Monday 1 August 2011

آخریہ بم دھماکے ہوتے ہی کیوں ہیں ؟

وسیم راشد
دہشت گردی ایک ایسا مرض ہے جس نے آج کل پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسے روکنے کی جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس میںاتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مرض کچھ اور ہے اور علاج کچھ اور ہی کیا جا رہا ہے۔ سرکار کو پتہ ہے کہ مرض کی اصل جڑ کہاں ہے، لیکن ووٹ بینک کی سیاست سے مجبور ہو کر وہ لوگوں کے دھیان کو بھٹکانا چاہتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے…
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اور شاید یہ آگے بھی ہوتے رہیں، اگر چند بنیادی کمزوریوں کو ٹھیک نہ کیا گیا۔ یہ بنیادی کمزوریاں نہ صرف شہریوں کے اندر ہیں بلکہ پولس نظام اور ملک کی ان ایجنسیوں میں بھی ہیں جن کے اوپر قانون کو نافذ کرنے اور نظم و نسق کو بنائے رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں دہشت گرد بڑی خاموشی سے اپنا کام انجام دیتے رہیں اور پولس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ میں نے چند دنوں پہلے ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران فوج کے ایک جنرل کی زبانی سنا تھا کہ ملک کے اندر سب سے بہتر انٹیلی جنس پولس محکمہ کے بیٹ انچارج (Beat Incharge) کے پاس ہوتا ہے، یعنی وہ پولس والا جسے کسی چوراہے، گلی محلے یا کسی چھوٹے علاقہ میں تعینات کیا جاتا ہے، اس کے پاس خفیہ خبر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ ملک کی بڑی سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی سے زیادہ پختہ خبر پہنچا سکتا ہے۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ گلی، محلوں اور چوراہوں پر تعینات یہ پولس والے آخر کرتے کیا ہیں؟
میں نے اکثر و بیشتر راہ سے گزرتے وقت یہ دیکھا ہے کہ کوئی پان بیڑی بیچنے والا یا پھر سڑک کے کنارے ریہڑی لگانے والا کسی پولس والے کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے یا پھر اس کے ساتھ تلخ کلامی کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے جب قریب سے جاکر اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ چونکہ وہ پان بیڑی بیچنے والا یا ریہڑی لگانے والا پولس والے کو اپنی دکان غیر قانونی طریقے سے لگانے کی وجہ سے پیسے دیتا ہے اس لیے اسے پولس والے سے ڈر نہیں لگتا۔ پولس والا سے اس کی اکثر و بیشتر جھڑپ اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ وہ پولس والے اس سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اس پولس والے کی جگہ پر، جسے وہ پہلے پیسے دیا کرتا تھا، اب کوئی نیا پولس والا آگیا ہے اور اس سے زیادہ پیسے وصول کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح ہم سب نے اکثر و بیشتر سڑکوں پہ دیکھا ہوگا کہ پرائیویٹ بس کے ڈرائیور یا کنڈکٹر ٹریفک پولس سے نہیں ڈرتے، اور بہت ہی غلط طریقے سے بس چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں اور آخر کار دہلی حکومت کو سڑکوں سے پرائیویٹ بسوں کو ہٹانے کا فیصلہ لینا پڑا۔ پرائیویٹ بس والا یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے پولس کو پیسے کھلائے ہیں، لہٰذا اسے غیر قانونی طریقے سے بس چلانے کا اور لوگوں کو مارنے کا گویا سرٹیفکیٹ حاصل ہو گیا ہے، اس لیے وہ پولس والے سے نہیں ڈرتا۔لیکن اس کے برعکس ایک شریف آدمی ہر وقت پولس والے سے ڈرتا ہے۔  ان دونوں مثالوں کا اگر دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر مطالعہ کیا جائے تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں جتنے بھی غیر قانونی کام کرنے والے لوگ ہیں وہ پولس سے اس لیے نہیں ڈرتے کیوں کہ وہ کسی نہ کسی بہانے پولس والوں کو پیسہ کھلاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پولس ان کے گناہوں کی طرف سے آنکھ موند لیتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون کو توڑنے والے یہ شر پسند اور سماج دشمن عناصر ایسی سرگرمیوں کو انجام دے دیتے ہیں، جس کا شمار دہشت گردانہ واقعات میں ہونے لگتا ہے۔
اب آئیے بم دھماکوں کے پیچھے کارفرما اپنی دوسری بنیادی غلطیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ چند دنوں قبل ہمارے ایک جاننے والے (جو اتفاق سے ایک صحافی بھی ہیں) کی موٹر سائیکل غائب ہوگئی۔ وہ بیچارہ دوڑا ہوا، پولس تھانے گیا اور تھانہ انچارج سے اس کی شکایت کی، اس نے اپنی طرف سے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر بھی درج کرانے کی کوشش کی، لیکن پولس نے ایف آئی آر درج نہیں کی اور اسے سمجھا بجھا کر گھر واپس بھیج دیا کہ کچھ پتہ چلا تو ہم آپ کو ضرور بتا دیں گے۔
مان لیجئے کسی دہشت گرد گروپ نے کہیں دھماکہ کرنے کے لیے چوری کی گئی اس موٹر سائیکل کا استعمال کردیا، تو اس میں پھنسے گا کون؟ ظاہر ہے جس کے نام پر یہ موٹر سائیکل تھی، وہی پھنسے گا، کیوں کہ دھماکے کے بعد پولس کو ایک پختہ ثبوت مل جائے گا کہ فلاں جگہ پر کیے گئے دھماکے میں فلاں شخص کے نام سے خریدی گئی موٹر سائیکل کا استعمال ہوا ہے۔ پولس آئے گی، اسے اٹھاکر لے جائے گی اور پھر پورا میڈیا ہفتوں مہینوں تک اپنے طریقے سے پورے ملک کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہے گا کہ اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ یہی شخص ہے۔ یہ شخص اپنے بچاؤ میں کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کر سکتا۔ البتہ جس وقت اس کی بائک چوری ہوئی تھی، اور اس نے پولس کو اس کی اطلاع دی تھی، اس وقت اگر اس کی ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو اس کے ہاتھ میں آج اپنے بچاؤ میں ایک پختہ ثبوت ہوتا، جس کی بنیاد پر شاید وہ دہشت گردی کے اتنے بڑے الزام سے بچ جاتا۔
