Wednesday 15 June 2011

اردو کو لے کر کانفرنسیس تو ہوتی ہیں پر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا

وسیم راشد
کبھی کبھی سیاست پر لکھتے لکھتے طبیعت گھبرانے لگتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی اور مسئلہ پر لکھا جائے، بلکہ مسئلہ پر ہی کیوں۔کیوں نہ کسی ادبی محفل کی بات کی جائے۔ تو چلیے اس بار بات کرتے ہیں دہلی میں یکم جون کو ہوئی آل انڈیا اردوایڈیٹرس کانفرنس کی ۔ دہلی کے انجمن ترقی اردو ہند کے دفتر میں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں دہلی کے تقریباً سبھی نامور صحافیوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا قیام بقول ڈاکٹر خلیق انجم 1927 میں عمل میں آیا اور آزادی کے بعد یہی پہلی تنظیم تھی، جس نے اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔اس وقت اس تنظیم کو مشہور صحافی، سابق ممبر پارلیمنٹ اور سابق سفیر جناب م۔ افضل صاحب چلا رہے ہیں اور جس زمانہ میں وہ انگولا کے سفیر تھے اس زمانہ میں بھی ان کے رفیق کار مودود صدیقی صاحب اس تنظیم کوفعال بنانے میں لگے رہے۔حالانکہ اس کا نام آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس ہے مگر اس کانفرنس میں دہلی کے ہی تمام صحافی اور شرکاء تھے ۔ ان معنوں میں قابل تحسین ہیں جناب م۔ افضل صاحب کہ انھوں نے پھر سے ان سوکھے دھانوں میں پانی ڈال کر اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کی ۔اس کانفرنس میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا کہ اردو صحافت کو کیسے بہتر بنایا جائے، اس پر تجاویز سامنے آنی چاہئیں۔ پہلے اس کانفرنس کے مثبت پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں کیونکہ عام طور پر اردوصحافیوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ہر بات میں منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ مگر شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک اچھے صحافی کو پہلے منفی پہلو کو ہی سوچنا چاہیے ۔پھر مثبت پہلو کی طرف آنا چاہیے۔ توخیر مثبت پہلو اس کاانعقاد تھا۔ ظاہر ہے دوبارہ سے کسی تنظیم کو متحرک بنانا مشکل کام ہے اور پھر سبھی اہم صحافیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ایک یہ بات ہم اردو پڑھنے لکھنے والوں میں بری ہے کہ جیسے ہی اسٹیج پر آتے ہیں اور مائک ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا اپنا کیا مقام ہے۔بس بنا مطلب کی تعریف و توصیف کرنے میں لگ جاتے ہیں جس سے کہ بس آرگنائزرز کو خوش کیا جا سکے ۔ یہی حال اس کانفرنس میں بھی تھا۔ مگر خود م۔ افضل صاحب نے جس طرح اردو اخبارات کو اشتہارات نہ ملنے کے مسئلہ کو خوبصورتی سے اٹھایا اور پھر معصوم مرادآبادی، جو خود بھی ایک نامور سینئر صحافی ہیں، نے اس کو تفصیل سے بتایا وہ بہت اہم بات تھی۔ م۔ افضل کا یہ کہنا کہ انگریزی اور ہندی میں تو اشتہار دیے جاتے ہیں اور خوداردو کے تعلق سے جو اشتہارات ہوتے ہیں وہ بھی انگریزی اور ہندی میں نظر آتے ہیں۔یہ اپنی جگہ بہت اہم بات تھی۔ انھوں نے ایک بات اور بڑی اہم کہی کہ اردو زبان کو جس طرح مسلمانوں کے ساتھ جو ڑ کر اس کا دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے وہ بھی سراسر نا انصافی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر خلیق انجم کا یہ کہنا کہ تمام اخبارات اور رسائل کے ذمہ داران متحد ہو کر اردو کی نشو و نما کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں اور لگاتار اپنے مطالبات دوہرائیں تو بات بنے۔یہاں ہم بہت ہی ادب سے خلیق انجم صاحب سے کہنا چاہیں گے کہ گزشتہ دو سالوں سے اردو ایڈیٹرس کی لگاتار کانفرنسز ہو رہی ہیں اور بھلے ہی گروہ بندی چل رہی ہو یعنی جناب ایک یہی آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس نہیں بلکہ ایک دوسرا گروپ بھی ہے جس کی جماعت میں بڑے بڑے نامور صحافی موجود ہیں۔تو خیر اس طرح کی کانفرنس کاانعقاد بھی ہوتا ہے ، تجاویز بھی رکھی جاتی ہیں، مگر نتیجہ ابھی تک کچھ نہیں نکلا۔ ایک بہت بڑی کانفرنس محترمہ شیلا جی، کپل سبل، ہارون  یوسف وغیرہ کے ساتھ بھی ایڈیٹرس نے کی تھی اور بار بار یہی کہا گیا تھا کہ اشتہارات اردو اخبارات کو نہیں ملتے، صحافیوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، مگر سب کچھ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ اس کانفرنس میں بھی بار بار یہ تجاویز رکھی گئیں کہ اردو صحافتی کورس کی سخت ضرورت ہے۔ ہاں اس ضمن میں اگر کسی نے قابل تعریف بات کی تو وہ انقلاب کے نارتھ انڈیا ایڈیٹر جناب شکیل شمسی نے کہی۔ جن کا کہنا یہ تھا کہ ترجمہ کا فن سکھانے کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے نوجوان صحافیوں کو زیادہ تر ہندی اور انگریزی سے ترجمہ کرنا پڑتا ہے جس میں وہ صحیح زبان اور صحیح الفاظ کا استعمال نہیںکر پاتے ۔ بے شک جہاں اردو کی بڑی بڑی تنظیمیں ، بڑے بڑے ادارے مشاعرے کے نام پر ایک ایک شاعر کو 10سے 12ہزار اور اس سے زیادہ دیتے ہیں، وہ ادارے صحافیوں کو ٹریننگ دینے کا انتظام کیوں نہیں کرتے۔ ہر سیمنار میں قورمہ، بریانی، پلائو، متنجن کھا کر اور ایک لمبی ڈکار لے کر ہم اردو والے ایسے اردو والے، ویسے اردو والے کرتے ہوئے ہم سبھی گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم ان اداروں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ غالب، میر ، مومن کے نام پر بہت کھا لیا ، کما لیا۔ اب کم سے کم اس زبان کی بقاء پر بھی توجہ دے دی جائے اور اس کے نوجوانوں کو بھی زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔دراصل نوجوان صحافیوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی میں ایسے الجھ جاتے ہیں۔ بس زبان سیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ صحافت بھی سیکھ لی۔ اگر ایسے نوجوان صحافیوں کو باقاعدہ تربیت کے ساتھ ساتھ کچھ پیسے بھی دیے جائیں تو پھر ان کے لیے آسانی ہو جائے۔ جہاں تک اردو صحافیوں کی تربیت کا تعلق ہے ، ترجمہ، رپورٹنگ، صفحہ بنانا، نیٹ سے خبروں کا نکالنا، مختلف اہم سائٹ تلاش کرنا، انٹرویو لینا وغیرہ یہ سبھی نئے آنے والے اردو صحافیوں کے لیے سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے بڑے بڑے اداروں کوہی آگے آنا ہوگا۔ اس کانفرنس میں ہفت روزہ نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی صاحب نے کئی مسائل اور تجاویز رکھیں، پر ان کی ایک بات بہت اہم تھی کہ اردو اخبارات کی ایک پروفیشنل تنظیم قائم کی جائے جو اخبارات اور صحافیوں کے حقوق کے لیے لڑ سکے۔ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ آخر اردو اخبارات ہی اس طرح کی کی کسم پرسی کا شکار کیوں ہیں۔سکھ ہم سے کم اقلیت میں ہیں ، پارسی بھی ہم سے کم اقلیت مانے جاتے ہیں ، مگر کبھی ان لوگوں کی طرف سے کوئی واویلا سننے میں نہیں آتا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے وہ یہ کہ ان سبھی مذاہب کے ادارے نیک جذبے کے تحت اپنے کام انجام دے رہے ہیں اور اس جذبہ سے ان کے بڑے بڑے لنگر بھی قائم ہیں۔ہمارے یہاں دیکھئے درگاہوں پر چلے جایئے تو بھکاری آپ کو درگاہ کے دروازے تک قدم نہیں رکھنے دیتے۔ اور لنگر بٹنے کا وقت ہو تو وہ دھکم دھکا اور کھینچا تانی ہوتی ہے کہ توبہ بھلی۔مگر کسی گرودوارہ یا مندر یا گرجا گھر کے باہر آپ نے نہ تو سکھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہوگا، نہ ہی لنگر کے وقت کوئی مارپیٹ دھکم دھکا ہوتے ۔ خیر ہم بھی نہ جانے کیسے اصل موضوع سے بھٹک گئے۔ تو ہم سبھی اردو والے ہر وقت روتے رہتے ہیں، نہ جانے کیوں ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہنا، گروہ بندی کرنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ ایسے میں جذبے کیا کام کریں گے۔اسی کانفرنس میں بے حد سینئر صحافی احمد مصطفی راہی، خالد مصطفی صدیقی،مودودصدیقی، محمد احمد کاظمی، چندر بھان خیال، کفیل احمد، عبد الرحمن، شاہد ماہلی،شکیل انجم ، شکیل حسن شمسی، سہیل انجم،احمد جاوید،معصوم مرادآبادی وغیرہ کافی تعداد صحافیوں کی تھی۔جس میں یقینا کچھ اہم تجاویز نکل کر سامنے آئی ہیں۔ اس کانفرنس میں م۔ افضل صاحب کو کانفرنس کا صدر بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔جو اس لحاظ سے بہت اہم تھی کہ ظاہر ہے تنظیم تبھی کامیاب ہوگی جب اس کا سربراہ چنا جائے اور یقینا م۔ افضل سے بڑھ کر اس کا کوئی حقدار نہیں۔ وہ جب بھی اس تنظیم کو لے کر چلے تو انھوں نے بہت حد تک مثبت کام کیے۔مگر ہمارا بس یہ کہنا تھا کہ بے شک م۔ افضل صاحب کو ہی صدر بنایئے مگر جمہوری ملک میں اگر آپ کسی کو نامزد ہی کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے مگر جب آپ الیکشن کر کے اسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہی طریقہ ٔ کار اپنایا جائے۔ شریف الحسن نقوی نے بڑی اہم بات کہی کہ ہمارے اخبار کے تراشے اگر حکومت اور انتظامی شعبوں تک پہنچ جائیں تو ہمارے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔چند تجاویز اس ضمن میں ہم نے بھی رکھی ہیں اور وہ یہ کہ پرانی دہلی کے لڑکے لڑکیوں کا تلفظ بے حد خراب ہوتا ہے۔پر وہ بھی پرانی دہلی کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر میڈیا کی راہ اپنا رہے ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا میں جا تو رہے ہیں مگر ان کا تلفظ بے حد خراب ہے، اس کے لیے بھی اگر کوئی تربیتی مرکز اندرون فصیل قائم کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ترجمہ کا کورس ضرور کرایا جائے اور علاقائی سطح پر جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی جگہ عام رائج الفاظ کا استعمال سکھایا جائے۔ایک جون اور دو جون دونوں ہی تاریخیں اہم ہیں۔ ایک جون کو یہ کانفرنس ہوئی اور دوجون کو پٹنہ میں ای ٹی وی اردو کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک بڑا سیمنار منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد کافی تھی اور بہت ہی اہم مسائل مسلمانوں کے تعلق سے سامنے آئے۔ اس لحاظ سے ای ٹی وی اردو کی کاوشوں کی ستائش بھی ہونی چاہیے اور ہم اردو والے اور مسلمان احسان فراموش یقینا نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو ہم اس کا احسان بھی مانتے ہیں،اور اس کے لیے اپنی پلکیں تک بچھا دیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment