Friday 11 March 2011

ہندوپاک دوستی کے نام: بوئے گل ایک سی ہے بوئے وفا ایک سی ہے

وسیم راشد
گزشتہ ہفتے پوری کوشش کی کہ اخبار کے شائع ہونے سے پہلے پاکستان کے سفر اور وہاں کی صورت حال پر لکھ کر کچھ بھیج سکوں، مگر چونکہ سفر میں تھی، اس لیے ممکن نہ ہوسکا۔ کراچی سے واپسی کے بعد اس قدر ہنگامے اور پروگراموں نے گھیر لیا کہ کچھ نہ پوچھو۔ فیض صدی تقریبات منائی جارہی ہیں، جس کا ہرطرف شور ہے۔ پاکستان میں راحت سعید صاحب جو کہ پوری دنیا میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات کو کراچی سے ہی کوآرڈینیٹ کر رہے ہیں، سے نہایت ہی خوشگوار ملاقات رہی۔ راحت سعید بے حد زندہ دل اور پر مزاح شخص ہیں۔ اعلیٰ درجہ کا ان کا مزاح بے حد لطف دیتا ہے۔ مجھ سے ایسے ملے جیسے کہ کوئی برسوں کے بچھڑے اپنے دوست سے ملتا ہے۔ ایک بے لوث بے غرض شخص جو نہایت مصروفیت کے باوجود میری طرف پوری طرح متوجہ رہا اور وہاں کے مشہور شاعر سحر انصاری کو اپنے گھر بلا کر ایک انٹرویو بھی کر ا دیا۔ راحت سعید صاحب سے پاکستان کی سیاسی، سماجی، ادبی سرگرمیوں پر کافی بات چیت ہوئی۔ ان کی بیگم بھی نہایت ملنسار اور خوش شکل تھیں۔ پہلے تو مجھ سے رسمی گفتگو کرتی رہیں اور بس ایسے نبھاتی رہیں جیسے کہ کوئی شوہر کے دوستوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نبھاتا ہے، لیکن جیسے ہی ان کو پتہ چلا کہ میں پرانی دہلی سے تعلق رکھتی ہوں اور میری نسلیں پشتیں بھی دہلی کی ہی ہیں، تووہ ایک دم آبدیدہ ہوگئیں اور مجھ کو لپٹا کر بولیں پرانی دہلی میں کٹرہ بابر بیگ میرے نانا کے نام پر ہے اور مجھے وہ کٹرہ دیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ تم نے وہ کٹرہ دیکھا ہے؟ میں نے ان کی محبت کو اپنے سینے میں جذب کرتے ہوئے کہا کہ میں اسی جگہ کی ہوں۔ انہی گلی کوچوں میں میرابچپن بیتا ہے تو وہ بے حد خوش ہوئیں اور شاید اسی تعلق کی بنا پر انہوں نے مجھے کھانا بھی کھلایا اور چلتے وقت ایک خوبصورت سا تحفہ بھی دیا۔ راحت سعید صاحب نے مسکرا کر بیگم پر طنز کیا کہ بھئی تم نے تو ہماری دوست کو اپنا کرلیا۔ ان کی بیگم کو میں نے دہلی آنے کی دعوت دی اور ان سے وعدہ کیا کہ ان کو ان کے نانا کا کٹرہ ضرور دکھاؤںگی۔ کراچی میں یوں تو ان دنوں امن و امان تھا۔ میں اپنے پہلے اداریہ میں یہ لکھ چکی ہوں کہ وہاں یوں تو نظم و نسق کی حالت بہت بہتر نہیں ہے، مگر کچھ چیزوں میں مجھے بہتری نظر آئی اور وہ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے یقینا خوش آئند ہے کہ وہاں تعلیم کا رجحان پہلے سے زیادہ بڑھا ہے۔ جہاں ایک طرف نوجوان نسل بے یقینی کی کیفیت میں جی رہی ہے، وہیں وہ تعلیم کی طرف بھی قدم بڑھا رہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیاں بے تکلفی اور بے فکری سے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں صرف وہاں چند منٹوں کے لیے ہی گئی تھی، وہ بھی ہمارے ایک کرم فرما تھے جو میری شدید مصروفیت کے باوجود میری خواہش پر مجھے وہاں لے گئے۔ وہاں جا کر وہاں کا ماحول دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ خواہش تو تھی کہ وہاں کے مختلف شعبوں میں جا کر صدر شعبہ سے ملاقات کروں، مگر پھر لگا کہ جہاں جانا ہے، وہاں پہنچنے میں تاخیر نہ ہوجائے، اس لیے اس خواہش کو دل ہی میں رکھ کر چند منٹوں کے لیے گھومتی رہی۔ 5 سال قبل بھی میں اس یونیورسٹی میں آئی تھی، اب 5 سال بعد مجھے زبردست تبدیلی نظر آئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی دھن میں مست خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ اپنے شعبوں کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ دل سے بے اختیار یہی دعا نکلی کہ خدا کرے ان سبھی کو ان کی منزل مل جائے۔ ایک اور تبدیلی مجھے کراچی میں نظر آئی، وہ یہ کہ پہلے صرف پاش کالونیوں جیسے ڈیفنس، گلشن اقبال، گلشن معمار وغیرہ میں ہی خواتین کار چلاتی نظر آتی تھیں، مگر اس بار ناظم آباد، عزیز آباد، لیاقت آباد میں بھی گلی کوچوں میں نوجوان لڑکیاں بھی اسٹیرنگ سنبھالے نظر آئیںا ور عمر دراز خواتین بھی۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایئر پورٹ سے شہر کو جوڑتی ہوئی بے حد شاندار سڑک بھی پہلی بار اتنی کشادہ اور صاف ستھری لگی۔ باہر سے آنے والوں کے لیے جو انٹری ہوتی ہے، اس کا آفس بھی ایئرپورٹ سے تھوڑی دور بنا دیا گیا ہے، جس سے ایک فائدہ ان کو تو ضرور ہے جو فلائٹ سے جاتے ہیں، مگر ریل سے جانے والوں کے لیے وہ بہت دور پڑتا ہے۔ وہاں کے عملہ اور وہاں کے ایس پی آغاصاحب سے میں کافی متاثر ہوئی۔ میری انٹری جاتے ہوئے بھی اور واپسی میں بھی جھٹ پٹ ہوگئی۔ آغا صاحب نے مجھے بیٹھا دیکھا تو خود ہی بلا کر بات چیت شروع کردی اور بہت کچھ ہندوستان کے بارے میں پوچھتے رہے ۔ کراچی میں جس طرف چلے جائیے ’’شادی ہال‘‘ کی بھرمار ہے۔ ہر سڑک پر جگمگاتے خوبصورت شادی ہال اس قدر حسین لگتے ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔ مجھے ایسا لگا کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے میں ان شادی ہالوں کی جگمگاہٹ بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ پوری کراچی میں ہر سڑک پر گہما گہمی اور کھانے پینے کی دکانیں عجب بہار دکھاتی ہیں۔ کراچی میں ہر بچہ، بوڑھا، عورت مرد کراچی شہر کے میئر مصطفی کمال کے بارے میں بات کرتا نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، وہ ان ہی کی بدولت ہے۔ ان سبھی کا کہنا ہے کہ کراچی کو میگا سٹی بنانے میں مصطفی کمال نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مصطفی کمال متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سندھ کی تیسری بڑی پارٹی مانی جاتی ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی کراچی شہر کو میگا سٹی بنانے پر مصطفی کمال کو مبارک باد دی ہے۔ کراچی شہر میں اب بھی ترقیاتی کام چل رہے ہیں اور کافی کچھ بہتری آئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان پاکستان دونوں ہی ممالک میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دونوں ہی ممالک ایک جیسی پریشانیوں سے نبردآزما ہیں۔ بجلی، پانی، تعلیم، بے روزگاری، مہنگائی یہ سب دونوں ہی ملکوں کے عوام جھیل رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بڑے بڑے شہروں میں بجلی، پانی کی سہولتیں اب بھی اتنی بہتر نہیں ہیں، اسی طرح گاؤں کی حالت تو اور بھی خراب ہے۔ پاکستان میں بھی عوام مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں۔ گوشت 470 روپے کلو، چینی 120 روپے کلو، سبزیاں آلو پیاز بے حد مہنگی ہیں۔ دودھ، دہی غرضیکہ ضروریات زندگی کی سبھی اشیاء مہنگی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل ہندوستان میں مہنگائی کے خلاف سبھی پارٹیوں کے لوگ سڑکوں پر اتر آئے، حالانکہ ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، مگر شروعات تو ہوئی۔ کراچی میں دن میں دو بار لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، مگر وقت طے ہے اور اس طے شدہ وقت سے نہ 2 منٹ پہلے اور نہ ہی 2 منٹ بعد، مقررہ وقت پر بجلی جاتی ہے اور مقررہ وقت پر آجاتی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے دن میں کسی بھی وقت بجلی چلی جاتی تھی، مگر اب طے شدہ وقت پر ہی جاتی ہے۔ کراچی میں یوں تو جنگ سب سے بڑا اخبار مانا جاتا ہے، مگر اب اے آر وائی گروپ کے ذریعے نکالے جانے والے اخبار کا بھی لوگوں کو شدت سے انتظار ہے، کیوں کہ جنگ کے سابق چیف ایڈیٹر محمود شام صاحب اس اخبار سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ جنگ پاکستان کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے۔ اس کی روزانہ اشاعت تقریباً 8 لاکھ ہے۔ یہ اخبار میر خلیل الرحمن نے 1940 میں دہلی سے شروع کیا۔ اس وقت اس اخبار کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور مسلم لیگ کی ترجمانی کرنا تھا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد کراچی کو دارالحکومت بنایا گیا، جہاں ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ بندرگاہ کی بھی سہولت تھی۔ کراچی ایک ابھرتا ہوا صنعتی شہر تھا۔ دہلی کے تین مسلم اخباروں روزنامہ ڈان، جنگ اور انجام نے آزادی کے بعد اپنے دفاتر کراچی منتقل کیے۔ آج ڈان اور جنگ کراچی کے سب سے بڑے اخبار مانے جاتے ہیں۔ میر خلیل الرحمن کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے میر شکیل الرحمن اخبار کے مالک ہیں اور محمود شام ایڈیٹر تھے، مگر اب انہوں نے اے آر وائی جوائن کرلیا ہے، جو کہ حاجی عبدالرزاق یعقوب کا گروپ ہے اور پاکستان میں بے شمار کمپنیاں، چینل اور ادارے اس گروپ کے تحت آتے ہیں۔ محمود شام صاحب نے ایک لنچ میرے اعزاز میں رکھا تھا، جس میں انہوں نے کراچی سے نکلنے والے سبھی اخباروں کے مدیر اور سینئر رپورٹرز سے میری ملاقات کرائی۔ ہمابخاری جو وہاں کے میڈیا کی جانی مانی شخصیت ہیں اور نیوپورٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی، انہوں نے سندھی چادر جس کو اجرک کہا جاتا ہے، اڑھا کر میری عزت افزائی کی۔ سبھی بے حد محبت اور خلوص سے پیش آئے۔ پرلطف گفتگو کے درمیان کھانا کھایا گیا، جس میں سبھی نے مجھ سے ہندوستان کے بارے میں مختلف سوالات کیے۔ یوں سمجھئے کہ میرا پورا انٹرویو لے ڈالا۔ اس کے بعد ایک شعری نشست کا اہتمام ہوا، جس میں مجھ کو بھی شعر پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ کئی چینلز کے لیے انٹرویوز ہوئے، سبھی لوگ بے حد محبت اور احترام سے بات کر رہے تھے۔ سبھی کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ مجھ ناچیز کو ہندوستان کی اردو اخبار کی پہلی خاتون مدیرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مجھے خود ہی یہ پتہ نہیں تھا، مگر دہلی میں، دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین اخترالواسع نے ہمیشہ ادبی اور سیاسی محفلوں میں میرا تعارف یہی کہہ کر کرایا۔ محمود شام صاحب نے کراچی آرٹس کونسل میں بھی ایک پروگرام رکھا تھا، جس میں ان ہی کے ساتھ میں شرکت کے لیے گئی۔ چاروں طرف مخلص اور محبت بھرے چہرے تھے۔ سبھی اپنے تھے کچھ بھی تو پرایا نہ تھا۔ شکل و صورت، رنگ، قد، لباس، بولنے کا انداز سبھی کچھ ہندوستانیوں جیسا۔ وہی پرتپاک استقبال، وہی خوبصورت کلمات، اخبار کی تعریف، ہندوستانیوں کے لیے محبت کا بے پناہ اظہار۔ اس سب نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ بے شمار تحائف دئے گئے، جس میں کتابوں کے تحائف بہت تھے، مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ وزن کی وجہ سے بے حد اہم خوبصورت یہ کتابیں مجھے چھوڑ کر آنا پڑیں۔ محمود شام صاحب نے اپنی کتابوں کا پورا سیٹ مجھے دیا تھا، جو میں شدت سے لانا چاہ رہی تھی۔ اس میں سے 4 کتابیں ہی میں لا ئی۔فیض صدی تقریبات کے سلسلے کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا۔  آج یہ اداریہ قلم بند کرتے ہوئے مجھے وہ بے حد مخلص اور پیارے لوگ یاد آرہے ہیں، جنہوں نے مجھ کو بے پناہ عزت و پیار دیا۔ علی سردار جعفری کی نظم مشرق و مغرب کا ایک شعر مجھے یاد آرہا ہے :
بوئے گل ایک سی ہے بوئے وفا ایک سی ہے
تیری اور میری غزلوں کی ادا ایک سی ہے
حقیقت میں سب کچھ ایک جیسا ہے۔ بس یہ سرحد، یہ ایک سفید لکیر نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ سبھی اپنے عزیز و اقارب سے مل پاتے اور ادبی، سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے۔ ویزا کا مسئلہ نہ ہو یا ویزا میں نرمی ہو تو شاید یہ دکھ، یہ درد اور یہ کرب بھی ہندو پاک کے عوام میں نظر نہ آئے۔
میری دعا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ دونوں ملکوں کے حالات بہتر ہوں اور دونوں ہی ملک ترقی کی راہ پر ساتھ ساتھ گامزن رہیں۔ اب بھی فیض صدی کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان سے ایک پورا وفد ہندوستان آیا تھا، جس میں راحت سعید، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، فیض کی دونوں بیٹیاں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی، امداد آکاش، یوسف سندھی وغیرہ شامل تھے اور ایسا شخص جس نے فیضؔ کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں وقت گزارا تھاظفراللہ پوشنی ہمارے درمیان تھا۔ بہت اچھا لگ رہا تھا سب سے مل کر۔ خدا سے یہی دعا ہے کہ دونوں ممالک کی یہ آپسی یگانگت، محبت، رواداری اور خلوص قائم رہے۔ اپنے اپنوں سے ملتے رہیں، امن کی آشا برقرار رہے۔

No comments:

Post a Comment