ملک میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد جس طرح اور جتنی تیزی سے چند لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر ان کے خلاف ثبوت بھی جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر اسی قسم کے حالات سے دو چار ہوتے ہوں گے۔ کسی کے پاس سے فرضی پاسپورٹ ملتا ہے اور پھر پولس کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ٹریننگ لینے کے لیے پڑوس کے ملک گیا تھا جہاں سے اسے پوری ٹریننگ، پیسے اور دھماکہ خیز مادّے کے ساتھ ہندوستان میں بم دھماکے کرنے کے لیے واپس بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ ہر معاملے میں نہ سہی ایک دو معاملے ایسے ضرور سننے کو مل جاتے ہیں کہ چونکہ پاسپورٹ قانونی طریقے سے بنانا ایک ٹیڑھی کھیر ہے جب کہ پولس یا پاسپورٹ دفتر میں کام کرنے والے کسی ملازم کو پیسے کھلاکر آسانی سے پاسپورٹ بنوائے جا سکتے ہیں، اس لیے اس قسم کے فرضی پاسپورٹ بنا دیے گئے اور بعد میں وہ شخص دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پایا گیا۔
یہ ہیں وہ بنیادی کمزوریاں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم واقعی ملک کے اندر امن و امان چاہتے ہیں۔ آج ملک کے عام شہریوں کی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ چونکہ کوئی بھی سرکاری کام جائز طریقے سے نہیں کرایا جاسکتا ، اس لیے ہر کام ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے کرنے میں حرج کیا ہے، پکڑے جانے پر پولس والوں کو پیسے کھلا دیں گے، معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ ملک سے دہشت گردی کو اگر ختم کرنا ہے، تو لوگوں کی اس ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب سرکاری ملازمین رشوت لے کر کام کرنا بند کردیں اور پولس والے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پیسہ لے کر کسی بھی غلط کام کو کرنے کی اجازت نہ دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب پولس والے سے پوچھا جاتا ہے کہ بھئی! پیسہ وصولی کیوں کرتے ہو، تو جواب ملتا ہے کہ صاحب کو پہنچانا پڑتا ہے۔ اب وہ صاحب کون ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صاحب لوگ اگر چاہیں تو ملک کے اندر پرندہ پر نہیں مار سکتا، سرحد پار سے کیا ملک کے اندر کے کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی جگہ پر جاکر بم رکھ دے اور بے گناہوں کے خون سے ہولیاں کھیلتا رہے۔ صاحب کا اگر یہ فرمان پولس والے کو مل جائے کہ میں کچھ نہیں جانتا، میرے حلقے یا علاقے میںایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو تھانہ انچارج کی خیر نہیں، دہشت گردوں کو تو بعد میں پکڑا جائے گا پہلا جواب تو آپ پولس والوں کو دینا ہوگا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ پھر دیکھئے، یہی پولس والے کیسے ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔
شیو راج پاٹل جب وزیر داخلہ تھے، تو ملک میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے کئی واقعات پیش آئے جن میں 26/11 کا ممبئی حملہ بھی شامل ہے، لیکن وہیں جب پی چدمبرم ملک کے نئے وزیر داخلہ بنے تو اچانک ان بم دھماکوں کا سلسلہ بھلا کیسے تھم گیا؟ ظاہر ہے کہ سرکار نے جہاں دہشت گرد عناصر پر لگام کسنے کی ایماندارانہ کوشش کی، وہیں دوسری طرف سرکاری ایجنسیوں کی بھی ذمہ داری اور جوابدہی ضرور طے کی ہوگی، تبھی اتنے اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن گزشتہ 13 جولائی کو ممبئی میں ایک بار پھر تین بم دھماکے ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کی سطح پر اب بھی کچھ نہ کچھ کمزوری رہ گئی ہے، جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دھماکوں کے بعد پور ے ملک سے لوگوں کو گرفتار کرنا، پڑوسی ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا، بی جے پی کا کانگریس حکومت کو ذمہ دار قرار دینا اور اس کی پالیسیوں کو کوسنا اور پھر کانگریس کا پلٹ وار کرتے ہوئے آر ایس ایس وغیرہ کی طرف نشاندہی کرنا تو بہت آسان کام ہے۔ دھماکے کے بعد جھوٹی سچی کہانی گھڑ لینا بھی بہت آسان کام ہے۔ لیکن اصل کام جس کو کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ دھماکہ ہونے سے پہلے ہی اس کا پتہ لگا لیا جائے، بے قصوروں اور معصوموں کو مرنے سے بچا لیا جائے، اس کی سازش کرنے والے افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اگر کہیں پر پولس سے خطا ہوئی ہے تو اسے بھی نہ بخشا جائے۔ 26/11 حملے میں کسی بھی پولس والے کو سزا نہیں ہوئی۔ کیوں نہیں ہوئی، اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ سرکار اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں قانون کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف ملک کے عوام میں عزائم کی کوئی کمی ہے۔ ہر آدمی اپنا کام ایمانداری سے کرے اور الزام دوسروں پر تھوپنے سے پرہیز کرے، تو شاید ہم ایک پرامن ہندوستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment