Wednesday 27 July 2011

کابینہ میں نئی ردوبدل، بے وقت کی راگنی

وسیم راشد
وزیراعظم منموہن سنگھ نے حالیہ دنوں میں دوسری بار اپنی کابینہ میں ردو بدل کی ہے۔ اس ترمیم میں کچھ نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں تو کچھ پرانے وزراء کو فارغ کردیا گیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ترقی دے کر کابینی درجے کا وزیر بنا یا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 نئے چہروں کو قلمدان دیے گئے ہیں جبکہ 7کو  باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ در اصل منموہن سنگھ پر حزب اختلاف کے ساتھ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی جانب سے ایک عرصے سے یہ تنقید کی جارہی تھی کہ وہ گزشتہ حکومت کے مقابل اس بار سست روی کے شکار ہوگئے ہیں، ساتھ ہی ان پر یہ بھی الزام تھا کہ ان کے کئی وزراء اپنی ذمہ داریوں کوبہتر ڈھنگ سے نہیں انجام دے رہے ہیں۔ اس تنقید سے بچنے کے لیے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں ردو بدل کیا ہے ۔کابینہ میں ان کے اس رد وبدل کو الگ الگ نظریے سے دیکھا جارہا ہے۔کوئی اسے عوام میں کانگریس کی بگڑتی ساکھ کو بحال کرنے اور آنے والے سال میں اتر پردیش میں ہونے والے عام انتخاب کی تیاریوں کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے عوام کو بہلانے کے لیے ایک لالی پاپ سے تعبیر کررہا ہے۔حقیقت جو بھی ہو، لیکن منموہن سنگھ کے اس ردو بدل سے یہ اشارہ تو مل ہی رہا ہے کہ ان پر سست روی کا اوران کی پارٹی پر بد عنوانی اورمہنگائی پر قابو نہ پانے کا جو الزام لگتا رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے یہ ایک حتمی اور آخری کوشش کی گئی ہے،تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اس ردو بدل کے بعد اب ملک کے اندر پھر کبھی کوئی 2 جی اسپکٹرم  نہیں ہوگا،اور نہ ہی آدرش گھوٹالے جیسے واقعات ہوں گے اور نہ ہی کوئی وزیر دولت مشترکہ کھیلوں میں گھپلے کے الزام میں شک کے دائرے میں آئے گا ۔اگر انہوں نے واقعی ایسا ہی سوچا ہے تو ان کی یہ حکمت عملی کچھ کارگر نظر نہیں آرہی ہے،کیوں کہ چند وزراء کو تبدیل کردینے سے مسائل کا حل نہیںنکالا جاسکتا۔ بلکہ اس کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کلیدی وزارتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ وزارتیں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہی ہیں۔ اگروہ اس میں کامیاب نہیں ہورہی ہیں تو ان وزارتوں میں ہی اصلاح و ترمیم کی جائے۔ ایسا اس لیے کہ کسی بھی حکومت کی شبیہ کو عوام میں  بہتر بنانے کے لیے انفرادی طور پر وزراء کے فیصلے کا بہت بڑا رول نہیں ہوتا بلکہ اس میںمجلس وزراء کا بڑا رول ہوتا ہے اور چونکہ اب بھی پرانے لوگوں کا دبدبہ قائم ہے اور کلیدی وزارتوں میں پرانے چہرے ہی موجود ہیں لہٰذا اس معمولی تبدیلی سے کسی بڑے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔دوسری اہم بات یہ کہ وزیر اعظم کو قلمدانوں کی تقسیم کے وقت ملک کی 29 ریاستوں کی نمائندگی اور آبادی کے تناسب کا خاص خیال رکھنا چاہیے،جو اس ردو بدل میں نظر نہیں آرہا ہے۔بلحاظ آبادی مسلمانوں کو نمائندگی دینے سے موجودہ حکومت قاصر رہی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رد وبدل کا یہ عمل اب بھی ہر خطے اور ہر طبقے کو مطمئن کرانے میں پوری طرح ناکام ہے۔ایسی صورت میں جن طبقوں یا جن ریاستوں کو مناسب نمائندگی نہیں مل سکی ہے اس کے لیے منموہن سنگھ کا رویہ کیا رہتا ہے اور ان ریاستوں اور طبقوں کو وہ کس طرح خوش رکھ پاتے ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ محض چند چہروں کی تبدیلی سے حکمرانی کے نظام میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔
ممکن ہے فی الوقت وزیر اعظم کی نگاہ اتر پردیش میں ہونے والے انتخاب پر ہو، اور اسی کو مدّنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس نئے رد و بدل کو انجام دیا ہو۔اگر ایسا ہے تو اس میں بھی انہیں کوئی خاص کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے،کیوںکہ ایک طرف ان کے اس عمل سے یوپی کے کانگریسی کارکنان خاص طور پر راجپوت برادری کے لوگ نالاں نظر آرہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یوپی میں راجپوت ووٹروں کی بڑی اہمیت ہے،اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مایا وتی نے پچھلے انتخاب میں 10 راجپوتوں کو ٹکٹ دیا تھا،جن میں 4 راجپوت اس وقت ممبر پارلیمنٹ ہیں،لیکن منموہن سنگھ نے حالیہ ردو بدل میں راجپوتوں کو کوئی نمائندگی نہیں دی،جس کا منفی اثر آنے والے الیکشن پر پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف نئے چہروں میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے مسلم کارکنان بھی مایوسی کے شکار ہیں،ایسے میں آنے والا الیکشن کانگریس کے لیے کوئی خوشخبری لے کر آئے گا، یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ساتھ ہی سلمان خورشید جو وزارتِ اقلیتی امور کی دیکھ بھال کررہے تھے، انہیں وزارتِ قانون دے دی گئی ہے اور اقلیتی امور کی ذمہ داریاں بطور اضافی ان کے پاس رہنے دی گئی ہیں۔