معاملہ رقم برائے ووٹ کا تھا، یہاں تو معاملہ پوری حکومت کے بننے کا تھا۔ اپوزیشن کا کام حکومت کو ہر وقت پریشان رکھنا اور جواب طلبی کے لیے تیار رکھنا ہوتا ہے۔ ایک صحت مند اور کامیاب جمہوریت کے لیے مضبوط اور ذمہ دار اپوزیشن بہت ضروری ہے۔ اگر اپوزیشن ہی کمزور ہوگی تو حکومت کو جگائے گا کون؟ اپوزیشن کا کام ایوان چلانے میں تعاون دینے سے لے کر حکومتی پالیسیوں پر سوال پوچھنے اور عام آدمی کے مفاد کے لیے حکومت کو پالیسیاں بنانے پر مجبور کرنا بھی ہے۔ جمہوریت آخر حکمراں اور اپوزیشن کے بہتر تال میل اور اور امتزاج سے ہی تو چلتی ہے۔ اگر اپوزیشن ذمہ دار نہیں ہوئی تو حکمراں جماعت کے تانا شاہ ہوجانے کا خطرہ ہے۔ حکمراں جماعت بے لگام ہوسکتی ہے اور اپنی مرضی سے تمام فیصلے لے سکتی ہے اور منموہن حکومت میں یہی ہو رہا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن صرف احتجاج کے لیے مخالفت کرتی ہے، تب بھی جمہوریت کے بنیادی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اگر عوام کے مفاد کے لیے حکومت کوئی فیصلہ لیتی ہے تو اپوزیشن کو اس کا ساتھ بھی دینا چاہیے، حکومت کے پاس اگر کم ممبران پارلیمنٹ ہیں تو اپوزیشن جماعت کی حمایت سے ہی تو ضروری کام پورے ہوںگے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ کامیاب جمہوریت کے لیے حکمراں اور اپوزیشن دونوں کو ہی اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا بی جے پی ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرپارہی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ یوپی اے حکومت کی تشکیل کے بعد سے آج تک پارلیمنٹ میں بی جے پی کا کردار دیکھیں تو بڑی آسانی سے اس کا جواب مل جائے گا۔ اٹل بہاری واجپئی جیسا لیڈر تو شاید اب بی جے پی کو نصیب نہ ہو، مگر اڈوانی جی نے بھی خود کو مذاق کا حصہ بننے دیا۔ جب منموہن سنگھ ان پر مسکراتے ہوئے وار کرتے ہیں کہ اڈوانی جی نے وزیراعظم بننا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا تھا، مگر وزیراعظم میں بن گیا اور اڈوانی جی نے مجھے معاف نہیں کیا ہے اور انہیں اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ابھی مزید تین سال اور انتظار کرنا ہوگا۔تو اڈوانی جی سوائے ایک میٹھی مسکراہٹ کے اور کچھ کرتے نہیں۔
مجھے اس وکی لیکس کے ایک پرمزاح جملے میں نہ تو کوئی لطف آیا نہ ہی کوئی ہنسی آئی، بلکہ غصہ آیا۔ اڈوانی جی کی مسکراہٹ پر اور سشماسوراج کے ہنستے مسکراتے چہرے پر وزیراعظم نے تو مسکرا کر کہہ دیا اور اپنا دامن بچالیا، مگر اپوزیشن یہاں بھی ناکام رہی، کیوں کہ جب مسئلہ گمبھیر ہو اور اس پر بحث چھڑی ہو تو ہنسی مذاق اس مسئلے کی سنگینی کو ختم کردیتا ہے اور وہی ہوا۔ منموہن سنگھ نے نہایت شاطرانہ انداز میں شطرنج کی اس بساط میں اپنے گھوڑے کو ایسا الٹا چلایا کہ پوری بازی ہی الٹ دی اور خود کو بادشاہ ثابت کرتے ہوئے بری طرح مات دے دی۔ بس یہی چیز مجھے بے تحاشہ مجبور کرگئی، اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے، مجھے نہایت دکھ ہورہا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ بی جے پی ایک اندھی، لولی، لنگڑی، کانی بہری اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو اٹھاتی ہے اور بڑے مسائل پر ہنسی ٹھٹھوں اور مسخرے پن سے اس مسئلے کی اہمیت اور اس کی سنگینی کو ختم کر دیتی ہے۔ پر وہی بات ہے نا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو، مگر یہاں تو بی جے پی کا کردار خود مشکوک ہے۔ اس کا اپنا دامن داغدار ہے تو وہ حکومت کو کیسے گھیرے گی؟ جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے گزشتہ حکومت کا دور یاد کریں تو کمیونسٹ جماعتوں نے ہی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا۔ کئی مسئلوں پر حکومت کو باہر سے حمایت دے رہے بایاں محاذ نے ہی گھیرا تھا۔ جب کہ بی جے پی ممبران پارلیمنٹ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔ بی جے پی کے پاس اس وقت وکی لیکس کا تازہ انکشاف اتنا اہم مسئلہ تھا کہ جس پر وہ حکومت کو گھیر سکتی تھی۔ کپل سبل کے اس بیان پر کہ یہ سب اپوزیشن نے کرایا ہے اور یہ سارا پلان اپوزیشن کا ہے  کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ کتنے مضحکہ خیز بیان دیے فینانس منسٹر پرنب مکھرجی نے۔ کس قدر غیر منطقی اور غیرواضح بیان تھے کہ معمولی سی بھی سیاسی سمجھ رکھنے والے کو اس پر ہنسی آجائے۔ مگر اپوزیشن نے وزیرمالیات کے اس بیان پر بھی کہ جو خطا 14 لوک سبھا میں سرزد ہوئی، اس کے لیے 15 ویں لوک سبھا جواب دہ نہیں ہوسکتی، کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ میں ونوددوا کا لائیو پروگرام دیکھ رہی تھی، جس میں اس بیان پر ونوددوا نے کافی زبردست دلائل دیے، جس میں ایک مجھے پسند آیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جن مجرموں کو جرم کرتے ہوئے پکڑا جائے، ان کو اگلی حکومت آنے پر چھوڑ دیا جائے، کیوں کہ یہ الزام تو پچھلی حکومت کے وقت میں لگایا گیا تھا۔ کیسا مضحکہ خیز بیان ہے۔ خدا کی قسم غصہ آجاتا ہے کہ کیا کردار ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کا جن کو ہمارے معصوم عوام اپنے قیمتی ووٹ سے مسند شاہی پر بٹھاتے ہیں، اس لیے کہ وہ جم کر بدعنوانی کریں، جم کر عوام کا خون چوسیں اور جب یہی عوام ان سے جواب طلب کریں تو یہ ہنسی مذاق کر کے، شعر پڑھ کر اور گھٹیا دلائل دے کر اس مسئلہ ہلکا کردیں۔ ویسے بھی یہ کوئی پہلا موقع تو ہے نہیں کہ کانگریس پر اس طرح کی ارکان پارلیمنٹ کی خریداری کا الزام لگا ہو۔
جب نرسمہاراؤ جی وزیراعظم تھے تو بھی یہ الزام لگا یا گیا تھا۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ارکان پارلیمنٹ کو رقم دے کر ووٹ خریدے گئے تھے۔ وزیراعظم یہ شعر پڑھ کر:
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
سشما سوراج پر پھپھکی کس کر اڈوانی پر اقتدار کی ہوس کا الزام لگا کر اپنا دامن نہیں بچاسکتے۔ اپوزیشن پر یہ الزام لگانا کہ اسٹنگ آپریشن کر کے یوپی اے کی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سراسر غلط طریقہ ہے۔ خود پر سے الزام ہٹانے کا اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا۔
پہلے ریل بجٹ آیا، پھر ملک کا عام بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوا۔ مہنگائی بڑھتی گئی، آمدنی گھٹتی گئی۔ مگر بی جے پی نے کسی بھی مسئلہ پر حکومت کو نہیں گھیرا۔ بی جے پی دراصل ناکارہ ہوچکی ہے۔ وہ نہ حکومت کو گھیرپارہی ہے نہ خود کو مضبوط کرپارہی ہے، بلکہ ایمانداری سے پوچھئے اور مجھے تھوڑا بے باک ہونے دیجیے تو پوری کی پوری مشنری ہی فیل ہوچکی ہے۔ چوری، کالابازاری، رشوت خوری، مہنگائی، کرپشن، جرائم سب نے مل کر پورے ملک کے نظام کو کھوکھلا کردیا ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے میرے اس وطن عزیز کا۔

جاپانیوں کو ہمدردی کی ضرورت ہے

Waseem Rashid
جاپان کے حالیہ بحران کے حوالے سے مختلف لوگ مختلف قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ جاپان چونکہ ایک ناستک ملک ہے ،جاپانیوں کے نزدیک خدا کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لیے جاپان پر یہ قیامت صغریٰ ٹوٹی ہے۔ بہت سے لوگ ایس ایم ایس کے ذریعہ یہ بات عام کر رہے ہیں کہ جاپان دنیا کا ایسا پہلا ملک ہے جہاں حجاب پر سب سے پہلے پابندی عائد کی گئی اور قرآن کی تعلیم پر پابندی بھی سب سے پہلے جاپان میں ہی لگائی گئی۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جاپان میں اس طرح کے طوفان یا سونامی کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ جاپان ایک ایسی جگہ بسا ہوا ملک ہے جہاں اس طرح کی تباہ کاریوں کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جاپان کی اس سونامی کو2012کے حوالے سے کی جانے والی پیش گوئی کا آغاز مان رہے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ2012میں دنیا ختم ہو جائے گی یعنی قیامت آجا ئے گی۔ بہر حال جتنے منہ اتنی باتیں۔
ہر چند کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جاپان کے لوگ اتنے محنتی اور جفاکش ہیں کہ وہ تمام طرح کی آفات کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور ان آفات سے نمٹنے کے لیے ان کی تیاریاں بھی حیران کن ہوتی ہیں ،اگر کوئی دوسرا ملک جاپان کی جگہ پر ہوتا تو شاید کب کا ختم ہو گیا ہوتا؟ ہاں یہ بات دیگر ہے کہ اس بار کا زلزلہ شدید ترین تھا اور اس کے نتیجہ میں آئی سونامی بھی شدید ترین تھی۔ واضح ہو کہ جاپان میں اس بار زلزلے کی شدت رکٹر پیمانے پر 8سے9 پوائنٹ کے درمیان تھی۔8سے 9پوائنٹ کے درمیان ہم اس لیے کہہ رہے ہیںکیونکہ جاپان کی میٹرولوجیکل ایجنسی نے اس زلزلے کی شدت کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی شدت ریکٹرا سکیل پر 9 تھی اور یہ دنیا کی تاریخ کا شدت ترین زلزلہ تھا، جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے نے اس کی شدت رکٹر پیمانے پر 8 اعشاریہ9بتائی تھی۔بحر حال زلزلہ اتنہائی شدیدتھا اور یہی وجہ ہے کہ جاپانی قوم اس زلزلے کی تباہ کاری سے اپنے آپ کو بچا نہیںپائی۔
جاپان میں سونامی کے نتیجے میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ،کتنے بے گھر ہو ئے یہ بتا پانا ابھی مشکل ہے ،کیونکہ جب یہ مضمون قلم بند کیا جا رہا ہے اس وقت تک جاپانی پولیس کے مطابق زلزلے اور سونامی سے چھ ہزار چار سو پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ دس ہزار دو سو لاپتہ ہیں۔ تاہم جاپانی خبر رساں ادارے کیوڈو کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تو ان لوگوں کی ہے جن کے ناموں کا اندراج پولیس کے پاس ہے اور اصل تعداد دسیوں ہزاروں میں ہے نیز لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ممکن ہے آگے آنے والے اعدادو شمار کافی چونکانے والے ہوں۔
تابکاری کے سبب بھی ہزاروں لوگوں کی ہلاکت کا امکان ہے۔کیونکہ فوکوشیما جوہری پلانٹ میں کئی دھماکوںسے تابکاری فضا میں پھیل گئی جس کے اثرات روس تک میں بھی محسوس کئے گئے۔ یعنی جاپان پھر 1945والے موڑ پر کھڑا ہے۔ 1945کا حادثہ آپ کو یقینی طور پر یاد ہوگا اگر یاد نہیں ہے تو سنا یا اس کے بارے میں پڑھا ضرور ہوگا۔ ایسا حادثہ جس نے جاپان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی؟ جس کے اثرات آج بھی جاپان کی زمین اور انسانوں میں موجود ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ کے ذریعہ جاپان پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کی۔6اگست 1945کی منحوس صبح جاپانیوں پرایسا قہر بن کر ٹوٹی جس نے جاپان کو برسوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اس دن امریکی فضائیہ نے جاپان کے ہیرو شیما پرایٹم بم ’’لٹل بوائے‘‘ گرایا تھا۔ تین روز بعد پھر امریکہ نے ناگاساکی شہر پر’’فیٹ مین‘‘ ایٹم بم گرایا۔ حقوق انسانی کے علمبردار امریکہ کے اس قہر سے جاپان کے یہ دونوں شہر پوری طرح تبا ہ و برباد ہو گئے تھے۔ اندازے کے مطابق، صرف ہیرو شیما پر دھماکے کے نتیجے میں 70ہزار افراد موت کے منہ میں جاچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور اگر کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری کے بعد مرنے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ تک پہنچی تھی۔ 60 فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ 30 فیصد ملبہ گرنے اور 10 فیصد دیگر وجوہات سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
ناگا ساکی کی اگر ہم بات کریں تویہ دھماکہ ہیروشیما سے بھی کہیں زیادہ بڑا اور وزنی تھا اور اس سے پیدا ہونے والی تپش کا درجہ حرارت 3900 ڈگری سیلسیس یا 7ہزار ڈگری فارن ہائٹ تھا نیز اس سے پیدا ہونے والے آگ کے شعلوں کی رفتار ایک ہزار پانچکلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس کے نتیجے میں تقریباً 20 ہزارعمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھیں۔ اندازے کے مطابق اس ایٹمی حملے میں 40ہزار افراد ہلاک اور 60ہزار زخمی ہوئے تھے اور جنوری 1946 تک اندازہ لگایا گیا تھا کہ 70ہزار افراد ہلاک ہوچکے تھے۔