اس سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ حکومت کو اقلیتی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے،اگر دلچسپی ہوتی تو اقلیتی امور کی وزارت کسی نئے وزیر کو باضابطہ طور پردی جاتی۔ اگرچہ خود وزیر اعظم کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے مگر ممکن ہے یہ فیصلہ انہیں کانگریس ہائی کمان کے دبائو میں آکر کرنا پڑا ہو۔
اگر وزیر اعظم وزارتوں میں ردو بدل کرکے واقعی ملک میںخوشحالی لانے اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے ان وزراء کو باہر کا راستہ دکھانا چاہیے تھا جن پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح بد عنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، کیوں کہ جب تک یہ وزراء کیبنٹ میں شامل رہیں گے اس وقت تک عوام کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کئی ایسے وزراء جن کو عام آدمی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کو بھی اہم قلمدان تفویض کردیے ۔ان کے اس فیصلے کو سیاسی مبصرین بے یقینی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، انہیں نہیں لگتا کہ اس رد و بدل سے حکومت مہنگائی یا بد عنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، البتہ کانگریس کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اس فیصلے کو ایک عمل لاحاصل سے تعبیر کرکررہا ہے۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سید شاہ نواز حسین کہتے ہیں کہ پو پی اے حکومت داغدار، اور لاسمتی کی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کابینہ سے وزیر داخلہ پی چدمبرم، وزیر مواصلات کپل سبل اور ولاس راؤ دیش مکھ کو نہیں ہٹایا،جبکہ مسٹر چدمبرم بھی 2 جی اسپکٹرم کے گھوٹالے میں اتنے ہی خطاکار ہیں جتنے کے وزیر مواصلات اے راجا۔ اسی طرح کپل سبل نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے جرمانہ کی رقم میں زبردست کمی کرکے اسے راحت دی اور ولاس رائو دیش مکھ کا نام آدرش ہائوسنگ سوسائٹی کے گھوٹالہ کے سلسلے میں آیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام کو اس بات کی امید تھی کہ وزیر اعظم داغدار وزیروں کو باہر کا رستہ دکھائیں گے مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
اگر غور کیا جائے تو سیاسی مبصرین کے یہ نظریات حقیقت کے بہت قریب ہیں، کیوں کہ منموہن سنگھ نے جو نئی کابینہ تشکیل دی ہے یہ محض دکھاوے کا ایک عمل لگتا ہے، جس میں وزارتیں تو منتقل کی گئی ہیں،نئے چہرے توشامل کیے گئے ہیں لیکن ان سے کوئی نئی امید نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ اگر یہ تشکیل عوامی فائدے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی تو وزارتوں میں جو ردو بدل ہوا ہے اور کچھ وزراء کے قلمدان منتقل کیے گئے ہیں ،ان میں عوامی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں عوامی ضرورتوں سے زیادہ پارٹی کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے اور وزارت کی اٹکل پچو تقسیم کردی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جے رام رمیش جن کے پاس ماحولیات کی وزارت تھی، اور جنہوں نے متعلقہ وزارت میں کئی اہم فیصلے اور اقدامات کیے،لیکن ان سے ماحولیات کی وزارت چھین کر دیہی ترقیات کی وزارت سونپ دی گئی، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ماحولیاتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کو منظوری دینے میں مزاحمت کی تھی،جس کی وجہ سے حکومت کو بے چینی محسوس ہورہی تھی لہٰذا ان سے یہ وزارت لے کر مزاحمت کے دروازے بند کردیے گئے ۔وزیر قانون ویرپا موئیلی کے قلمدان کی تبدیلی میں بھی سیاست کا ہی اثر دکھائی دیتا ہے،کیوںکہ لوک پال بل کے معاملے سمیت کئی امور پر دیگر وزارتوں کے ساتھ ان کی نہیں بن رہی تھی۔حکومت یہ چاہتی تھی کہ سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہو اور لوک پال بل میں وہی نکات شامل ہوں جو کانگریس کے لیے بارآور ہوں،ظاہر ہے موئیلی کے اختلاف کی وجہ سے کانگریس کے لیے پریشانیاں پیدا ہورہی تھیں لہٰذا ان سے وزارت قانون لے کر ان پریشانیوں کا سد باب کردیا گیا۔ گویا کابینہ کی نئی رد و بدل میں عوامی فائدے کم اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے عزائم زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ نیا ردو بدل کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے ہوا ہے یا عوامی و قومی فائدوں کے لیے۔

Wednesday 20 July 2011

پد یاترا: یو پی الیکشن کا ترپ کا پتہ


وسیم راشد
کانگریس کے شہزادے نے یوپی الیکشن میں مایاوتی سرکار کا تختہ پلٹنے کا پورا ارادہ کر لیا ہے اور اس کے لیے انہوں نے کسانوں کا ساتھ دینے کے علاوہ مایا وتی سرکار پر پوری طرح حملہ کردیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ اترپردیش کو دلدل میں لے جارہی ہیں۔علی گڑھ تک کی پد یاترا کے تیسرے دن راہل گاندھی نے گائوں کے لوگوں کو  ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی پوری یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے بار بار یہ بھی کہا کہ دلال اس ریاست کو چلا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی کی مایا وتی سرکار میں کئی خامیاں ہیں۔عصمت دری ، لوٹ مار اور افسروں کی من مانی کی خبروں سے لے کر کسانوں کی زمین کو کم قیمت پر لے کر بلڈروں کے ہاتھوں فروخت کرکے بڑی قیمت وصول کرنے جیسے واقعات  مایا وتی کی حکومت پر ایک بد نما داغ ہے اور ان کو عوام کے سامنے لانے کے لیے راہل گاندھی نے جو قدم اٹھایا ہے اور کسانوں کا ساتھ دینے اور ان کے حقوق واپس دلانے کے لیے پدیاترا کا  جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ اپنے آپ میں ایک اچھا قدم ہے،لیکن اس وقت ہمارے ذہن میں بار بار ایک محاورہ آرہا ہے کہ راہل جی کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آرہا ہے مگر اپنی شہتیر نظر نہیں آتی ہے۔یو پی سرکار کو انہوں نے ایک دلال سے تعبیر کیا ہے۔میں یوپی سرکار کے دفاع میں کچھ کہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس وقت میرا یہ موضوع ہے،لیکن جو بات میرے ذہن میں بار بار آتی ہے ،یہ ہے کہ یوپی سرکار کو دلال کہنے سے پہلے انہیںایک مرتبہ مرکز میں اپنی سرکارکی کارکردگی پر نظر ڈال لینی چاہیے جو بد عنوانیوں کے متعدد الزامات سے گھری ہوئی ہے۔2 جی اسپیکٹرم کا معاملہ ہو یا دولت مشترکہ کھیلوں میں گھوٹالے کا الزام ، آدرش گھوٹالے ہوں یا پھر پی ایف میں ہیرا پھیری۔غرض یہ وہ الزامات ہیں جو راست کانگریس سرکار پر عائد ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاملات اتنے سنگین ہیں کہ اس کا جواب دینا کانگریس کے لیے بھاری پڑ رہا ہے، ایسے میں وہ اس پد یاترا کے موقع پر یوپی سرکار کو دلال کہہ کر عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ ان الزامات کی وجہ سے عوام میں کانگریس کی جو شبیہ بگڑی ہے اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں،کیا وہ اپنی اس مہم کو آنے والے الیکشن میں کیش کرانا چاہتے ہیں؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ، چونکہ بہار میں گزشتہ الیکشن کے موقع پر اپنی انتھک کوششوں کی وجہ سے انہیں زبردست کامیابی کی امید تھی، مگر انہیں صرف مایوسی ہاتھ لگی اور نتیش کمار کی پالیسی نے انہیں بہار کی زمین پر قدم جمانے کا موقع نہیں دیا، اب وہ یوپی میں اپنی سیاسی طاقت دکھا کر بہار کی خفت مٹانا چاہتے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صوبہ یوپی جس کا مرکز میں حکومت بنانے اور بگاڑنے میں بڑا کردار ہوتا ہے  اوریہ یہاں سیاسی قدم جمانااسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مایا وتی کی مضبوط سیاسی دیوار میں نقب لگائی جائے۔اس کام کے لیے انہیں کسی موقع کی تلاش تھی اور اب جبکہ کسانوں کی زمین کا معاملہ ان کے ہاتھ لگا ہے تو وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے اور اس کا فائدہ اٹھا کر مایا وتی کے خلاف ماحول بنا کر اپنے لیے زمین ہموار کررہے ہیں،جیسا کہ اس طرح کے اشارے مختلف پارٹی کے لیڈران بھی دے چکے ہیں۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر شاہ نواز حسین نے راہل گاندھی کی اس پد یاترا کو ’’ کانگریس کا ایک منصوبہ بند پروگرام ‘‘ کہاہے۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈر شیوپال سنگھ یادو نے  کہا کہ ’’ راہل کی پد یاترا ایک ڈرامہ ہے، وہ گائوں والوں کے ساتھ کھانا کھاکر ان غریبوں کو کیا دے سکیں گے‘‘۔ اس سلسلے میں اوما بھارتی نے راہل گاندھی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جس طرح بھٹہ پارسول میں جاکر کسانوں کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں، اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر میں جاکر ان کسانوں کے بارے میں باتیں کرتے اور لینڈ ایکوائرمنٹ کے تعلق سے کسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی فیصلہ کرواتے۔ بی کے یو کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’جو دہلی  کے اے سی روم میں بیٹھنے کے عادی ہوں وہ کسانوں کے لیے کیا لڑائی لڑ سکیں گے، راہل پہلے کھیتوں میں کام کرنا سیکھیں پھر کسانوںکے حقوق کی باتیں کریں‘‘۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ راہل کی پد یاترا کے پس پردہ کسانوں کے لیے ہمدردی ہوسکتی ہے ،اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی مسئلے کا حل یا ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے پد یاترا کی نمائش ضروری ہے؟ کیا عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ کسانوں اور عوام کے ہمدرد ہیں، گائوں گائوں جاکر میٹنگیں کرنا ،جس سے ریاستی حکومت کے لیے سیکورٹی کے مسائل کھڑے ہوں، ضروری ہے؟ یہ سچ ہے کہ پد یاترا کی اپنی ایک اہمیت ہے اور پد یاترائوں کے ذریعہ حکومت کی توجہ حساس مسائل کی طرف مبذول کرانے کی روایت رہی ہے اور اس کے فوائد بھی دیکھنے کوملے ہیں ۔چنانچہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے 1983 میں کنیا کماری سے باپو سمادھی، راج گھاٹ تک کی پد یاترا کی تھی۔ ان کی یہ پد یاترا عوام میں اپنی ساکھ بنانے اور اندرا گاندھی حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے تھی۔ انہوں نے اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی ۔اسی طرح 1987 میں سنیل دت نے اپنی بیٹی پریہ دت کے ساتھ عوام میں خود کو متعارف کرانے کے لیے پدیاترا کی۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ 1989 کے انتخاب میں انہیں کامیابی ملی۔ 2003 میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے آندھرا پردیش کی صورت حال میں سیاسی تبدیلی کے لیے ایک پد یاترا کی۔اس کا فائدہ انہیں 2004 میںریاست میں ہونے والے انتخاب میں ملا اور انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ فروری 2011 میں سابق کانگریس ایم پی جگموہن ریڈی نے ایک پد یاترا پولوارام ایریگیشن پروجیکٹ کی حمایت میں کی۔اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد لیڈروں نے پد یاترا کے ذریعہ عوامی رجحان کو اپنے حق میں کرنے، اور حکومت وقت کی کوتاہیوں کو منظر عام پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پد یاترا ہی ایک ایسا راستہ رہ گیا ہے جس کے ذریعہ ایک لیڈر بہترین لیڈر مانا جائے، یا اس لیڈر کو عوام دوست سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی جن کو ایک کامیاب وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا،نے کبھی کوئی پد یاترا نہیںکی اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کسی ریاست میں اس طرح کی مہم چلائی۔اس کے باوجود انہیں ایک اچھا لیڈر، عوام کا ہمدرد اور دلوں پر راج کرنے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
بہر کیف، ایک ایسے وقت میں جب کہ مہنگائی ایک قومی مسئلہ بنی ہوئی ہے،بدعنوانی کی وجہ سے عوام بے حال ہے ،ایسے میں راہل گاندھی کا یوپی ریاست میں کسانوں کے لیے پدیاترا کرنا واضح کرتا ہے کہ وہ یوپی میں کانگریس کے لیے میدان بنا رہے ہیں ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ریاستی سرکار کی کوتاہیوں کو اجاگر کیا جائے، مرکزی سرکار کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی جائے،مگر ایسا لگ رہا ہے کہ شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ عوام ان کی اس ہنگامی پد یاترا کو سمجھنے لگے ہیں اور یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس پد یاترا میں کسانوں اور عوام کی ہمدردی کم اور ووٹ بینک کی سیاست زیادہ نظر آرہی ہے۔اسی لیے وہ جہاں بھی جاتے ہیں یوپی سرکار کو اپنے نشانے پر ضرور لیتے ہیں۔بہرکیف، اس پدیاترا سے  وہ چاہے مایا سرکار کا تختہ پلٹنے میں کامیاب ہوں یا نہیں لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ لڈو ٹوٹے گا تو تھوڑا تو جھڑے گا ہی۔ وہ اپنی اس پد یاترا کے طفیل میں کچھ نہ کچھ سیاسی فائدہ حاصل کر ہی لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پد یاترا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ گائوں کے لوگوں کا من موہ لینا چاہتے ہیں۔لیکن وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Saturday 2 July 2011

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

وسیم راشد
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا…جو چیرا تو ایک قطرئہ خوں نہ نکلا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ایڈیٹرز سے بند کمرے میں ہوئی ملاقات کے بعد نہ جانے بار بار یہ شعر کیوں ذہن میں آرہا ہے۔ اس قدر ہنگامہ تھا کہ وزیر اعظم ایڈیٹرز سے ملنے والے ہیں، فلاں وقت طے ہوا ہے،5 اخبار کے ایڈیٹرز ہیں۔ لیکن جب ان 5 اہم ایڈیٹرز کے نام سامنے آئے تو پھر یہ کہاوت یاد آئی کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں، اپنے اپنوں کو دے ۔ بھئی اخبار ان کے اپنے ،ایڈیٹرز ان کے اپنے، سوالات ان کے اپنے، مطلب کے جوابات ان کے اپنے ،تو پھر کیسی کانفرنس ، اس میں عوام کہاں ہیں، عوام کے دکھ درد کہاں ہیں؟بند کمرے میں چلنے والی اس کانفرنس سے یہ 5 مدیران باہر آتے ہیں تو صرف اور صرف وزیر اعظم جی کی زبان بولتے ہیں۔ ان کے Spokes person  بن کر باہر نکلتے ہیں۔ 100 منٹ کی اس آپسی بات چیت میں باتیں تو بہت سی ہوئیں، سوالات بھی ہوئے، مگر کیا حل نکلا ، کچھ نہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ چاہے کمپٹرولر ہو، آڈیٹر جنرل ہو یا پارلیمانی کمیٹی ،شواہد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں تو CAG کی رپورٹ جس طرح شواہدات کے ساتھ سامنے آئی، اس میں کیا کر لیا گیا۔ CWG کے تمام گھوٹالے شواہد ات کے ساتھ ہی منظر عام پر آئے ،اس کے کتنے ممبروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔
وزیر اعظم سے جب پڑوسی ممالک کے بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے سری لنکا کی صورت حال پر بحث کی، بنگلہ دیش کی بات کی، لیکن پاکستان کے مسئلے پر سنجیدہ موقف اپنانے پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا۔ جب بابا رام دیو پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنا وہی رٹا رٹایا جملہ دہرادیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مگر ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وزیر اعظم کے سونے کا انتظار کیا گیا ۔ جب وہ سونے چلے گئے تو پولس کو کاروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر اس وقت کیا کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس کے نتائج کتنے برے ہو سکتے ہیں۔ اگر بابا رام دیو بھیڑ کو بھڑکانے میں کامیاب ہوجاتے اور اپنی گرفتاری دے دیتے تو شاید آج حالات ہی دوسرے ہوتے ، شاید وہ مار اکاٹی ہوتی جس کے نتائج بڑے بھیانک ہوتے، مگر وہ تو رام دیو کو اس وقت کچھ سوجھا ہی نہیں ، اسی لیے پولس ان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر اعظم کے یہ 5 نمائندے کہتے ہیں، وہ نہایت سکون اور اطمینان سے جواب دے رہے تھے۔ ان کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی، تو کیا یہ سبھی حقیقتاً وزیر اعظم کے ہی ترجمان بن کر کمرے سے باہر نکلے تھے۔کیا وزیر اعظم نے مہنگائی کے مسئلہ پر کوئی مثبت رائے دی۔ جب ان کی پارٹی  بر سر اقتدار آئی تھی تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،مگر وہ کتنا اپنا وعدہ نبھا پائے، یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں۔
اب وہ کہتے ہیں کہ 2012  میں مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا،پھر وہ اسی طرح کے وعدے باربار کر چکے ہیں۔اس وقت مہنگائی سے غریب عوام بے حال ہے ۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اگر اس وقت سبزیوں کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو
ٹماٹر        17 سے 50 روپے کلو
بھنڈی        7 سے 30 روپے کلو
گھیا        5 سے 15 روپے کلو
توری        20سے 60 روپے کلو
کالی توری        9 سے 25 روپے کلو
کریلا        10 سے 35 روپے کلو
آلو         5 سے 15 روپے کلو
پیاز        12 سے 20 روپے کلو
گوبھی         15 سے 35 روپے کلو
شملہ مرچ        20 سے 55 روپے کلو
یعنی چار گنا قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ  Lame Duck نہیں ہیں ۔کیوں اس گھٹیا استعارہ کی وضاحت کرنے کی وزیر اعظم کو ضرورت پڑی۔ صرف اسی لیے کہ وہ ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ اب عوام کا ان پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے اور عوام حقیقتاً ان کو کٹھ پتلی وزیر اعظم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس قدر مہنگائی، اتنے گھوٹالے،بدعنوانی، استحصال، کسانوں کی خود کشی، عورتوں پر ظلم وستم اور ان کی عصمت دری، آخر کیا ہورہا ہے اس ملک میں؟کیسے چل رہاہے یہ ملک؟ اور اگر وزیر اعظم کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے تو یقینا وہ  Lame Duck  کہے جائیں گے۔ خود وزیر اعظم ماہر معاشیات ہیں ۔ تیل کے دام ہر دو مہینے بعد بڑھ جاتے ہیں ، پٹرول ڈیزل عام آدمی کے لیے سونے چاندی کے مول جیسا ہے۔ وزیر اعظم کو تو اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ کم سے کم عوام کے نمائندوں یا میڈیا یا مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے میٹنگ ہی کر لیں، جو ان کو کچھ تو دکھ درد کا اندازہ ہو۔ عام طور پر ان کی شبیہ الگ تھلگ رہنے والے وزیر اعظم کی بن کر ابھری ہے اور ظاہر ہے پارٹی یا حکومت کے اہم فیصلوں میں ان کا رول بھی زیادہ نہیں ہے۔شاید یہی وجہ رہی ہو کہ اس وقت انہوں نے اپنی بات رکھنے کے لیے اعتماد کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی ہو۔ہاں ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے کہ آنے والے پارلیمنٹ سیشن میں جو پہلی اگست سے شروع ہونے والی ہے، اپوزیشن پارٹی بدعنوانی کا ایشو زور و شور سے اٹھانے کا ارادہ کر چکی ہے۔ ایسے ہی ایک طرف عوام کے ساتھ کمیونی کیشن گیپ اور دوسری طرف حزب مخالف کا یہ ارادہ یقینا کانگریس پارٹی کے لیے مشکلیں پیدا کر سکتا ہے۔شاید اپنی اس امیج کو بچانے کے لیے وزیر اعظم نے اس میٹنگ کا اہتمام کیا ہو، ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ دوری ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم ہر ہفتے سینئر صحافیوں کے ساتھ میٹنگ کریں گے اور اب جو بھی ہو ،یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ سال کانگریس کے لیے پریشانیوں اور مصیبتوں کا سال گزرا ہے، گھوٹالے اور وہ بھی ایسے کہ رقم گنتے گنتے بھول جائیں اور صفر لگاتے لگاتے تھک جائیں۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عوام امید کرتے ہیں کہ ان کے سینئر لیڈر عوام کے رابطے میں رہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اکثر چینل والے یہ پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم لوک پال بل کے تعلق سے کوئی واضح بیان کیوں نہیں دے رہے ، ہو سکتا ہے یہ سب قواعد اسی لیے کی جارہی ہو۔اب چدمبرم جی کو کون بتائے کہ عوام میٹنگ کرنے یا بار بار رابطے ہی میں آنے سے قریب نہیں ہوتے، ان غریبوں کے پیٹ کو روٹی چاہیے۔ ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا کوئی مل جائے تو یہ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کی نہیں پتا ،جو وزراء کام کر رہے ہیں ان کے بارے میں نہیں پتا،فنانس منسٹری میں BUG لگا دیا جاتا ہے ،ہوم منسٹری کو پتہ ہی نہیں کہ چیونگم لگا دیا گیا ہے اور پوری سیکورٹی Compromise ہو گئی ہے۔ بیان دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے  کے تعلق سے ( ان کا یہ جواب وہ بھی اپنا نہیں) میری کابینہ کے ساتھی کہتے ہیں کہ’’ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانے سے عدم استحکام پیدا ہوگا جو بعض دفعہ قابو سے باہر ہو سکتا ہے‘‘۔ اب منموہن جی سے کوئی یہ کہے کہ سب کچھ دوسرے کہتے ہیں، آپ بھی کچھ کہیے۔ آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ ہاں ایک اہم بات جو وزیر اعظم نے کہی کہ کوئی بھی آدمی ہندوستان کے وزیر اعظم کو بڑی آسانی سے ہٹا سکتا ہے اس لیے لوک پال سے کیا فائدہ۔تو منموہن جی سے کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ آپ نے ان کو اس لائق چھوڑا ہی نہیں کہ یہ بھوک سے نڈھال غریبی کی چکی میں پس رہے عوام کو آپ نے روزی روٹی میں ایسا الجھا دیا ہے کہ یہ آپ کو ہٹانے کے متعلق تو کیا سوچیں گے ، جواپنی بیماری، بھوک مری سے نجات نہیں پا سکتے۔
وزیر اعظم اگر اسی کمیونی کیشن گیپ کو ختم کرنا چاہتے ہی ہیں تو انہیں عوام کا دل پہلے جیتنا ہوگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بقول ’’ دی ہندو‘‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ وزدھاراجن  کہ عوام وزیر اعظم سے لوک پال بل جیسے ایشو اور بد عنوانی کے تعلق سے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔ہندوستان ٹائمس کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما کہتے ہیں کہ حکومت بد عنوانی کے الزام میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور تمام الزامات آپسی بات چیت سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم کی یہ میٹنگ ایک اسٹیج شو کے سوا کچھ بھی نہیں۔مخصوص صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرنا میٹنگ کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔ان تمام بیانات میں امیج  کنسلٹینٹ دلیپ چیرین کا بیان زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس وقت حکومت کو اپنی امیج بنانے کے بجائے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔انہیں مہنگائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت کانگریس پارٹی جو بھی کر رہی ہے صرف اور صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے کر رہی ہے۔اگر وزیر اعظم کو اپنی ساکھ بچانی ہے تو انہیں عوام  کے دل میں گھر بنانا ہوگا۔ ورنہ تو ہر ہفتے کیا ہر دن میٹنگ کر لیجئے ،مہنگائی غریبی ، بھوک مری، بے روزگاری، بد عنوانی، کرپشن، استحصال، ان سب کا خاتمہ نہیں ہو ا تو کانگریس کا خاتمہ لازمی ہے۔

Friday 1 July 2011

یہ حکومت غریبوں کے لئے نہیں امیروں کے لئے ہے؟

وسیم راشد
یہ میرے سامنے بڑی ہی خوبصورت سی تصویر ہے ہندوستانی خارجہ سکریٹری نروپما رائو اور پاکستان کے خارجہ سکریٹری سلمان بشیر کی۔ دونوں ہی بڑے پرجوش انداز میں اسلام آباد میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔مگر کیا یہ دل ملانے کا کام بھی کر پائیں گے۔ بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ نروپما جی اسلام آباد با قاعدہ پوراوفد لے کر گئی ہیں جس میں ہندوستان سے نہ صرف پاکستان کے سفیر بلکہ یہاں کے صحافی اور بڑے بڑے افسران شامل ہیں ۔ نروپما رائو نے کہا کہ وہ امن و سلامتی کے موضوع پر بات کرنے جارہی ہیں اور انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ان مذاکرات میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعمیری سوچ کے ساتھ شریک ہوں گی۔
اور اب اسی خوشی فہمی والی میٹنگ کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں دوسری ایک اور بڑی خبر کی طرف، جس میں ہندوستانی قیدیوں کو صومالیائی بحری قزاقوں کے ہاتھوں مسلسل 10 ماہ تک قیدی رہنے اور اذیتیں دینے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔اور اس رہائی کا سہرا جاتا ہے حقوق انسانی کے پاکستانی ممبر انصار برنی کے سرجنہوں نے باربار ان بحری قزاقوں سے مذاکرات کرکے ان تمام بد نصیبوں کو گھر اور بیوی بچوں کی شکل دکھلائی ہے۔اگر ان تمام دل خراش اور اعصاب شکن واقعہ کا جائزہ لیں تو بات لمبی تو ہوجائے گی مگر تمام تر واقعات کیسے کیسے ہوئے ، اس کا علم ضرور ہوجائے گااور پوری کہانی کا بھی ،کیونکہ ابھی تک کسی کو بھی اس پورے قصے کا علم نہیں ہے۔
26 جولائی 2010 کو 22 افراد پر مشتمل عملہ کراچی سے بحری جہاز ایم وی سوئزمیں افریقہ کے لیے روانہ ہوتا ہے۔2 اگست 2010 کو بحری قزاق ان پر حملہ کرکے ان سبھی کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ان کی رہائی کے لیے جہاز کے مالک سے ایک سو ملین ڈالر کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے اس جہاز کے مصری مالک عبد المجید مطار اور قزاقوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور صومالی قزاق ان سبھی کو تشد د کا نشانہ بنانا شروع کریتے ہیں۔ تبھی انصار برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، انصار برنی صاحب اس کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اور 27 فروری 2011 کو ان سبھی لٹیروں سے ٹیلی فون سے رابطہ کرتے ہیں ، مگر جب انصار برنی ان قزاقوں کو بتاتے ہیں کہ چاروں پاکستانی اور ہندوستانی سب غریب گھروں سے ہیں تو قزاق اس رقم کو پانچ ملین کر دیتے ہیں ۔اسی دوران جہاز کے کپتان وصی احمد، انصار برنی کو اس تشدد کے بارے میں بھی اطلاع دیتے ہیں جو سبھی یرغمالیوں پربار بار کیا جارہا تھا۔11 مارچ کو قزاقوں نے رقم 23 لاکھ امریکی ڈالر ز کردی، مگر ساتھ ساتھ خبردار بھی کردیا کہ اگر پانچ روز کے اندر اندر یہ رقم ادا نہیں کی گئی تو جہاز پر موجود لوگوں کو قتل کردیا جائے گا۔انصار برنی نے اسی دوران اسلام آباد میں مصر کے سفیر سے رابطہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ جہاز پر مصر، ہندوستان، سری لنکا اور پاکستان کے شہری  ہیں۔ اگر ان ممالک کی حکومتوں نے تعاون نہیں دیا تو حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔مگر نہ ہندوستان کی حکومت پر کوئی اثر ہوا نہ ہی مصر سے کوئی تعاون ملا۔ آخر کار انصار برنی 21 اپریل 2011 کو رقم کا انتظام کرنے ہندوستان آئے،جہاں انہوں نے ان مغویہ حضرات کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اسی دوران ایک ہندوستانی رکن پارلیمنٹ کے ڈی سنگھ نے تاوان کی بھاری رقم کا ایک حصہ دینے کا وعدہ کیا۔لیکن عین موقع پر وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور 6 لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان کرنے کے بعد ٹال مٹول کرنے لگے۔23 مئی 2011 کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی اور ان قزاقوں نے ایک مصری مغوی پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی ، جس سے وہ پوری طرح جھلس گیا ۔ انہوں نے سبھی پر تشدد کی انتہا کردی اور پینے کا پانی تک بند کردیا۔ انصار برنی کی اپیل پر ایک مرتبہ پھر 11 جون تک ڈیڈلائن بڑھادی گئی اور 10 جون کو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مقررہ وقت تک انہیں رقم نہیں ملی تو وہ مصری چیف انجینئر ویل صالح محمد کو گولی مار کر قتل کردیں گے۔ادھر انصار برنی ٹرسٹ نے اکیس لاکھ امریکی ڈالرز کی امداد جمع کرکے رقم شپنگ کمپنی کے ذریعہ مصر کی حکومت کے ٹریزری ڈپارٹمنٹ میں جمع کرادی اور مصر میں ایک پرائیوٹ کمپنی کا ایک جیٹ طیارہ بھی تیس ہزار ڈالر روزانہ اجرت پر لیا گیا، اور 13 جون2011 کو صومالی قزاقوں نے تمام یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ اس طرح 23 جون کو سبھی لوگ کراچی پہنچ گئے۔
اب آتے ہیں اس تلخ حقیقت کی طرف کہ یہ ہندوستانی قیدی جن میں دو ہریانہ کے، ایک ہماچل پردیش ، ایک تمل ناڈو اور ایک جموں و کشمیر کے اور ایک ممبئی کے تھے۔ ان سب کو 2.1 ملین ڈالر کے عوض رہائی ملی۔ سبھی لوگ24 جون کی صبح 9:36 پر اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر پہنچے۔ جس وقت یہ سبھی طیارے سے باہر نکلے وہ منظر دیکھنے کے لائق تھا، سبھی رشتے داروں کی آنکھوں میں بچھڑنے کا کرب اور ملنے کی خوشی قابل دید تھی۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن کو وہ اٹھائے ہوئے بے صبری سے اپنے والد یا رشتہ دار کا انتظار کر رہے تھے۔سب کی زبان پر ایک ہی نام انصار برنی ، انصار برنی۔ وہ اپنے اسی محسن کا بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے، دعائیں دے رہے تھے۔
یقینا ان قیدیوں کی رہائی باعث مسرت اور انصار برنی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اسی رہائی کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے رشتے داروں کو مبارکباد دی۔مگر کیا ایس ایم کرشنا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خوشی کا اظہار کریں۔ ان 6 ہندوستانیوں کے لیے ہماری حکومت نے کیا کوششیں کیں، کیا حکومت کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خود حکومت کو انصار برنی سے رابطہ کرکے ان کی مدد کی خواہش نہیں ظاہر کرنی چاہیے تھی؟
آپ کے ملک کے لوگ ،6 اہم قیمتی جانیں ،کیا ان کا اسی لیے کوئی مول نہیں تھا کہ وہ غریب لوگ تھے ۔اگر کوئی وزیر کا بیٹا ہوتا ، کارپوریٹ ورلڈ سے کوئی اہم شخص ہوتا، کوئی بڑا آئی اے ایس افسر ہوتا، کوئی بڑا تاجر ہوتا یہاں تک کہ کوئی بڑا نامی گرامی غنڈہ بھی، تو شاید حکومت حرکت میں آتی اور ان کو چھڑانے کے لیے دن رات ایک کر دیتی، مگر یہ قیدی بنائے جانے والے مزدور تھے۔ آج ایک پاکستانی پر پورا ہندوستان فخر کر رہا ہے ، ان بچوں کی آنکھیں انصار برنی کی شکر گزار ہیں۔ان کی بیویاں دونوں ہاتھ اٹھائے انصار برنی کو دعائیں دے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ دعا والے ہاتھ ہیں تو دوسری طرف نروپما رائو اور سلمان بشیر کے ہاتھ ہیں ۔کتنا فرق ہے دونوں ہاتھوں کے ملنے میں۔ حکومت کا رویہ اسی بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ملک کی حکومت صرف اور صرف امیروں اور ڈپلومیٹس کی جان کی حفاظت کی پرواہ کرتی ہے۔ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے عام آدمی کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ اربوں ،کھربوں روپے سوئس بینک میں جمع ہیں ، کروڑوں اربوں کا کھلواڑ کیا جارہا ہے اور غریبوں کی جان بچانے کے لیے حکومت کوڑی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں، ایسی ہی جمہوریت پر جب عوام سوالیہ نشان لگاتے ہیں تو ان ڈپلومیٹس کو کتنا برا لگتا ہے۔
جنہیں چھڑایا گیا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے، جنہوں نے چھڑایا وہ دوسرے ملک اور مذہب کے ،مگر ان سب میں ایک رشتہ ایک جیسا تھا ، وہ انسانیت کا رشتہ تھا۔ مجھے یاد ہے دہشت گرد وں نے مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی کو اغوا کر لیا تھا اور اس وقت مفتی سعید چاہتے تو تاریخ رقم کر سکتے تھے اور رشتے ناطوں سے الگ ہٹ کر صرف اور صرف ملک کے فائدے کے لیے سوچ سکتے تھے۔ تاریخ بھی بڑا بننے کا موقع ہر ایک کو بار بار نہیں دیتی۔ اگر مفتی سعید ایسا کرلیتے تو آج تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا اور جو مسلمانوں کو بار بار اپنے وطن پرست ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے  وہ صرف ایک عمل سے دیا جاتااور ہر مسلمان ان پر فخر کرتا مگر انہوں نے وہ موقع کھو دیا۔ حکومت بھی چاہتی تو انصار برنی کی جگہ ایس ایم کرشنا کو یہ واہ واہی کا موقع دے سکتی تھی مگر جس کی قسمت پر یہ نام اور شہرت لکھی تھی اس نے کیا۔ آج ہم سبھی کو انصار برنی پر فخر ہے۔