تودیکھا آپ نے حقوق انسانی کے علم بر دار کی تباہ کاری کا نمونہ۔ اس سب کے باوجود جاپان نے ترقی کی رفتار جاری رکھی اور موجودہ وقت میں وہ امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔آج پھر جاپان کا فوکوشیما شہر تباہ و برباد ہوا چاہتا ہے۔ آج پھر جاپان کے سامنے 1945کے حالات اپنی باہیں پھیلائے کھڑے ہیں۔تاہم جاپانی قوم کے صبرو استقلال اور امیدکی سطح اتنی بلند ہے کہ اس تک اس جیسے ہزار زلزلوں کی رسائی بھی نا ممکن ہے۔ آج بھی جاپانی قوم کے چہروں سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی ہے۔وہ ہمت اور حوصلے سے کام لے رہے ہیں اور ناامیدی توجیسے انہیں چھو کر ہی نہیں گزری۔ امید ہے وہ جلد ہی اس بحران سے نجات حاصل کر لیں گے اور پھر دنیا میں اپنی ترقی کے جھنڈے گاڑیں گے۔
خیال رہے کہ شمال مشرقی علاقے میں سونامی نے جو قہر ڈھایا ہے وہاں ہر ہزار برس میں اس طرح کی قدرتی آفت آسکتی ہے، کیونکہ وہ علاقہ ایسی جگہ پر ہے جہاں چٹانیں دوسری جگہوں کے مقابلے زیادہ تیزی سے کھسکتی ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ دنیا میں تیاری کے حوالے سے جاپان سے زیادہ بہتر کوئی بھی جگہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر آپ 7یا7.5 پوائنٹ تک کی ہی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، لیکن9 کے ا سکیل سے زیادہ پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین کی ایک تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ869 میں جوگان میں جو تباہی آئی تھی اس میں سونامی کا پانی زمین کی سطح پر چار کلومیٹر اندر تک پہنچ گیا تھا اور اس سے بڑے پیمانے پر سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔حالیہ سونامی کی لہریں دس میٹر تک اونچی تھیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ زمین پر کتنی دور تک پہنچیں لیکن اطلاعات کے مطابق شاید وہ کئی میل تک گئیں۔
جاپان چونکہ اس وقت شدید ترین بحران کا سامنا کر رہا ہے اس لیے پوری دنیا کے انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت جاپان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں اور بے ہودہ یا غیر انسانی تبصروں سے اجتناب کریں۔ دنیا میں سب سے بڑی چیز انسانیت ہے، اس لیے انسانیت کے ناطے انسانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ یہ قطعاً ہمیں نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم محفوظ ہیں یا ہماری تیاریاں اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ قدرت جب کسی پر قہرڈھاتی ہے تو بے حساب ڈھاتی ہے اور تمام تر تیاریاں دھری رہ جاتی ہیں۔یہ کہنا بھی اپنے آپ میں انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ جاپان میں قرآن کی تعلیم پر پابندی ہے اس لیے اللہ نے اس پر یہ عذاب بھیجا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو قرآن کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے، تو پھر کیوں گزشتہ برس وہاں اتنا بڑا سیلاب آیا جس نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا اور ہزاروں لوگوں کو نگل گیا۔ کیا ہمیں پاکستان اور ایران کا زلزلہ بھی یاد نہیں ہے۔ یاد تو ضرور ہے لیکن ہم حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ بات قرآن کی تعلیم پر پابندی یا اس کی تعلیم دینے کی نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ہے۔ کیا ہم قرآنی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر ہم ایمانداری سے اپنے ضمیر کی آواز سنیں تو اس کا جواب ہمیں یقینی طور پر مل جائے گا اور وہ جواب نفی میں ہی ہوگا۔ لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جاپانی قوم کی مدد کے لیے آگے آئیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں۔